سویڈن مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات خطرے میں ڈال رہا ہے: سعودی تجزیہ کار
سویڈن مسلم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات خطرے میں ڈال رہا ہے: سعودی تجزیہ کار
اتوار 23 جولائی 2023 18:56
سویڈن کے وزیر خارجہ کو خط میں فیصلے سے آگاہ کیا گیا ہے ( فائل فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب کے جیوپولیٹیکل تجزیہ کار سلمان الانصاری نے کہا ہے کہ اگر سویڈن کی حکومت نے نفرت پھیلانے کے حوالے سے اپنے قوانین میں تبدیلی نہ کی تو او آئی سی کارروائی کرے گی۔
عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے سلمان الانصاری نے کہا کہ ’اگر سویڈن کی حکومت انتہا پسندوں کو نفرت پھیلانے کی اجازت دینے والے قوانین میں رد وبدل نہیں کرتی تو او آئی سی کی جانب سے متفقہ فیصلے پر مجھے حیرانی نہیں ہو گی۔‘
سلمان الانصاری کا یہ تجزیہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اتوار کو او آئی سی نے سویڈن کے انتہا پسند گروپ ’ڈینسک پیٹریاٹ‘ کی جانب سے کوپن ہیگن میں عراقی سفارت خانے کے سامنے قرآن کو نذرِآتش کرنے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سویڈن کی حکومت اس کا معقول جائزہ لے۔ یہ ان کے اپنے لیے بہتر ہو گا، کیونکہ آپ نفرت پھیلانے والے مٹھی بھر انتہا پسندوں کی خاطر 57 ممالک کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہیں گے۔‘
قبل ازیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے تنظیم میں سویڈن کے خصوصی ایلچی کا درجہ معطل کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ ڈنمارک میں قرآن کی بے حرمتی کے واقعہ کی شدید مذمت کی ہے۔
او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ فیصلہ جولائی کے شروع میں او آئی سی کی ورکنگ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس کی سفارش کے عین مطابق ہے۔‘
سیکریٹری جنرل سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ جنرل سیکریٹریٹ کے ساتھ ایسے کسی بھی ملک کے تعلق پر نظرثانی کے لیے ممکنہ اقدامات کریں، جو قرآن، اسلامی اقدار اور اسلام کی مقدس شحصیات کی بے حرمتی کا مرتکب ہو رہا ہو۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے سویڈن کے وزیر خارجہ کے نام خط میں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔
علاوہ ازیں اسلامی تعاون تنظیم نے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں عراقی سفارت خانے کے باہر ایک شدت پسند گروپ کی جانب سے قرآن نذرِآتش کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے ایک بیان میں اسلامی مقدسات کی خلاف ورزی کے مسلسل واقعات پر برہمی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی کارروائیاں مذہبی منافرت، عدم برداشت اور امتیازی سلوک کو اکساتی ہیں۔‘
’اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائیاں شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 19 اور 20 کی روح کے خلاف ہیں۔ آزادی اظہار یا رائے کے بہانے ان کو جواز نہیں بنایا جا سکتا۔‘
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’آزادی اظہار اور رائے کا حق بین الاقوامی قانون کے تحت ذمہ داریوں کا حامل ہے جس میں واضح طور پر مذہبی منافرت، عدم برداشت اور امتیازی سلوک پر اکسانے کی ممانعت ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام ممالک مذہبی منافرت کے انسداد سے متعلق اقوام متحدہ کے ماتحت انسانی حقوق کونسل کے حالیہ فیصلے کی پابندی کریں۔ ہر وہ عمل جو مذہبی امتیاز یا عداوت یا تشدد پر اکساتا ہو وہ مذہبی منافرت کے دائرے میں آتا ہے۔‘
حسین ابراہیم طحہٰ نے ڈنمارک کی حکومت پر زور دیا کہ وہ ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔
انہوں نے قرآن پاک کی بار بار بے حرمتی کے خلاف او آئی سی کے رکن ملکوں کے اقدامات کا بھی خیر مقدم کیا ہے۔
’سویڈن کے حکام کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے اجازت نامے جاری کرنے اور اسلام کی مقدس ہستیوں کی توہین کی اجازت دینے پر رکن ممالک مناسب فیصلے کریں اور اظہار رائے کی آزادی کے بہانے گھناؤنی سرگرمیوں پر ردعمل دیں۔‘
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ’ بے حرمتی اور توہین کو جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ اظہار رائے کی آزادی ذمہ دارانہ عمل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’قرآن پاک کی بے حرمتی، پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی اور اسلامی ہستیوں کی توہین محض اسلامو فوبیا کے دائرے میں نہیں آتی۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون پر فوری عمل درآمد کرائے جس میں مذہبی منافرت پر اکسانے والے ہر اقدام پر پابندی ہے۔‘
رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور مجلس علما المسلمین کے سربراہ ڈاکٹر محمد العیسیٰ نے بھی قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تمام انسانی اور مذہبی تعلیمات اور روایات کے منافی ہے۔‘
’یہ عالمی برادری کی اقدار کے بھی خلاف ہے۔ جس میں اس قسم کی سرگرمیوں کے سنگین خطرات سے خبردار کیا گیا ہے۔ صاف الفاظ میں اسے اور اسلامو فوبیا کے ہر عمل کو مسترد کیا گیا ہے۔‘
انہوں کہا کہ ’مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور نفرت کی آگ کو ہوا دینے والی سرگرمیوں سے خبردار رہا جائے۔ اس سے صرف انتہا پسندی کے ایجنڈے کو فائدہ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر محمد العیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’ایسے وقت میں جبکہ پوری دنیا اقوام و ممالک کے درمیان دوستی کے فروغ کے لیے کوشاں ہے، ایسے عالم میں اس قسم کی مجرمانہ سرگرمیاں پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہیں، ان کا ہدف نفرت کا پرچار کرنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔‘
عرب پارلیمنٹ کے سربراہ عادل العسومی نے کہا کہ ’اس قسم کی حرکتیں غیرذمہ دارانہ ہیں۔ ان سے پرامن بقائے باہمی کو خطرہ لاحق ہو رہا ہے۔ یہ نفرت کے جذبات بھڑکانے والا عمل ہے۔ اسلام اور قرآن پاک کے خلاف اس قسم کی گھناؤنی سرگرمیوں کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔‘
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اس قسم کے واقعات کو آئندہ روکنے کے لیے ٹھوس موقف اختیار کرے۔‘