Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کو غلافِ کعبہ کی تیاری کی سعادت کیسے ملی؟ 

25 مارچ 1963 کی دوپہر لاہور کے ہوائی اڈے کو جانے والی سڑک پر پیدل اور گاڑیوں پر ہزاروں افراد کا جلوس رواں دواں ہے۔ 
جلوس کے والہانہ جوش و جذبے میں اس وقت اضافہ ہو جاتا ہے جب اس کے وسط میں ایک گاڑی پر شیشے کے باکس پر فضا سے طیارہ پھولوں کی منوں پتیاں نچھاور کرنا شروع کرتا ہے۔ 
لاہور کی فضاؤں میں ہزاروں شہریوں کا جلوس اور عقیدت کے یہ مناظر کعبہ  کے مقدس غلاف کو خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب روانہ کرنے کی تقریب کا حصہ تھے۔ 
ہر سال حج کے بعد غلاف کعبہ (کسوہ) کی تبدیلی کے بعد پرانے غلاف کے ٹکڑے بطور عقیدت سعودی عرب سے پاکستان لائے جاتے ہیں۔ 
مگر ساٹھ برس قبل اس کے برعکس ہو رہا تھا۔ 
اس سال کسوہ کی تیاری کی سعادت پاکستان کے حصے میں آئی۔ 
سونے اور چاندی کے دھاگوں اور ریشم سے تیار ہونے والا یہ مقدس کپڑا 2022 سے قبل نو ذی الحجہ کی شام کو نئے غلاف سے تبدیل کیا جاتا تھا۔ 
گذشتہ برس سے کسوہ کی تبدیلی کی رسم کے لیے نئے اسلامی سال یعنی یکم محرم الحرام کے دن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ 
بنارس سِلک ہاؤس کی سعادت   
کراچی کے وحید الدین انصاری کا ریشمی پارچہ جات بنانے کا کاروبار تھا۔صدر میں واقع بنارس سِلک ہاؤس کو سعودی عرب کی طرف سے غلافِ کعبہ بنانے کا کام سونپا گیا۔
اگست 1962 میں ایک سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کر کے غلافِ کعبہ کی تیاری کے امکانات کا جائزہ لیا۔ 
پورے ملک میں ریشمی پارچہ جات کے کارخانوں کے دورے کے بعد اس کام کے لیے بنارس سِلک ہاؤس کا انتخاب کیا گیا۔ 
ابتدائی طور پر کسوہ کی بناوٹ، معیار اور میٹیریل کی نوعیت جانچنے کے لیے آزمائشی طور پر ایک ٹکڑا تیار کرکے سعودی عرب بھیجا گیا جو شاہ سعود کو پسند آگیا۔ 
کراچی میں مقیم ڈاکٹر رضوان اللہ انصاری غلافِ کعبہ تیار کرنے والے وحید الدین انصاری کے بیٹے ہیں۔ 

سعودی عرب نے پاکستان میں غلافِ کعبہ کی تیاری کے لیے بنارس سِلک ہاؤس کراچی کا انتخاب کیا (فائل فوٹو)

انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ 34 کے قریب کاریگروں نے ان کے والد کے زیرِنگرانی تین ماہ تک دن رات اس مقدس کام کو انجام دیا۔ 
سعودی حکومت نے 2000 میٹر کپڑا بنانے کا کہا۔اس مقصد کے لیے کالے رنگ کے سلک کا خصوصی دھاگہ سعودی عرب نے پاکستان کو مہیا کیا۔غلافِ کعبہ کو 62 الگ الگ حصوں میں تیار کیا گیا۔ 
ڈاکٹر رضوان کے مطابق بنارس سِلک ہاؤس میں غلاف کعبہ کی تیاری کے دوران کام کا معائنہ کرنے کے لیے صدر ایوب خان نے بھی دورہ کیا تھا۔ 
ان کے کام کے معیار کی وجہ سے 1982 میں حرم شریف کا اندرونی غلاف بھی ان کے والد نے تیار کرکے سعودی عرب بھجوایا۔ 
اس کے علاوہ روزہ پیغمبرِ اسلام کے غلاف کے لیے سبز رنگ کے خصوصی ریشمی غلاف کی تیاری کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی۔ 
بنارس سِلک ہاؤس کا سنگ بنیاد اس دور کے سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیزالدین نے رکھا تھا۔پہلے یہ شہر کے قدیم علاقے بولٹن مارکیٹ میں قائم تھا جسے 1960 میں صدر منتقل کیا گیا۔ 
غلاف کعبہ کی ملک گیر رونمائی    
پاکستان کے کاریگر اور ہنرمند باوضو ہو کر رات دن مقدس کام کی تکمیل میں جُت گئے۔فروری 1963 میں 700 گز ریشمی غلاف کی پہلی کھیپ ارض مقدس بھجوانے کے لیے تیار ہو گئی۔ 

اگست 1962 میں ایک سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کر کے غلافِ کعبہ کی تیاری کے امکانات کا جائزہ لیا (فائل فوٹو: ایس پی اے)

22 فروری 1963 کو پولو گراؤنڈ کراچی میں اسے عوام کی زیارت کے لیے رکھا گیا۔ اس روز عقیدت کے والہانہ مناظر دیکھنے کو ملے جب لاکھوں لوگ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے پولو گراؤنڈ پہنچ گئے۔ 
کسوہ کو شیشے اور لکڑی کے ایک مربع بکس اور فولاد کے دیگر آٹھ بکسوں  میں رکھا گیا تھا۔
اس تقریب میں دیگر اسلامی ممالک کے سفارتی نمائندے بھی موجود تھے۔ کمشنر کراچی افضل آغا نے مقدس پارچہ سعودی سفیر کے حوالے کیا۔ 
پاکستان میں اس وقت کے سعودی سفیر شیخ عبدالحماد الشبیلی نے غلاف کعبہ کی تیاری کے اولین روز سے تمام امور اور مراحل کی خود نگرانی کی۔
انہوں نے پاکستانی قوم اور ہنرمندوں کو خراج تحسین پیش کیا اور پاکستان میں کسوہ کی تیاری کو قوم کے لیے اعزاز قرار دیا۔ 
غلاف کعبہ کے پہلے حصے کو جلوس کی صورت میں ہوائی اڈے لے جایا گیا اور اسے خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب روانہ کیا گیا۔
کراچی میونسپل کارپوریشن کے وائس چیئرمین حافظ حبیب اللہ اسے سعودی عرب پہنچانے والوں میں شامل تھے۔ 
کراچی میں غلاف کعبہ کی رونمائی نے ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے افراد میں اس کی زیارت کے اشتیاق میں اضافہ کردیا۔ 

غلاف کعبہ کو 22 فروری 1963 کو پولو گراؤنڈ کراچی میں عوام کی زیارت کے لیے رکھا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسے سامنے رکھتے ہوئے پاکستان ریلوے کی ایک خصوصی بوگی تیار کی گئی جس نے دیگر بڑے شہروں میں اسے زیارت کے لیے لے جانا تھا۔ 
بنارس سِلک ہاؤس کے مالک نے غلاف کعبہ کے چھ میٹر کا ایک ٹکڑا اس غرض کے لیے مختص کر دیا جسے ملک بھر میں زیارت کے بعد بقیہ حصے  کے ساتھ ملا کر مکہ بھیجا گیا۔ 
کراچی سے خیبر میل پہلے پشاور پہنچی۔ تین مارچ کو اس شہر کی گلیاں اور سڑکیں دیدار کرنے والوں سے بھری ہوئی تھی۔چھتوں اور بالاخانوں پر سے ہزاروں عورتوں اور بچوں نے اس کا نظارہ کیا۔ 
کسوہ کے دیدار کے لیے بے چین ایک معمر شخص نے ایک اخباری نمائندے کو بتایا کہ ’میں گذشتہ 10 سال سے حج پر جانے کا خواہش مند تھا مگر قرعہ اندازی میں میرا نام نہیں نکلا۔ ’آج غلاف کعبہ کی زیارت کے بعد میری برسوں کی حسرت پوری ہو گئی ہے۔‘
کعبہ کے لیے بنائے گئے مقدس پارچے کی اگلی منزل راولپنڈی تھی۔15 مارچ کو بارش کے باوجود شہر میں ہزاروں افراد اس کی دید کے منتظر تھے۔
تلاوت قرآن اور نعت کی صداؤں میں راولپنڈی سٹیشن سے بہت بڑا قافلہ شہر کی مرکزی شاہراہ کے لیے روانہ ہوا۔ 
مغربی پاکستان کے اہم شہریوں کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی اس کے دیدار کے متمنی حضرات کے لیے زیارت کا بندوبست کیا گیا۔ 
25 مارچ کو کسوہ کا باقی حصہ بھی لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے حجاز روانہ کر دیا گیا۔ 

تاریخ دانوں کے مطابق 645 ہجری سے مصر کا قبطی کپڑا غلافِ کعبہ کے لیے مخصوص ہوگیا (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)

غلاف کعبہ کی تیاری کا آغاز کب ہوا؟ 
ہر سال دس ذی الحجہ کو نیا کسوہ مکہ کے گورنر کی طرف سے حرم کے متولی کے حوالے کر دیا جاتا ہے، جس کو  نئے اسلامی سال کے موقع پر پرانے غلاف سے بدل دیا جاتا ہے۔ 
اس خصوصی تقریب میں سینکڑوں افراد حصہ لیتے ہیں۔اسے مہارت اور عقیدت کے ساتھ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق نصب کیا جاتا ہے۔ 
تاریخ دانوں کے مطابق 645 ہجری سے مصر کا قبطی کپڑا غلافِ کعبہ کے لیے مخصوص ہوگیا۔اس کے ساتھ ساتھ حرم کے لیے خصوصی قالین بھی مصر میں تیار کیے جاتے تھے۔ 
انیسویں صدی کی تیسری دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ عبدالعزیز نے مقامی طور پر کسوہ کی تیاری کا آغاز کروایا۔اس دور میں یہ دیسی کھڈیوں پر بنایا جاتا تھا۔ 
سعودی حکومت نے مشینوں پر اس کی تیاری کے لیے مانچسٹر سے خصوصی لومز منگوائیں۔
بعد میں اس کام کے لیے خصوصی ہنرمند افراد اور جدید ٹیکنالوجی پر مبنی عبدالعزیز کمپلیکس قائم کیا گیا جس میں مہنگے ترین خام مال کی مدد سے ہر سال کسوہ کی تیاری کا مقدس کام باقاعدگی سے ہو رہا ہے۔ 

شیئر: