Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گجرات: ڈیرے پر بندھے 22 گھوڑوں کو زہر دے دیا گیا، ہم نے انہیں بچوں کی طرح پالا تھا‘ 

چوہدری حمید اختر کہتے ہیں کہ ’ہم چھٹیاں گزارنے آتے ہیں تو ان جانوروں کے ساتھ اپنا شوق پورا کرتے ہیں‘ (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)
ان کی آنکھوں میں اُداسی تھی، گہری اُداسی۔انہوں نے اپنی بات شروع کی تو آواز رِندھی ہوئی تھی اور کیوں نہ ہوتی، ان کے چاؤ سے پالے گھوڑوں کو کسی نامعلوم شخص نے زہر دے دیا تھا۔
بے زبان جانوروں کی موت پر ان کا دُکھی ہونا فطری تھا جبکہ گاؤں کے لوگوں نے بھی جب یہ خبر سنی تو ان کے لیے یہ دُکھ کی گھڑی تھی۔  
چوہدری حمید اختر نے اس بارے میں اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم دیہاتی لوگ ہیں، ہمارے 10 جانور مارے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھا جائے تو ہمارے گھر تو قیامت ہی آگئی نا؟ ہم نے انہیں اتنے پیار اور چاؤ سے پالا تھا۔‘
بیرون ملک مقیم چوہدری حمید اختر کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کے گاؤں شیخا طاہر سے ہے، جن کے ڈیرے پر موجود 22 گھوڑے گھوڑیوں کو نامعلوم افراد نے زہر دے دیا، جن میں سے 10 ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ باقی جانوروں کی حالت بھی نازک ہے۔   
جی ٹی روڈ پر کھاریاں سے تقریباً 17 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع گاؤں شیخا طاہر مِنی ناروے کہلاتا ہے کیوں کہ اس گاؤں کی بیشتر آبادی ناروے، ڈنمارک، سپین اور دیگر یورپی ممالک میں مقیم ہے۔   
گاؤں سے تعلق ہونے کے باعث بیرون ملک مقیم افراد اپنی اگلی نسلوں کو بھی اس مٹی سے جوڑے رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنی زمینوں پر ڈیرے بنا کر وہاں پر جانور پالتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کو شوق دلا کر پاکستان لاتے رہیں۔   
چوہدری حمید اختر اور ان کے تین بھائی سپین میں رہتے ہیں اور وہیں پر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔  
پاکستان سے رشتہ استوار کرنے کے لیے انہوں نے بڑی تعداد میں جانور پال رکھے ہیں جن کی نگرانی ان کے رشتہ دار کرتے ہیں۔   

زہریلی چیز کھانے سے 10 گھوڑے گھوڑیاں ہلاک ہو گئے جبکہ چار کروڑ روپے مالیت کے جانور متاثر ہوئے ہیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

منگل کو مبینہ طور پر ان کے جانوروں کو کسی نے زہریلی چیز کھلا دی جس سے 10 گھوڑے گھوڑیاں ہلاک ہو گئے جب کہ کم و بیش چار کروڑ روپے مالیت کے جانور زہر کے منفی اثرات سے متاثر ہوئے ہیں۔   
چوہدری حمید اختر کو جب اس واقعے کی اطلاع دی گئی تو وہ سپین میں موجود تھے، مگر خبر ملتے ہی سپین سے واپس پاکستان اپنے گاؤں پہنچ گئے، جہاں علاقے بھر کے لوگ ان کے ساتھ اظہار افسوس کرنے کے لیے ان کے ڈیرے پر آرہے ہیں۔   
اس واقعے کے حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری حمید اختر نے بتایا کہ ’ہم تین بھائی ہیں اور تینوں ہی بیرونِ ملک مقیم ہیں اور بیوی بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔‘
’تاہم پاکستان اور اپنی زمین سے رشتہ قائم رکھنے کے لیے شوقیہ جانور پالتے ہیں۔ چھٹیاں گزارنے آتے ہیں تو ان جانوروں کے ساتھ اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ اس بہانے اپنے ملک میں سرمایہ کاری بھی ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے واقعے کے بارے میں بتایا کہ ’جانور ڈیرے پر بندھے ہوئے تھے۔ 22 گھوڑے اور گھوڑیاں ہیں جبکہ گائے بھینسیں الگ ہیں۔ گائے بھینسیں باہر چرنے کے لیے گئی ہوئی تھیں۔ گھوڑے اصطبل میں موجود تھے۔‘

چوہدری حمید اختر کا کہنا ہے کہ ’ہمیں کسی پر شک نہیں لیکن یہ کام کیا تو گاؤں کے کسی بندے نے ہی ہے‘ (فائل فوٹو: عرب نیوز)

چوہدری حمید اختر کے مطابق ’جانوروں کے نگران رشتہ دار خاندان میں ایک فوتگی کی وجہ سے مصروف تھے کہ ملازمین کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ گھوڑے شدید بیمار ہیں۔‘  
’ہنگامی طور پر ڈاکٹرز بلائے گئے جنہوں نے ابتدائی تشخیص میں بتایا کہ جانوروں کو کوئی انتہائی زہریلی چیز کھلائی گئی ہے۔اس طرح 10 گھوڑے گھوڑیاں ہلاک ہوگئے جبکہ باقی گھوڑوں کی حالت بھی نازک ہی ہے۔‘
انہوں نے رِندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’ہم دیہاتی لوگ ہیں، اتنے جانور مر جائیں تو ہمارے ہاں تو یہ قیامت ہی تھی نا۔ ہم نے شوقیہ طور پر جانور رکھے ہوئے ہیں۔ ان سے کوئی مشقت بھی نہیں لیتے تھے اور یہ تو اپنے بچوں کی طرح پیارے ہیں۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں کسی پر کوئی شک نہیں لیکن یہ کام کیا تو گاؤں کے کسی بندے نے ہی ہے لیکن ہم کسی پر کوئی الزام نہیں لگا رہے۔‘   
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس واقعے کے بعد پولیس کو اطلاع دی تھی جنہوں نے ابتدائی رپورٹ لکھ لی ہے لیکن مزید کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی طرح ڈاکٹرز نے پوسٹ مارٹم کیا ہے جس کی رپورٹ بعد میں آئے گی۔‘ 

’پولیس نے واقعے کی ابتدائی رپورٹ لکھ لی ہے تاہم ابھی مزید کوئی کارروائی نہیں کی‘ (فائل فوٹو: یو این او ڈی سی)

چوہدری حمید اختر کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس واقعے کی مکمل تحقیقات کروانے کی کوشش کریں گے۔ اعلٰی حکام نے اگر مدد کی تو ملزموں تک پہنچنے کی کوشش بھی کریں گے۔ ہم نے ان جانوروں کو بچوں کی طرح پالا تھا۔‘ 
یہ دُکھ کی وہ گھڑی ہے جسے چوہدری حمید اخر نے محسوس کیا کیوں کہ انہوں نے یہ جانور بہت چاؤ سے پالے تھے اور وہ ان کا ہر طرح سے دھیان بھی رکھتے تھے۔
مگر اس معاملے پر اعلٰی حکام اور پولیس کو بھی فی الفور حرکت میں آنا چاہیے تاکہ ان بے زبان جانوروں کو زہر دینے والوں کو جلد سے جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔    

شیئر: