’سکوپ‘ انڈین رپورٹر کی کہانی جو جرم کی کھوج میں خود جیل پہنچ جاتی ہیں
’سکوپ‘ انڈین رپورٹر کی کہانی جو جرم کی کھوج میں خود جیل پہنچ جاتی ہیں
اتوار 25 جون 2023 7:44
خاور جمال
سکوپ کی کہانی سال 2011 کے تناظر میں فلمائی گئی ہے۔ (فوٹو: سکوپ)
انڈیا میں بنائی جانے والی سکوپ سیزن کی کہانی کرائم رپورٹرز کے اردگرد گھومتی ہے۔
سکوپ سیزن کا پلاٹ ایک سچی کہانی کے گرد گھومتا ہے جو انڈین صحافی جگنا ووراکی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’بائیکلا میں سلاخوں کے پیچھے‘ سے ماخوذ ہے۔
بائیکلا جیل انڈیا کے شہر ممبئی میں واقع ہے جہاں ان کو قانونی حراست میں رکھا گیا تھا اور ان پر انڈر ورلڈ سے تعلقات کے الزام میں کیس چلایا گیا تھا جس میں ان پر ایک اور صحافی کے قتل کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
جگنا وورا ایک کرائم رپورٹر تھیں جو فری پریس جرنل، مڈ ڈے، ممبئی مرر اور ایشین ایج کے ساتھ منسلک رہ چکی ہیں۔
اداکارہ کرشمہ تنا نے اس سیزن میں جگنا وورا کا مرکزی کردار جاگروتی پاٹھک کے نام سے ایسے شاندار اور بے عیب طریقے سے نبھایا ہے کہ ہر طرف ان کا ڈنکا بجتا سنائی دے رہا ہے۔
اداکار ہرمن باویجا جوائنٹ کمشنر ہرشوردن کے کردار میں نظر آئے۔ کسی زمانے میں لوگ ان کو ہریتک روشن کا ہم شکل کہتے تھے لیکن اب بڑھے ہوئے وزن اور نکلتے ہوئے پیٹ کے ساتھ اس روپ میں تو پہچانے ہی نہیں جا رہے۔
معاون اداکاروں میں سب اپنی جگہ بہترین کاسٹنگ کی مثال ہیں۔ تاہم سب سے قابلِ ذکر اداکار ذیشان ایوب کا کردار عمران صدیقی کا ہے جو جگنا وورا کے صحافت میں استاد حسین زیدی کی شخصیت پر مبنی ہے۔
کہانی سال 2011 کے تناظر میں فلمائی گئی ہے۔ جاگروتی پاٹھک (کرشمہ تنا) کو ایک ابھرتی ہوئی کرائم رپورٹر دکھایا گیا ہے جو اپنی محنت اور قابلیت سے سات سال کے اندر ہی ڈپٹی بیورو چیف کے عہدے تک پہنچ جاتی ہے۔
ان کو اپنے خاندان کا مکمل بھروسہ حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ صحافت کے میدان میں آگے بڑھتی جاتی ہے۔
جرائم سے جڑی سنسنی خیز خبریں سب سے پہلے حاصل کرنے کی دوڑ میں اول رہنے کے لیے ممبئی کرائم برانچ کے چکر لگانا ان کے لیے معمول کی بات ہے۔
اسی دوران قتل کا ایک واقعہ پیش آ جاتا ہے جس کے تانے بانے انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم اور اس کے حریف چھوٹا راجن تک دکھائی دیتے ہیں۔
ایک سینیئر کرائم جرنلسٹ جے دیپ سن بھی اسی قتل کی جانچ کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ کردار بنگالی اداکار پروسن جیت نے ادا کیا ہے جو اصل میں انڈین صحافی جیوتر موئے ڈے کی شخصیت پر مبنی ہے جن کو نا معلوم افراد نے دن دیہاڑے 11 جون 2011 میں قتل کر دیا تھا۔
جے دیپ خاص طور پر جاگروتی کو منع کرتا ہے کہ اس کیس سے دور رہو لیکن وہ نہیں مانتی اور کوشش کرتی ہے کہ چھوٹا راجن اس سے بات کرے اور انٹرویو دے جس میں وہ آخر کامیاب ہو جاتی ہے۔
جاگروتی اس کیس کو کھرچتی رہتی ہے اور یہی کھرچن سانپ بن کر اس کے وجود کو جکڑ لیتی ہے۔ کیس الٹا پڑ جاتا ہے اور جاگروتی کو جیل ہو جاتی ہے۔ خواتین کی جیل کے اندر کے مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔ عادی مجرم عورتوں کے درمیان پھنسی ملزمان عورتوں کی ہولناک زندگی کی عکاسی تکلیف دہ ہے۔
پرت در پرت کھلتے کیس کے راز اور عدالتی جنگ کی تفصیلات کے لیے آپ کو یہ سیزن دیکھنا پڑے گا۔
اس کہانی کے اندر بہت سے کردار ہیں جن میں سے کچھ کا صرف تذکرہ ہی ملے گا آپ کو ان کا حساب کتاب رکھنے کے لیے سیزن دیکھتے وقت توجہ مرکوز رکھنی پڑتی ہے۔ مثلاً انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم اور چھوٹا راجن، شوٹر کالیا اور حسین، اخبار کے رپورٹروں کے مخبر اور انڈین پولیس کے کچھ سابق افسران۔
اس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ سال 2000 سے لے کر اب تک 102 صحافی جو اغوا ہوئے یا قتل کر دیے گئے ہیں، ان کو کب انصاف ملے گا۔
ڈائریکٹر ہنسل مہتا نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سچی کہانیوں کو فلما کر ان میں نئی روح پھونک دیتے ہیں جو ناظر کے دل و دماغ پر دیرپا اثر چھوڑ جاتی ہیں۔ اس سے پہلے ہنسل مہتا SCAM 1992: The Harshad Mehta Story جیسی شاندار ویب سیریز تخلیق کر چکے ہیں جو کہ انڈین سٹاک ایکسچینج میں ہونے والے اب تک کے سب سے بڑے دھوکے کے بارے میں تھی۔
آئی ایم ڈی بی پر اس سیزن کی ریٹنگ 10 میں سے 7۔7 ہے جب کہ گیجٹس 360 ویب سائٹ اس کو 5 میں سے 3۔4 ریٹنگ دیتی ہے۔ آخر میں اس کہانی کے ذریعے یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ صحافت کے میدان میں جرائم کی خبروں کی کھوج لگاتے مرد اور خواتین صحافیوں کو کب تحفظ فراہم کیا جائے گا؟ یہ اغوا اور ہلاکتوں کا سلسلہ کب رکے گا؟ یا پھر جاگروتی پاٹھک کی کہانی کسی اور شکل میں پھر سے دہرائی جائے گی؟