Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈی جی خان: طالبہ کا دو پروفیسرز پر جنسی زیادتی کا الزام

طالبہ کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں (فائل فوٹو: فیس بک، غازی یونیورسٹی پیج)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی ایک یونیورسٹی میں بی ایس فزکس کی طالبہ نے اسی شعبے کے دو پروفیسرز پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔
پیر کو اس واقعے کی ایف آئی آر ڈیرہ غازی خان کے تھانہ گدائی میں درج ہوئی۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ واقعہ مئی 2023 میں پیش آیا اور اس کی رپورٹ منگل روز درج کرائی گئی۔
واقعہ کیا تھا اور کب پیش آیا؟
پولیس کو شکایت درج کراتے ہوئے طالبہ نے بتایا کہ ’یہ مئی کے مہینے کی بات ہے، مجھے میری کلاس فیلو  نے فون کر کے رمضان ہوٹل میں بلایا۔ اس نے بتایا کہ وہاں سٹوڈنٹس کے پیپرز کی مارکنگ ہو رہی ہے، تم آجاؤ میں تمہارے اچھے نمبر لگوا دوں گی۔‘
طالبہ نے مزید بتایا کہ ’میں اس لڑکی کے جھانسے میں آ گئی اور رمضان ہوٹل پہنچ گئی جہاں شعبہ فزکس کے ڈاکٹر خالد خٹک اوروہ طالبہ پہلے ہی سے موجود تھے۔‘
’کچھ ہی دیر میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کا ایچ او ڈی (سربراہ شعبہ) ڈاکٹر ظفر وزیر بھی آ گیا۔ اس نے ڈاکٹر خالد خٹک کو کچھ منگوانے کے لیے باہر بھیج دیا۔ کچھ ہی دیر میں خالد خٹک نمکو، سیون اپ (مشروب) کی بوتل وغیرہ لے کر آ گیا۔‘
طالبہ کے مطابق ’اس کے بعد ڈاکٹر ظفر وزیر نے ان دونوں(ڈاکٹر خالد خٹک اور طاہرہ لال) کو کوئی بہانہ بنا کر باہر بھیج دیا۔ اس کے بعد مجھے سیون اپ میں کچھ ملا کر پلا دیا جس سے میں مدہوش ہو گئی۔‘
’ڈاکٹر ظفر وزیر نے کمرے کی کنڈی لگا کر میرے ساتھ جنسی زیادتی کی اور اس نے رات کو متعدد مرتبہ ایسا کیا۔ صبح جب میں ہوش میں آئی تو میں رونے لگ گئی اور پھر زبردستی باہر نکل کر رکشے کے ذریعے اپنے ہوسٹل پہنچ گئی۔‘
یونیورسٹی کی متاثرہ طالبہ نے پولیس کو بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد ڈاکٹر خالد خٹک نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے کہ میرے ساتھ جنسی مراسم قائم کرو۔‘

یہ واقعہ کچھ عرصہ قبل پیش آیا تاہم اس کی رپورٹ پیر کو درج کرائی گئی ہے (فوٹو: گدائی پولیس سٹیشن)

‘میرے انکار پر اس نے مجھے ساتھ ڈنر کرنے کو کہا۔ میرے نہ ماننے پر ڈاکٹر خالد دھمکی دیتا تھا کہ میں تمہاری چھوٹی بہن (سیکنڈ سمسٹر کی طالبہ) کے ساتھ تعلقات قائم کر لوں گا۔‘
’میں اس وقت اپنے خاندان کی عزت کی وجہ سے خاموش رہی لیکن اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ میں اپنی ساری کہانی اپنے والد کو بتا دی ہے۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس طالبہ کی ایک مبینہ ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ اپنا نام بتانے کے بعد روتے ہوئے یہ واقعہ بیان کرتی سنی جا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو
ویڈیو میں طالبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘ڈاکٹر ظفر وزیر اور ڈاکٹر خالد خٹک نے میرے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کی ہے۔ مجھے اپنے ہاسٹل بلایا۔ ایک رات میں وہیں رہی۔ اس کے بعد یہ لوگ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں۔ میری چھوٹی بہن کو بلیک میل کرتے ہیں کہ میں یہاں ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی ٹیچر کو کوئی بات نہ بتاؤں۔‘
’وی سی صاحب کے پاس پہلے بھی کافی درخواستیں جا چکی ہیں اور انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب اگر وی سی صاحب نے کوئی ایکشن نہ لیا تو میں مزید برداشت نہیں کروں گی۔‘
‘میں یونیورسٹی میں ہی خود کو آگ لگا دوں گی۔ اس کے ذمہ دار وی سی صاحب ہوں گے۔‘
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین اس واقعے کے چند دن قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے منسوب ایک واقعے کا حوالہ دے کر یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسیت کے واقعات پر تنقید کر رہے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقعہ
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی آفیسر سید اعجاز شاہ کو پولیس نے 20 جولائی کو گرفتار کر کے دعویٰ کیا تھا کہ ان سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اور ان کے موبائل فونز سے مبینہ طور پر نازیبا ویڈیوز، تصاویر اور دیگر مواد برآمد ہوا ہے۔
اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بعض ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں مبینہ طور پر ملزم اعجاز شاہ موبائل فونز میں موجود ویڈیوز، تصاویر کے علاوہ منشیات سے متعلق سرگرمیوں کی تفصیل بتاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو میں وہ یونیورسٹی کے مختلف اساتذہ کے نام بھی لیتے سنے جا سکتے ہیں۔
بعدازاں 24 جولائی کو اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس وقت ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
غازی یونیورسٹی کا موقف کیا ہے؟
طالبہ کی ویڈیو وائرل ہونے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان نے اپنے فیس بک پر پیج کر ایک نوٹیفیکیشن پوسٹ کیا ہے۔ اس نوٹیفیکشن پر 24 مئی کی تاریخ درج ہے۔
غازی یونیورسٹی نے کے میڈیا ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’طالبہ کی طرف سے وائرل ویڈیو کے حوالے سے تمام لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ یہ ویڈیو 4 ماہ پرانی ہے اور اس طالبہ کی درخواست پر بروقت کاروائی کر کے انکوائری کی گئی جس کے نتیجے میں متعلقہ اساتذہ کو معطل کر دیا گیا تھا۔‘
بیان کے مطابق ’ویڈیو بیان اس وقت سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے ہی ان چند اساتذہ کی طرف سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جن کے خلاف یونیورسٹی میں بدنظمی کے معاملات پر انکوائریاں چل رہی ہیں۔‘

’یہ ویڈیو ان کی طرف سے ایک ایسے موقع پر یونیورسٹی کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے وائرل کی گئی ہے جب کہ یونیورسٹی میں داخلوں کا عروج ہے۔‘

اس واقعے کی تفتیش سے متعلق پیش رفت کے بارے میں جاننے کے لیے اردو نیوز نے تھانہ گدائی کے تفتیشی آفیسر طاہر نعیم سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر فرزانہ باری انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں اور وہ یونیورسٹی میں تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہ چکی ہیں۔
’یونیورسٹیوں میں مانیٹرنگ کا نظام کمزور ہے‘
فرزانہ باری نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’ہمارے سوسائٹی میں ہر طرح کے ظلم اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے میں انارکی پھیل چکی ہے اور قانون کی بالادستی نہیں ہے۔ یہاں مجرمانہ سوچ رکھنے والوں کے لیے سازگار ماحول بن چکا ہے۔‘
انہوں نے یونیورسٹیوں میں بڑھتے ہوئے جنسی ہراسیت کے واقعات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ صرف یونیورسٹیوں کا معاملہ نہیں۔ یہاں ہر شعبے میں میرٹ سے ہٹ کر لوگ بھرتی کیے گئے ہیں۔ وائس چانسلرز کی تقرریاں بھی اب قابلیت کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہو رہی ہیں۔‘

فرزانہ باری کہتی ہیں کہ طلبہ بالخصوص طالبات میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

’دوسرا یونیورسٹیوں میں داخلی مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں ہے اور اگر کہیں ہے تو وہ بہت کمزور ہے۔ طلبہ یونینز پر پابندی ہے جس کہ وجہ سے ان کی نمائندگی کہیں نہیں ہے۔ اب تو پورے سسٹم کے اندر سے تعفن اٹھ رہا ہے۔‘
’مجرمانہ ذہنیت والے اساتذہ طلبہ کو بلیک میل کرتے ہیں‘
ڈاکٹر فرزانہ باری کے خیال میں اس وقت ملک میں جنسی زیادتیوں کے جو واقعات ہو رہے ہیں ان میں صرف غریب یا اَن پڑھ سمجھے جانے والے افراد ہی ملوث نہیں بلکہ نام نہاد پڑھے لکھے بھی ان جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
’دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سمسٹر سسٹم ہے لیکن ہمارے ہاں اس سسٹم نے طلبہ کو کافی حد تک Dependent بنا دیا ہے، ایسے میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اساتذہ طلبہ کو بلیک میل کرتے ہیں اور ان کا استحصال کرتے ہیں۔‘
فرزانہ باری کہتی ہیں کہ اس حوالے سے طلبہ بالخصوص طالبات میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ایسے واقعات پر بالکل بھی خاموش نہ ہوں۔ وہ فوری طور پر رپورٹ کریں۔
’یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسیت کمیٹیاں بننی چاہییں جن میں طلبہ کی بھی سرگرم نمائندگی ہونی چاہیے۔ اور یہ واقعات ان کمیٹیز میں رپورٹ کرنا طلبہ کی سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ اس بارے میں بیداریٔ شعور کی مہم چلانی ضروری ہے۔‘
 

شیئر: