جب ایک حکومت اپنی آئینی مدّت مکمل کرکے اقتدار سے رخصت ہوتی ہے تو بہت سے دعوے کیے جاتے ہیں جس کی ایک مثال سندھ کی صوبائی حکومت بھی ہے جو اب صوبے میں غیرمعمولی ترقی کے دعوے کر رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے حکومت کر رہی ہے۔ یہ جماعت وفاقی حکومت کی ایک اہم اتحادی بھی رہی۔
مزید پڑھیں
-
پیپلز پارٹی کا کراچی میں ترقیاتی کام محض ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘؟Node ID: 590781
-
پیپلز پارٹی نئی مردم شماری کی منظوری دینے پر کیوں رضامند ہوئی؟Node ID: 785696
پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اگر سندھ کی بہتری کے لیے شروع کیے گئے منصوبوں پر نظر ڈالیں تو 10 ایسے منصوبے نظر آتے ہیں جنہیں سندھ حکومت اپنی بڑی کامیابی قرار دیتی ہے۔
ان میں ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام، سرکاری ہسپتالوں کی بہتری، تعلیمی اصلاحات، صاف پانی کی فراہمی، خواتین کو بااختیار بنانا، سماجی بہبود کے پروگرامز، توانائی کے شعبے میں بہتری، زراعت کی بہتری، امن و امان کی صورتحال اور تاریخی ورثے کی حفاظت وغیرہ شامل ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اور سماجی کارکن حکومتی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے محض تشہیری مُہم قرار دے رہے ہیں۔
ٹرانسپورٹ کا نظام
صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی حکومت نے سندھ میں ٹرانسپورٹ کا بہتر نظام قائم کیا ہے۔

’شہر کے مختلف روٹس پر الیکٹرک بسوں سمیت دیگر بسیں چلائی جا رہی ہیں، اس کے علاوہ خواتین کے لیے الگ سے بسوں کا انتظام بھی کیا گیا ہے جس سے عوام کو بہتر سفری سہولیات دستیاب ہوئی ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے تعاون سے گرین لائن اور اورنج لائن کی سہولت بھی عوام کے لیے موجود ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں بھی عوام کے لیے بس سروس کا آغاز کیا ہے۔ اس کے علاوہ لاڑکانہ میں بھی بسیں چلائی گئی ہیں۔
’ٹرانسپورٹ کا بجٹ پانچ ارب سے بڑھا کر 13 اعشاریہ چار ارب روپے کیا جا چکا ہے۔ حکومت پہلے مرحلے میں کراچی، ٹھٹھہ، بدین اور میرو خان میں جدید ٹرمینلز قائم کرنے جا رہی ہے۔ ٹھٹھہ اور میرو خان میں بس ٹرمینلز پر تعمیر کا کام جاری ہے۔‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ایڈووکیٹ ساجد لطیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام اب بھی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔
’کراچی میں لائی گئی بسیں شہر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ کئی روٹس پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بسیں چلانے کا مقصد عوام کو سہولت فراہم کرنا نہیں بلکہ محض دکھاوا ہے۔‘
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے سات روٹس پر اس وقت 250 بسیں چلائی جا رہی ہیں جن میں پیپلز بس سروس کی ریڈ بس، الیکٹرک بس اور خواتین کے لیے چلائی گئی پنک بس سروس شامل ہے۔ گرین لائن اور اورنج لائن بس سروس اس کے علاوہ ہے۔
صحت کے شعبے میں کیا گیا نمایاں کام
سندھ حکومت کے ترجمان اور میئر کراچی بیریسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس حوالے سے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’رواں سال صوبائی حکومت نے صحت کے بجٹ میں 10 اعشاریہ ایک فی صد کا اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کے بعد صحت کے مجموعی بجٹ میں 227.8 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔‘
میئر کراچی نے کہا کہ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں کا نظام ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں سے بہتر ہے۔
’گھمبٹ میں جگر کی پوندکاری کے ہسپتال میں مفت علاج کی سہولت فراہم کر رہے ہیں۔ اس ہسپتال میں ناصرف ملک بھر سے مریض مفت علاج کروا رہے ہیں بلکہ علاج کے معیار کو دیکھتے ہوئے بیرون ممالک سے بھی مریضوں نے یہاں آکر علاج کروایا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسی طرح صوبے میں امراضِ قلب میں متبلا مریضوں کو این آئی سی وی ڈی میں بہترین علاج کی بلامعاوضہ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سندھ کے رہنما حلیم عادل شیخ نے سندھ حکومت کی جانب سے صحت کے شعبے میں کیے گئے کاموں پر شدید تنقید کی۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’14 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والے کرپٹ حکمران اشتہاز بازی کے ذریعے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں نہ ڈاکٹرز ہیں نہ عملہ ہے اور نہ ہی سہولیات۔‘
ان کے بقول ’سندھ میں ایسے لاتعداد کیسز روز سامنے آتے ہیں جہاں ڈاکٹرز اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے شہری جان سے جا رہے ہیں۔ سندھ حکومت اشتہارات چلا کر اپنے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔‘
تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کا کہنا تھا کہ ’توانائی کے شعبے میں بہتری کی بات بھی بہت کی جاتی ہے لیکن اب بھی شہری اور دیہی علاقوں میں عوام بجلی کی فراہمی سے پریشان ہیں جبکہ زراعت کے شعبہ میں بھی زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیا جا رہا۔‘
سندھ میں تعلیمی اصلاحات
صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ صوبے میں تعلیمی اصلاحات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے دور میں ’صوبے کے سرکاری سکولوں کی حالت بہتر ہوئی اور نصاب کو بھی دورِ حاضر کے حساب سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ صوبائی حکومت نے رواں سال تعلیم کے شعبے کو بہتر کرنے کے لیے سکول ایجوکیشن بجٹ میں 13 اعشاریہ ایک فیصد کا اضافہ کر کے اسے 267.6 ارب روپے کر دیا ہے۔
ماہر تعلیم پروفیسر نائمہ شہریار جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبے میں پرائمری اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی نظام میں کچھ اصلاحات ضرور کی گئی ہیں لیکن اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ سرکاری اور نجی سکولوں میں تعلیمی نظام کے فرق کو ختم کیے بغیر پورے نظام میں بہتری لانا ممکن نہیں ہے۔‘
نائمہ شہریار کے مطابق ’لیپ ٹاپس کی تقسیم، طالب علموں کو بیرونِ ممالک بھیجنے کا پروگرام، یہ سب اپنی اپنی جگہ چل رہے ہیں لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔‘
صوبے میں پینے کے صاف پانی کے لیے وفاق کے تعاون سے ’کے فور پروجیکٹ‘ پر کام جاری ہے جس کے لیے صوبائی حکومت کو عالمی اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس منصوبے پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
