Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیرونِ ملک روزگار کے مواقع، ’ایک کروڑ سے زائد پاکستانی رجسٹر‘

ساجد طوری کے مطابق گذشتہ سال بیرون ممالک سے 32 ارب ڈالر زرمبادلہ بھیجا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری سیاسی کشیدگی اور غیر مستحکم معاشی صورت حال کی وجہ سے  بیرون ممالک روزگار کے متلاشی افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 2021 کے مقابلے میں گذشتہ سال پاکستان سے روزگار کی تلاش میں دیگر ممالک میں ہجرت کرنے والوں کی شرح میں 188 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جنوری 2022 کو سینیٹ میں وزارت برائے سمندرپار پاکستانیز کی جانب سے ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی جس کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے تین سالہ دور حکومت میں 11 لاکھ 39 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک چلے گئےتھے جن میں چھ لاکھ 24 ہزار پاکستانی روزگارکے حصول کے لیے سعودی عرب گئے تھے۔
بیرون ممالک میں روزگار کے لیے جانے والوں میں چار لاکھ 52 ہزار مزدور، تین لاکھ 47 ہزار ڈرائیور، 34 ہزار ٹیکنیشن، 33 ہزار مکینکس، 27 ہزار الیکٹریشن، 21 ہزار بڑھئی، 13 ہزار باورچی اور دیگر افراد شامل تھے، جنہوں نے روزگار کے حصول کے لیے سعودی عرب کے علاوہ ترکی، شام، سویڈن، سپین، جرمنی، ایران، اٹلی، لبنان، لیبیا، کینیا، اردن، کویت، جنوبی کوریا، جاپان اور دیگر ممالک کا رخ کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیرون ممالک میں  مقیم  یہ پاکستانی قومی خزانے  کے حجم میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔ گذشتہ مالی سال 2022-2023 کے دوران ان کی جانب سے پاکستان کو تقریباً 27 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں۔
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق 9971سے کر جون  2023تک ایک کروڑ28  لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے بیرون ممالک ملازمتوں کے لیے خود کو رجسٹر کیا ہے۔  جس میں 26 لاکھ سے زائد افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ،چار لاکھ کے قریب اعلیٰ مہارت رکھنے والے، جبکہ 54 لاکھ سے زائد غیر مہارت یافتہ پاکستانی شامل ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ اکرم علی خواجہ نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ملک میں جاری غیر مستحکم معاشی صورت حال اور غیر ملکی زرمبادلہ کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ بیرون ملک روزگار کے حصول کے لیے اپلائی کر رہے ہیں۔
اکرم علی خواجہ کے مطابق ’ان عوامل کی بدولت 2021کے مقابلے میں گذشتہ سال غیر ملکی روزگار کے لیے رجسٹر ہونے والوں کی شرح میں  188فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس میں سب سے بڑا کردار کورونا وبا کے بعد کاروباری فضاء کی دوبارہ بحالی کا ہے۔‘
 اورسیز پاکستانی اینڈ ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ کے وزیر ساجد حسین طوری نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپریل میں کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔
’لیکن ہم نے ابھی تک ایک سال میں دس لاکھ 51 ہزار764  لوگ مختلف ممالک میں ملازمتوں کے لیے بھیج دیے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لوگ مشرق وسطیٰ، ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ سمیت کل 32 ممالک کی طرف گئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک عرب امارات، رومانیہ، سائپرس، یونان، سپین، جرمنی، آئرلینڈ، اٹلی، نیدرلینڈز، مالٹا، پولینڈ، سویڈن، ہنگری اور آسٹریا سمیت کئی دیگر ممالک میں لوگوں کو روزگار دلوایا جا چکا ہے۔
’ابھی ہم نے جاپان کے ساتھ ایک لاکھ لوگوں کو وہاں بھیجنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ بھی ہمارا معاہدہ ہوا۔‘ ان کے مطابق گذشتہ سال بیرون ممالک سے 32 ارب ڈالر زرمبادلہ بھیجا گیا تھا جسے اب 40 ارب ڈالر تک پہنچایا جاچکا ہے جو امسال مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

رپورٹ کے مطابق 50 ہزار سے زائد پاکستانی 60 کے قریب ممالک میں بطور لیبر کام کر رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

رپورٹ کے مطابق 50 ہزار سے زائد پاکستانی 60 کے قریب ممالک میں بطور لیبر کام کر رہے ہیں جو اس وقت مختلف شعبہ جات میں سب سے زیادہ تعداد بتائی جا رہی ہے۔ اس کے  علاوہ ڈرائیورنگ، آئی ٹی، زراعت، تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی بڑی تعداد میں پاکستانی بیرون ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈی جی بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ نے اردو نیوز کو مختلف شعبہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت بیرون ممالک میں سب سے زیادہ پاکستانی بطور ڈرائیور، لیبر، میسن، مینیجر، الیکٹریشن، سیلز مین، ٹیکنیشن، اور کارپینٹر کام کر رہے ہیں۔‘
وزیر برائے اوورسیز پاکستانیز ساجد حسین طوری کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ 40 سال میں پہلی بار ہم نے چار ہزار سے زیادہ نرسز اور ڈاکٹرز بیرون ممالک بھیجے ہیں جن میں کویت، بحرین، سعودی عرب، سرفہرست ہیں، دیگر ممالک سے بھی ہمیں ڈیمانڈ آئی ہے جس پر متعلقہ محکمے کام کر رہے ہیں۔‘
 انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت پاکستان دیگر ممالک کے ساتھ مختلف ایم او یوز پر کام کر رہا ہے۔ ’ہم اس وقت مختلف ممالک جیسے جرمنی، یونان، برطانیہ، ڈنمارک، ہنگری، اٹلی، بیلجیئم، پرتگال، فرانس، کروشیا، بلغاریہ، پولینڈ اور رومانیہ وغیرہ کے ساتھ رابطے میں ہیں، بڑی تعداد میں لوگ ان ممالک کی طرف بھی جائیں گے۔‘
ڈی جی بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق یورپی ممالک میں پاکستانی ڈاکٹرز، انجینیئرز، منیجرز، کمپیوٹر پروگرامر، آڈیٹر اور باورچی وغیرہ کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔ ’ہم نے گذشتہ پانچ سالوں میں 40 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو یورپی ممالک روزگار کے لیے بھیجا ہے، جبکہ اس وقت بیورو کی ویب سائٹ پر مختلف شعبہ جات میں ایک لاکھ 32ہزار سے زائد غیرملکی ملازمتیں دستیاب ہیں جن میں ایک لاکھ 23 ہزار سے زائد ملازمتیں استعمال کی جاچکی ہیں۔‘
ان کے بقول اس وقت پاکستان یورپی ممالک کے ساتھ مختلف ایم او یوز پر دستخط کر رہا ہے تاکہ ان کی لیبر مارکیٹ کے ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقعوں میں اضافہ کیا جا سکے۔
’اس سلسلے میں جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، ہنگری، اٹلی، بیلجیئم، پرتگال، کروشیا، بلغاریہ، پولینڈ، رومانیہ اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی سطح پر کوششیں جاری ہیں۔ ہم ان کو مزید لوگ فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔‘
وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کے مطابق وہ مختلف ممالک میں موجود پاکستانی سفیروں کی مدد سے اس سال کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ’گذشتہ دنوں حناء ربانی کھر کے ساتھ ہماری ملاقات ہوئی، میٹنگ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سفیروں کو جلد از جلد ہدایات دے کر ہدف حاصل کرنے کی کوشش کریں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یورپی ممالک میں پرتگال میں پاکستانی طلباء اور دیگر لوگ کم ہیں، جبکہ وہاں سے ہمیں بار بار ڈیمانڈ آ رہی ہے کہ زراعت اور آئی ٹی میں ہمیں لوگ دیں۔ اس کے علاوہ نرسز کی بھی بہت زیادہ مانگ سامنے آرہی ہے۔‘
محمد شاہد اکرم پاکستان میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد فروری 2019 میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جرمنی چلے گئے تھے۔  انہوں نے جرمنی کی یونیورسٹی میں ماسٹرز کے لیے اپلائی کیا اور دو سالوں تک پڑھائی کرنے کے بعد ایک نجی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ پاکستانی مشرق وسطیٰ کے ممالک میں روزگار کے خواہشمند ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

محمد شاہد نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ایک سال ہوگیا ہے کہ میں دنیا کی معروف کمپنی ٹیسلا میں الیکٹرک موٹرز بنانے کا کام کر رہا ہوں۔ جرمنی میں ہنر کو سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ کام کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں اور اس ملک کے دروازے ہر ہنر میں مہارت رکھنے والوں کے کھلے رہتے ہیں۔‘
ان کے بقول ’جرمنی میں مقیم پاکستانی زیادہ تر لیبر کا کام کرتے ہیں، جبکہ ریستوران میں کام کرنے کے علاوہ متعدد پاکستانی بطور سکیورٹی گارڈ بھی کام کر رہے ہیں۔ ’میں نے یہاں آئی ٹی پروفیشنلز کو زیادہ دیکھا ہے۔ ڈاکٹرز بھی ہیں، لیکن ان کے سامنے زبان سیکھنے کا مسئلہ آجاتا ہے اس لیے ان کی تعداد کم ہی پائی جاتی ہے، تاہم کئی پاکستانی اپنے ریستوران بھی چلا رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے ان کو مہیا کی جانے والی سب سے بہترین سہولت آن لائن پاسپورٹ اور دیگر اسناد کا اجرا ہے۔ ’پاکستان سے ہمیں پاسپورٹ، آئی ڈی کارڈ، بچوں کے اسناد وغیرہ بنانا ہوں تو وہ ہمیں آنلائن اپلائی کر کے مل جاتے ہیں۔ سب سے بہترین سہولت یہی ہے۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سب سے زیادہ پاکستانی مشرق وسطیٰ کے ممالک میں روزگار کے خواہشمند ہیں۔ سب سے زیادہ 64 لاکھ پاکستانی سعودی عرب جبکہ 41  لاکھ سے زائد پاکستانی عرب امارات میں روزگارکے لیے خود کو رجسٹر کر چکے ہیں۔
ڈی جی بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق بیورو نے مشرق وسطی کے پانچ ترجیحی ممالک یعنی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، قطر اور عمان کے ساتھ ساتھ دیگر پانچ ممالک جیسے کویت، جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی اور چین کے لیے متنوع حکمت عملی تیار کی  ہے۔ جس میں ان ضروری اقدامات کو مد نظر رکھا گیا ہے جو ان افرادی قوت برآمد کرنے والے ممالک میں ملازمتوں کے مواقع کو فروغ دے گی۔  
ان کا کہنا تھا کہ ’مشرق وسطیٰ میں ڈرائیور، لیبر، میسن، منیجر، الیکٹریشن، سیلز مین، ٹیکنیشن، کارپینٹر وغیرہ کی ڈیمانڈ سب سے زیادہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک پاکستانی لیبر کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں جس کی بدولت حال ہی میں پاکستان اور سعودی عرب نے سکل ریکگنیشن کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستانیوں کے لیے مشرق وسطیٰ ایک انتہائی اہم مقام ثابت ہوا ہے جن میں 96 فیصد سے زائد لوگ گلف کے ممالک کا سفر کرتے ہیں۔‘
جنوب مشرقی ایشیا میں پاکستانیوں کے لیے مختلف شعبہ جات میں  بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ان میں شجرکاری، تعمیرات، صنعتوں اور خدمات کے شعبے میں زبردست مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔  ڈی جی  (بی ای اینڈ او ای) اکرم خواجہ کے مطابق گذشتہ سال سے اب تک تقریباً 22 ہزار341 پاکستانی ورکرز ملائیشیا میں اپنی ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک وسطی ایشیائی خطے کا تعلق ہے، اس طرف پاکستانی ورکرز کا سفر کم رہا ہے۔ تاہم وسطی ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے یہاں بے پناہ مواقع موجود ہوں گے۔‘  ان کے بقول اس خطے میں قازقستان اور آذربائیجان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کے مطابق قازقستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی جانب بھی پاکستانی جا رہے ہیں (فوٹو: اُردو نیوز)

وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کے مطابق قازقستان اور وسطی ایشیائی ممالک کی جانب بھی پاکستانی جا رہے ہیں، لیکن اس خطے کی طرف زیادہ تر تعلیمی سلسلے میں لوگ جاتے ہیں۔ ’تاہم پھر بھی ان کو روزگار اور وہاں کی افرادی قوت میں شامل ہونے کے سلسلے میں مسائل درپیش ہوں تو اوورسیز پاکستانیوں کی وزات ان کی ہر ممکن معاونت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘
وفاقی وزیر نے گذشتہ ماہ آذربائیجان کے دورے کا احوال بیان کرتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میں ابھی آذر بائیجان گیا تھا، مجھے وہاں حکومت نے پیشکش کی کہ یہاں پاکستانی طلباء پڑھتے ہیں، جن کی تعداد سات سو یا ہزار کے قریب ہے، جیسے ہی ان کی تعلیم مکمل ہو جائے۔ تو ہم ان کو یہاں براہ راست کام دیں گے۔‘
علاوہ ازیں، بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ترجمان نے اردو نیوز کو  معلومات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ شمالی امریکہ کے ممالک میں پاکستانی افرادی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’یہ دیکھا گیا ہے کہ ان ممالک میں روزگار کے لیے جانے والے زیادہ تر پاکستانی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں یا وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی کوششوں یا رشتہ داروں کے رابطوں کے ذریعے اپنی ملازمتوں کا بندوبست کرتے ہیں۔‘
اردو نیوز کو معلوم ہوا کہ ان ممالک میں دیگر شعبہ جات سمیت آئی ٹی، زراعت، تعلیم، اور لیبر میں روزگار کے مواقع موجود ہیں، جبکہ شمالی آمریکہ میں کینیڈا میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہیں جہاں پاکستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد مختلف شعبہ جات میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا سے کینیڈا، چین اور پھر ترکی جانے والے ڈاکٹر محمد وجیح اللہ صدیقی بھی اسی طرح ذاتی کوششوں کی بنا پر فن لینڈ پہنچے ہیں۔ انہوں نے مختلف ممالک میں کام کرنے کے بعد پاکستان کا رخ کیا لیکن یہاں ان کو کام نہ مل سکا۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا  کہ ’میں پی ایچ ڈی کرنےکے بعد چین گیا، کچھ سال وہاں گزارے پھر پاکستان آگیا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے مجھے مزید کام نہ مل سکا۔‘ ڈاکٹر وجیح اللہ اس کے بعد کینیڈا اور ترکی گئے لیکن مستقل کام کے لیے ان کی تگ و دو جاری رہی جس کے بعد وہ پاکستان آگئے۔
’یہاں میں نے بارہا کوشش کی، لیکن مجھے کام نہ مل سکا پھر مجھے لیکنڈان پر فن لینڈ کی ایک نجی کمپنی نے پیشکش کی تو میں فن لینڈ چلا آیا اور اب یہاں اسی نجی کمپنی میں بطورمائیکرو الیکٹرو میکینیکل انجینیئر کام کر رہا ہوں۔‘
ان کے مطابق فن لینڈ میں پاکستانی موجود ہیں جن میں زیادہ تر اس وقت پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ہائی ٹیک میں پاکستانی زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر وجیح اللہ کے بقول فن لینڈ میں پاکستانی سفارت خانہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سویڈن میں پاکستانی سفارت خانے جانا ہوتا ہے، تاہم سیاسی اور دیگر مسائل کے پیش نظر انہیں وہاں اکثر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ 
’میں نے دیکھا ہے کہ سفارت خانے میں ان کے پاس ہمارے متعلق مربوط ریکارڈ نہیں ہے، ان کو نہیں معلوم کہ کون کہاں کیا کام کر رہا ہے۔‘ ان کے مطابق ہنگامی صورت حال میں پھر سفارت خانے کے اہلکاروں کی دوڑ لگ جاتی ہے، لیکن اس سے پہلے یہ اپنا ریکارڈ درست نہیں کر رہے تھے۔

ساجد حسین طوری نے کہا کہ ’ہمارے لوگ دنیا بھر کے ممالک میں آئی ٹی اور زراعت کے شعبہ جات میں زیادہ جا رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستانیوں کی بیرون ممالک ملازمتوں تک رسائی اور اس دوران پیش آنے والے مسائل کے متعلق بتاتے ہوئے وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے کہا کہ پاکستانی ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ ’ہمارے لوگ دنیا بھر کے ممالک میں آئی ٹی اور زراعت کے شعبہ جات میں زیادہ جا رہے ہیں، جبکہ حالیہ سالوں میں ہاسپیٹیلٹی (خدمات) کا رجحان زیادہ بڑھ گیا ہے۔‘
ان کے مطابق تعلیمی شعبے میں پاکستانی جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، برازیل، ارجنٹینا، تائیوان، چین اور یورپ کے بہت سے ممالک کی طرف جارہے ہیں، جہاں وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسی شعبہ میں کام بھی کرتے ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے محمد ارسلان اٹلی میں شیف کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ محمد ارسلان بتاتے ہیں کہ وہ اٹلی میں تین سال شیف بننے کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ ’اس کے بعد میں نے چھ مہینے پریکٹیکل کام کیا اور اسی دوران مجھے ایک بڑے ریستوران میں بطور پروفیشنل شیف جاب مل گئی۔‘   
انہوں نے بتایا کہ ’اگر آپ کے پاس دستاویزات اور متعلقہ اسناد مکمل ہوں تو آپ یہاں ہر شعبے میں کام کر سکتے ہیں۔ اٹلی میں پاکستانی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ا پنی مہارت اور ہنر کے مطابق کام کر رہے ہیں۔‘
اٹلی سے 13 سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع فرانس میں پشاور کے فرحت اللہ باقاعدہ سرکاری کنسٹرکشن کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو پاکستان سے فرانس جانے اور وہاں سرکاری ملازمت کے حصول کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں سٹوڈنٹ ویزا پر فرانس آیا تھا، یہاں جب طلباء تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو انہیں ملازمت کی تلاش کے لیے وقت دیا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ کو ملازمت مل جائے تو آپ پھر یہاں سیٹل بھی ہو سکتے ہیں۔‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ فرانس میں اکثر پاکستانی بزنس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ’یہاں زیادہ تر پاکستانی بزنس کرتے ہیں، ان کی یہاں دکانیں ہیں اور مختلف ریستوان بھی ان کی ملکیت میں ہیں۔ فرانس میں کئی پاکستانی اپنی نجی کمپنیاں بھی چلا رہے ہیں۔‘
بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے ترجمان کے مطابق پاکستانیوں کو فراڈ اور دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے مستند غیرملکی روزگار کے مواقعوں کے متعلق آفیشل ویب سائٹ پر معلومات فراہم کی گئیں ہیں جہاں بیرون ممالک روزگار ڈھونڈنے والوں کو مختلف شعبہ جات میں روزگار کے متعلق معلومات کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیبر قوانین کی آگاہی بھی دی گئی ہے۔
’بیورو نے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے غیرملکی ملازمتوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے آگاہی مہم کا آغاز بھی کیا ہے جس کے لیے اب پاکستان میں مائیگرنٹ ریسورس سینٹرز کے دفاتر بھی قائم کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان سے زیادہ سے زیادہ ہنرمند اور پیشہ ور افرادی قوت برآمد کرنے کے لیے تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز، وزارت صحت، پاکستان انجینیئرنگ کونسل وغیرہ پر مشتمل افرادی قوت ایکسپورٹ کوآرڈینیشن بھی تشکیل دی گئی ہے۔‘
بیرون ممالک روزگار کے خواہشمند افراد کے لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے ہنر کی شناخت اور روزگار فراہم کنندہ کے معیار کو پورا کرنا ضروری لوازمات میں آتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کی جانب سے سکلز اپ گریڈیشن، سرٹیفیکیشن اور اپنے ہنر کے مطابق روزگار کی تلاش کے لیے مختلف پروگرام اور تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ 

وفاقی وزیر ساجد حسین طور کے مطابق ’ہمیں اس وقت سب سے بڑا مسلہ غیرقانونی مائیگرینٹس کا آرہا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

مزید یہ کہ ان ممالک کے ساتھ باہمی مہارتوں کی شناخت پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط بھی کیے جا رہے ہیں۔ ڈی جی (بی ای اینڈ او ای) اکرم خواجہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بیرون ممالک میں پاکستانیوں کی مختلف روزگار کے لیے جانا ایک مسلسل عمل ہے۔ ملک بھر میں بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے فیلڈ دفاتر میں ہر دن اوسطاً دو ہزار خواہشمند  پاکستانی رجسٹر ہوتے ہیں۔‘
اکثر افراد بیرون ممالک میں روزگار کی تلاش کے دوران فراڈ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ متعدد کیسز میں ان کو بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ممالک میں داخل ہونا اور پھر مختلف حادثات میں انہیں لاوارث قرار دینے کے واقعات عام ہیں۔ اس طرح ان افراد کی قانونی مائیگریشن نہیں ہو پاتی اور سفارتی سطح پر ان کو سہولیات سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔
ساجد حسین طوری بتاتے ہیں کہ ان کی وزارت مائیگریشن کے عمل کو مزید بہتر بنا رہی ہے۔ ’ہم نے تمام محکموں کو ہدایات جاری کر دیں ہیں کہ مائیگریشن کے عمل کو زیادہ سے زیادہ آسان بنا دیا جائے تاکہ لوگ غیر قانونی طریقوں کا استعمال کم کردیں۔‘
ان کے مطابق جن ممالک کے ساتھ پاکستان کے معاہدے ہوگئے ہیں اور ان معاہدوں کے پیش نظر یہاں سے لوگوں کو بیرون ممالک ملازمتوں کے لیے بھیجا جا چکا ہے ان کو کسی حوالے سے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ ’ہم اس طرح کے تمام مسائل یہاں سے حل کر دیتے ہیں، لیکن اگر پھر بھی ان کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو ہمارے محکمے ہمہ وقت ان کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔‘
غیر قانونی طور پر بیرون ممالک روزگار کے لیے جانے والوں میں اکثریت ان افراد کی ہے جن کو قانونی راستوں کا علم نہیں ہے۔ غیر قانونی افراد خود بھی مختلف نجی کمپنیز کی شکل میں لوگوں کو بیرون ممالک میں روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں، لیکن سرکاری سطح پر اس حوالے سے باضابطہ طور پر ایک نظام  وضع کیا گیا ہے جس کے تحت مختلف طریقوں سے پاکستانیوں کو باہر کےممالک میں روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔  
وفاقی وزیر ساجد حسین طور کے مطابق ’ہمیں اس وقت سب سے بڑا مسلہ غیرقانونی مائیگرینٹس کا آرہا ہے۔ ان کی وجہ سے بعض اوقات ملکی و سفارتی سطح پر ہمیں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔‘
اکرم خواجہ نے بیرون ممالک روزگار کے حصول کا  قانونی طریقہ کار بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے بیورو کی جانب سے مختلف ممالک کے لیے افرادی قوت کو بھرتی کے لیے متعدد اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں، ان اجازت ناموں کے بغیر کسی ملک میں روزگار کے لیے جانے سے شہریوں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ’باہر کے ملکوں میں روزگار کی تلاش کے لیے ہمارے پاس دو طریقے ہیں۔' 
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز (او ای پی) کے ذریعے مختلف لائسنس یافتہ پروموٹرز بیرون ممالک جا کر ڈیمانڈ لاتے ہیں، اور ڈیمانڈ کی منظوری کے بعد قومی اخبار ات میں اشتہارات دے دیے جاتے ہیں جس کے بعد بیورو کی جانب سے امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ان امیدواروں کے انتخاب کے بعد انہیں فارن سروس ایگریمنٹ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے امیگرنٹ پروٹیکٹر آفس میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے، جہاں ان کو بریفنگ افسران کی جانب سے مختلف لوازمات کے سلسلے میں آگاہی دی جاتی ہے۔ 
اس سلسلے میں گذشتہ سال 231پروموٹرز کو لائسنس فراہم کیے گئے تھے۔ علاوہ ازیں دوسرے طریقے میں مہارت، تعلیم اور ہنر کے تناظر میں براہ راست امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اکرم خواجہ نے کہا کہ ’شہریوں کو کسی غیر قانونی ایجنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے بیورو آف ایمیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کی جانب سے آفیشل ویب سائٹس پر ایک وسیع پلیٹ فارم تیار کیا ہے۔ بیرون ممالک روزگارکے متلاشی پاکستانی ویب سائٹ پر جا کر اپنی دلچسپی، ملک یا غیر ملکی آجر کے حوالے سے سوال درج کر کے مطلوبہ ملازمتیں تلاش کر سکتا ہے۔
تاہم  ڈی جی اکرم خواجہ نے بیرون ممالک میں روزگار کے خواہشمند افراد کو متنبہ کرتے ہوئے بتایا کہ بیرون ممالک ملازمتوں کے لیے درخواست دیتے وقت شہریوں کو اپنی اہلیت، مہارت، تجربہ اور اپنی دلچسپی کے ملک کو خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ’باہر جانے والوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ملازمتوں کی تشہیر قانونی فورمز کے ذریعے کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ ان اشتہارات کو ایک بار متعلقہ ویب سائٹس پر کاؤنٹر چیک کرنا بھی ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شہریوں کو اس حوالے سے خصوصی احتیاط برتنی چاہیے۔ کسی غیر قانونی ایجنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے سے گریز کرنا چاہیے، ہمیشہ رجسٹرڈ او ای پیز کے ساتھ ڈیل کرنی چاہیے جن کے پاس اوورسیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی وزارت کی طرف سے جاری کردہ مستند لائسنس موجود ہو۔‘
 اکرم خواجہ نے اس بات پر زور دیا کہ کوئی بھی مالیاتی لین دین اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر  کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست کرکے ان سے دستخط شدہ اور مہر ثبت کی گئی رسید مانگنی چاہیے۔

شیئر: