گذشتہ تین دہائیوں سے کورنگی کے رہائشی بنیادی ضروریات سے محرومی کا سامنا کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
یہ 2010 کی بات ہے جب بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں جنوبی ایشیائی کھیلوں کے مقابلے جاری تھے جن میں کراچی کے علاقے کورنگی کی ایتھلیٹ نسیم حمید پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھیں۔
انہوں نے ان مقابلوں میں طلائی تمغہ حاصل کرنے کے علاوہ ایشیا کی تیز ترین ایتھلیٹ اور دوڑ کے میدان کی ملکہ کا خطاب حاصل کیا۔
ان کی کامیابی نے کورنگی کے رہائشیوں کے چہروں پر خوشی بکھیر دی تھی کیوں کہ یہ علاقہ گذشتہ تین دہائیوں سے مثبت سے زیادہ منفی خبروں کی وجہ سے ہی یاد کیا جا رہا تھا۔
ان حالات میں ایک غریب گھر کی لڑکی کے جذبے نے اس علاقے کو آباد کرنے والوں کی یاد تازہ کر دی۔
قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی کراچی کے قدیم ساحلی علاقے ابراھیم حیدری سے چند منٹ کی مسافت پر یہ علاقہ آباد کیا گیا تھا۔
سنہ 1959 میں تین ہزار ایکڑ رقبے پر امریکہ کے تعاون سے یہ بستی بسائی گئی، شہر کے مرکز سے دور یہاں ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی گئیں تاکہ رہائشیوں کو کوئی پریشانی نہ ہو۔
غیر ملکی انجینیئرز نے کورنگی کا نقشہ تیار کیا، جس پر تفصیلی غور کے بعد اس علاقے کی تعمیر شروع کی گئی۔ تعمیرات میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ برطانوی دور میں بننے والی رہائشی کالونیوں اور اس علاقے میں کسی قسم کا کوئی فرق نہ ہو۔
کشادہ سڑکیں، ایک ترتیب میں بنے مکان، ہرے بھرے درختوں سے ٹکراتے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے، پینے کے صاف پانی کی سہولت، بچوں کی تعلیم کے لیے سرکاری سکول، کھیل کود کے میدان اور کمیونٹی سینٹرز اس علاقے کی پہچان تھے۔ کورنگی کن کے لیے بسایا گیا تھا؟
یہ علاقہ تقسیم ہند کے وقت انڈیا سے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آنے والے مہاجروں کے لیے بسایا گیا تھا۔
قیام پاکستان کے وقت کچھ مہاجر پنجاب کے سرحدی علاقوں سے آئے تو کچھ نے سندھ کے سرحدی علاقوں سے پیدل، بیل گاڑیوں اور ٹرینوں کے ذریعے ہجرت کی جب کہ انڈیا میں رہنے والے صاحبِ ثروت مہاجروں نے بحری جہازوں کے ذریعے اپنے اہل و عیال کے ساتھ پاکستان کا رُخ کیا۔
سمندری راستے سے پاکستان پہنچنے والے مہاجرین کراچی کی بندرگاہ پر اتُرتے اور پھر وہاں سے انہیں پاکستان میں رہنے کے لیے ایک راشن کارڈ اور انڈیا میں جمع کروائے جانے والے کلیم کی ایک رسید دی جاتی۔
اس کے بعد ان مہاجرین کو بندرگاہ سے کراچی کے علاقے قائد آباد (مزار قائد خداداد کالونی) منتقل کر دیا جاتا جہاں انہیں رہائش اور گزر بسر کے لیے راشن فراہم کیا جاتا۔
مہاجرین اپنا سب کچھ لٹوا کر پاکستان پہنچے تھے مگر انہیں چھوٹی چھوٹی جھگیوں میں آباد کیا گیا۔ اونچی حویلیوں اور بڑے بڑے باغیچوں میں خدمت گزاروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے کئی خاندانوں کے لیے ان ڈربہ نما جُھگیوں میں رہنا آسان نہیں تھا۔
تاہم اپنے آزاد وطن کی محبت میں یہ کڑوا گھونٹ پینے والے اس حال میں بھی خوش رہے اور انہیں آزادی کے تقریباً 11 سال بعد جھگیوں سے کورنگی کے کوارٹرز میں منتقل کیا گیا۔
کورنگی کے رہائشی علاقے میں ابتدائی طور پر 80، 120 اور 128 گز کے کوارٹرز بنائے گئے۔ سب سے چھوٹا کوارٹر ایک کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا، جب کہ دوسرا دو کمروں اور برآمدے پر مشتمل تھا۔ تینوں قسم کے کوارٹرز میں ایک باورچی خانہ، ایک بیت الخلا اور ایک غسل خانہ شامل تھا۔
باورچی خانے میں ایک چمنی بھی دی گئی تھی تاکہ دھواں اوپر کی جانب نکل جائے جو کہ چھت پر باقاعدہ اونچی کر کے بنائی گئی تھیں۔
اس علاقے میں رہنے والے اپنے طرز زندگی سے مطمئن تھے اور دیگر علاقوں سے کورنگی آنے والے بھی اس علاقے میں رہائش کی خواہش ظاہر کیا کرتے تھے۔ اپنے وقت کا مثالی علاقہ پہچان کھو چکا؟
جگہ جگہ غیر قانونی تعمیرات، گندگی کے ڈھیر، ٹُوٹ پھوٹ کا شکار تنگ سڑکیں اور پانی کی بوند بوند کو ترستے یہاں کے رہنے والے اس علاقے کو آباد کرنے والوں کو یاد کرتے ہیں۔
کورنگی کے رہائشی محمد جنید اس علاقے کی کھوئی ہوئی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور انہیں اس موقع پر کورنگی بھی لے جایا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کورنگی آبادکاری پروجیکٹ کے نگراں لیفٹینٹ جنرل اعظم خان نے کورنگی میں مہاجرین کی آبادی کا دورہ کیا جنہیں جب یہ معلوم ہوا کہ اس علاقے میں پانی ٹینکرز کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے تو انہوں نے فی الفور ایکشن لیا اور ان کے دورے کے مکمل ہونے کے بعد تین روز میں کورنگی میں پانی کی لائن بچھا دی گئی۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’ایک وہ وقت تھا اور اب یہ حال ہے کہ کئی برسوں سے علاقے میں پانی اور سیوریج کے مسائل حل طلب ہیں، متعدد بار شکایات بھی درج کروائی گئیں لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔‘ کورنگی میں اب کیا حالات ہیں؟
گذشتہ تین دہائیوں سے کورنگی کے رہائشی بنیادی ضروریات سے محرومی کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ علاقہ جو اپنی کشادہ سڑکوں، سیوریج اور صفائی کے بہترین نظام کی وجہ سے مشہور تھا آج وہ کچی آبادی کا منظر پیش کر رہا ہے۔
رہائشی انتظامیہ سے بجا طور پر نالاں نظر آتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ’65 سال پہلے وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باوجود یہ علاقہ مثالی تھا تو اب ایسا کیوں نہیں ہے۔‘
وہ یہ سوال بھی پوچھتے ہیں کہ ’کیا کورنگی کے عوام کو ایک اور جنرل اعظم خان کی ضرورت ہے تاکہ اس علاقے کے عوام کو بنیادی ضروریات حاصل ہو سکیں۔‘