Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہیں آپ آن لائن فراڈ کرنے والوں کے نشانے پر تو نہیں؟

کراچی کے ایک شہری کے بینک اکاؤنٹس سے 24 لاکھ روپے 53 ہزار روپے نکال لیے گئے (فائل فوٹو: شٹرسٹاک)
آن لائن فراڈ، گیم شو میں انعام یا مجبوری بتا کر شہریوں سے پیسے لُوٹنا کوئی نئی بات نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں مردم شماری کے تصدیقی عمل کو جواز بنا کر شہریوں کو لُوٹا جا رہا ہے۔
کراچی ضلع شرقی کے رہائشی محمد ظہیر (فرضی نام) کو عیدالاضحیٰ سے دو روز قبل دوپہر کو ایک فون کال موصول ہوئی۔
کال کرنے والے شخص نے خود کو پاکستان کے ایک ادارے کا افسر ظاہر کیا، مردم شماری کے عملے کے گھر آنے کا پوچھا اور پھر چند لمحوں میں محمد ظہیر کے دو بینک اکاؤںٹس سے 24 لاکھ روپے نکال لیے گئے۔
آن لائن فراڈ کرنے والوں نے مردم شماری کے ری چیکنگ کے عمل کو استعمال کرتے ہوئے شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ محمد ظہیر کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ 
20 جون کی دوپہر ایک نامعلوم نمبر سے محمد ظہیر کو کئی مرتبہ کال کی گئی، گھر والوں نے ظہیر کو بتایا کہ کسی نامعلوم نمبر سے مسلسل فون آ رہا ہے۔ 
ظہیر نے فون اٹھایا تو فون کرنے والے نے اپنا تعارف ایک قومی ادارے کے افسر کے طور پر کروایا۔
ظہیر سے پوچھا گیا کہ مردم شماری کا عملہ ان کے گھر افراد کی گنتی اور ان کے اندراج کے لیے پہنچا ہے یا نہیں؟
انہوں نے گھر میں موجود افراد کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا مردم شماری والے گھر آئے تھے؟ اس پر گھر والوں نے بتایا کہ کوئی نہیں آیا البتہ دروازے پر م ش کا جو نمبر پہلے لکھا گیا تھا وہی موجود ہے۔ 
ظہیر نے فون کرنے والے کو بتایا کہ کئی ماہ قبل ہمارے دروازے پر ایک نمبر لکھا گیا تھا لیکن ہمیں گنا نہیں گیا تھا۔
اتنی گفتگو کے بعد ظہیر فون رکھنے ہی والے تھے کہ فون کرنے والے نے ان کی ایف بی آر میں موجود تفصیلات بتانا شروع کر دیں۔
انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی سے ریٹائر ہوئے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے اپنی ایک کمپنی بھی بنائی ہے جس کے اکاؤنٹس فلاں بینکوں میں موجود ہیں۔ 
فون کال کرنے والے کی گفتگو سن کر ظہیر پریشان ہو گئے اور چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑ گئے کہ یہ سب معلومات مردم شماری کی تصدیق کرنے والوں کے پاس کیسے پہنچیں؟

کراچی کے شہری کو فون کرنے والے شخص کے پاس ان کی ایف بی آر کی معلومات موجود تھیں۔ (فائل فوٹو: گیٹی)

فون کرنے والے نے ظہیر سے اکاؤنٹس کی مزید تفصیلات مانگیں، ان کے منع کرنے پر ان کو کہا گیا کہ کچھ دیر میں سٹیٹ بینک کا نمائندہ آپ کو کال کرے گا۔ 
اس کے بعد کچھ دیر میں ایک اور کال آئی اور کال کرنے والے نے کہا کہ آپ کا اکاؤنٹ ہیک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کارڈ کا پاس ورڈ بتائیں، اسی دوران موبائل ہیک ہوا اور پھر کال ڈائیورٹ پر لگ گئی۔ 
اس کے بعد ظہیر کے ایک بینک اکاؤنٹ سے 20 لاکھ روپے اور دوسرے بینک اکاؤنٹ سے 4 لاکھ 53 ہزار روپے نکال لیے گئے۔ 
محمد ظہیر کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے کی حد 2 لاکھ روپے تھی جبکہ ہنگامی صورت میں 10 لاکھ روپے تک نکالے جا سکتے تھے۔ 
’تاہم اس معاملے میں بینک کی حد بھی پار ہوئی اور انہیں معلوم بھی نہیں ہوسکا کہ پیسے کس نے نکالے اور کہاں گئے؟‘
واقعے کے بعد عید کی تعطیلات شروع ہوگئیں اور یوں جب بینکنگ محتسب اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) تک درخواست پہنچی تو اس وقت تک ان کی رقم کہیں سے کہیں پہنچ چکی تھی۔
کیا یہ پاکستان میں اس نوعیت کا پہلا واقعہ ہے؟
پاکستان میں اس سے قبل بھی آن لائن فراڈ کے کئی واقعات ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ اس حوالے سے شہریوں کی جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے رجوع کرنے کے باوجود اب تک کسی کیس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

سٹیٹ بینک نے صارفین کو ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ موبائل فون پر اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات فراہم نہ کریں۔ (فائل فوٹو: سٹیٹ بینک)

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آن لائن فراڈ اور ہیکنگ کے ایسے طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جن کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کیے جانے کے باوجود یہ عمل رک نہیں سکا۔ 
سستی اشیا کی خریداری کی سکیموں سے لے کر گیم شو میں انعام نکلنے کا جھانسہ دے کر روز کسی نہ کسی شہری کو لُوٹ لیا جاتا ہے، اور متاثرہ شخص اپنی رقم سے محروم ہونے کے بعد شکایتیں ہی درج کرواتا رہ جاتا ہے۔
ڈیجیٹل بینکنگ میں فراڈ سے بچنا کیسے ممکن ہے؟
ڈیجیٹل بینکنگ کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ قواعد و ضوابط موجود ہیں۔ صارفین کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ موبائل فون پر اپنے بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات یا پاس ورڈ سمیت نجی معلومات کسی کو بھی فراہم نہ کریں۔
صارفین کو مرکزی بینک نے آن لائن فراڈ سے بچنے کا طریقہ کار بھی بتایا ہے۔ تمام بینکوں کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے صارفین کو اس بارے میں مسلسل آگاہی فراہم کرتے رہیں۔
اس کے علاوہ آن لائن فراڈ کا شکار ہونے والے افراد کی رپورٹ درج کروانے کا بھی نظام موجود ہے۔
کیا لُوٹی گئی رقم واپس مل سکتی ہے؟
کراچی کے ایک نجی بینک کے مینیجر وقاص زبیری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈیجیٹل بینکنگ کے فراڈ کا شکار ہونے والا شخص جب فراڈ کے بعد اپنے بینک سے رابطہ کرتا ہے تو عملہ سب سے پہلے یہ معلوم کرتا ہے کہ غلطی کس کی ہے؟ 

مردم شماری کے عمل کو جواز بنا کر شہریوں کو لُوٹا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’کیا صارف نے بینک کے منع کرنے کے باوجود کسی کے ساتھ اپنی ذاتی معلومات شئیر کی ہیں یا کسی نامعلوم فرد کو فون یا ای میل پر اپنا پاس ورڈ فراہم کیا ہے؟‘
وقاص زبیری کے مطابق یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ غلطی کس کی تھی پروسیس شروع کیا جاتا ہے۔ اگر صارف کی غلطی ہوتی ہو تو اس پر کوئی کلیم نہیں کیا جا سکتا۔‘
’تاہم اگر بینک کی کوتاہی ثابت ہو تو پھر نقصان بینک کو بھرنا پڑتا ہے۔ اگر بینک کوتاہی ثابت ہونے پر بھی صارف کو رقم ادا نہیں کرتا تو پھر صارف سٹیٹ بینک کے کنزیومر پروٹیکشن ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کرکے اپنی رقم حاصل کرسکتا ہے۔‘

شیئر: