پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کی ایک یونیورسٹی میں بی ایس فزکس کی طالبہ نے اسی شعبے کے دو پروفیسرز پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔
پیر کو اس واقعے کی ایف آئی آر ڈیرہ غازی خان کے تھانہ گدائی میں درج ہوئی۔
مزید پڑھیں
ایف آئی آر کے متن کے مطابق یہ واقعہ مئی 2023 میں پیش آیا اور اس کی رپورٹ منگل روز درج کرائی گئی۔
واقعہ کیا تھا اور کب پیش آیا؟
پولیس کو شکایت درج کراتے ہوئے طالبہ نے بتایا کہ ’یہ مئی کے مہینے کی بات ہے، مجھے میری کلاس فیلو نے فون کر کے رمضان ہوٹل میں بلایا۔ اس نے بتایا کہ وہاں سٹوڈنٹس کے پیپرز کی مارکنگ ہو رہی ہے، تم آجاؤ میں تمہارے اچھے نمبر لگوا دوں گی۔‘
طالبہ نے مزید بتایا کہ ’میں اس لڑکی کے جھانسے میں آ گئی اور رمضان ہوٹل پہنچ گئی جہاں شعبہ فزکس کے ڈاکٹر خالد خٹک اوروہ طالبہ پہلے ہی سے موجود تھے۔‘
’کچھ ہی دیر میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کا ایچ او ڈی (سربراہ شعبہ) ڈاکٹر ظفر وزیر بھی آ گیا۔ اس نے ڈاکٹر خالد خٹک کو کچھ منگوانے کے لیے باہر بھیج دیا۔ کچھ ہی دیر میں خالد خٹک نمکو، سیون اپ (مشروب) کی بوتل وغیرہ لے کر آ گیا۔‘
طالبہ کے مطابق ’اس کے بعد ڈاکٹر ظفر وزیر نے ان دونوں(ڈاکٹر خالد خٹک اور طاہرہ لال) کو کوئی بہانہ بنا کر باہر بھیج دیا۔ اس کے بعد مجھے سیون اپ میں کچھ ملا کر پلا دیا جس سے میں مدہوش ہو گئی۔‘
’ڈاکٹر ظفر وزیر نے کمرے کی کنڈی لگا کر میرے ساتھ جنسی زیادتی کی اور اس نے رات کو متعدد مرتبہ ایسا کیا۔ صبح جب میں ہوش میں آئی تو میں رونے لگ گئی اور پھر زبردستی باہر نکل کر رکشے کے ذریعے اپنے ہوسٹل پہنچ گئی۔‘
یونیورسٹی کی متاثرہ طالبہ نے پولیس کو بتایا کہ ’اس واقعے کے بعد ڈاکٹر خالد خٹک نے مجھے بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے کہ میرے ساتھ جنسی مراسم قائم کرو۔‘
‘میرے انکار پر اس نے مجھے ساتھ ڈنر کرنے کو کہا۔ میرے نہ ماننے پر ڈاکٹر خالد دھمکی دیتا تھا کہ میں تمہاری چھوٹی بہن (سیکنڈ سمسٹر کی طالبہ) کے ساتھ تعلقات قائم کر لوں گا۔‘
’میں اس وقت اپنے خاندان کی عزت کی وجہ سے خاموش رہی لیکن اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ میں اپنی ساری کہانی اپنے والد کو بتا دی ہے۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی اس طالبہ کی ایک مبینہ ویڈیو وائرل ہے جس میں وہ اپنا نام بتانے کے بعد روتے ہوئے یہ واقعہ بیان کرتی سنی جا سکتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو
ویڈیو میں طالبہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘ڈاکٹر ظفر وزیر اور ڈاکٹر خالد خٹک نے میرے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کی ہے۔ مجھے اپنے ہاسٹل بلایا۔ ایک رات میں وہیں رہی۔ اس کے بعد یہ لوگ مجھے بلیک میل کر رہے ہیں۔ میری چھوٹی بہن کو بلیک میل کرتے ہیں کہ میں یہاں ڈیپارٹمنٹ میں کسی بھی ٹیچر کو کوئی بات نہ بتاؤں۔‘
’وی سی صاحب کے پاس پہلے بھی کافی درخواستیں جا چکی ہیں اور انہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب اگر وی سی صاحب نے کوئی ایکشن نہ لیا تو میں مزید برداشت نہیں کروں گی۔‘
‘میں یونیورسٹی میں ہی خود کو آگ لگا دوں گی۔ اس کے ذمہ دار وی سی صاحب ہوں گے۔‘
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ صارفین اس واقعے کے چند دن قبل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے منسوب ایک واقعے کا حوالہ دے کر یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسیت کے واقعات پر تنقید کر رہے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا واقعہ
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے چیف سکیورٹی آفیسر سید اعجاز شاہ کو پولیس نے 20 جولائی کو گرفتار کر کے دعویٰ کیا تھا کہ ان سے منشیات برآمد ہوئی ہیں اور ان کے موبائل فونز سے مبینہ طور پر نازیبا ویڈیوز، تصاویر اور دیگر مواد برآمد ہوا ہے۔
اس وقت سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بعض ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں جن میں مبینہ طور پر ملزم اعجاز شاہ موبائل فونز میں موجود ویڈیوز، تصاویر کے علاوہ منشیات سے متعلق سرگرمیوں کی تفصیل بتاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ویڈیو میں وہ یونیورسٹی کے مختلف اساتذہ کے نام بھی لیتے سنے جا سکتے ہیں۔
بعدازاں 24 جولائی کو اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس وقت ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔
غازی یونیورسٹی کا موقف کیا ہے؟
طالبہ کی ویڈیو وائرل ہونے اور ایف آئی آر درج ہونے کے بعد غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان نے اپنے فیس بک پر پیج کر ایک نوٹیفیکیشن پوسٹ کیا ہے۔ اس نوٹیفیکشن پر 24 مئی کی تاریخ درج ہے۔
غازی یونیورسٹی نے کے میڈیا ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’طالبہ کی طرف سے وائرل ویڈیو کے حوالے سے تمام لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ یہ ویڈیو 4 ماہ پرانی ہے اور اس طالبہ کی درخواست پر بروقت کاروائی کر کے انکوائری کی گئی جس کے نتیجے میں متعلقہ اساتذہ کو معطل کر دیا گیا تھا۔‘
بیان کے مطابق ’ویڈیو بیان اس وقت سوشل میڈیا پر یونیورسٹی کے ہی ان چند اساتذہ کی طرف سے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جن کے خلاف یونیورسٹی میں بدنظمی کے معاملات پر انکوائریاں چل رہی ہیں۔‘
’یہ ویڈیو ان کی طرف سے ایک ایسے موقع پر یونیورسٹی کی ساکھ کو خراب کرنے کے لیے وائرل کی گئی ہے جب کہ یونیورسٹی میں داخلوں کا عروج ہے۔‘