جب قمری مہینے مسلمان حکمراں تسلیم کرلے تو پھر تشکیک کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ اجتہادی مسائل میں حاکم کا فیصلہ اختلاف کو رفع کرتا ہے
بدر الحسن القاسمی۔ ہندوستان
قمری مہینوں کے آغاز اور رویت ہلال کے ثبوت کےساتھ روزہ اور حج جیسی اہم عبادتیں جُڑی ہوئی ہیں جبکہ شریعت کے اور دیگر بہت سے مسائل ہجری ماہ وسال اور قمری تقویم کی صحت وانضباط سے جڑے ہوئے ہیں۔امام سبکیؒ نے ایسی دسیوں چیزیں شمار کرائی ہیں جنکی تکمیل اور ادائیگی میں قمری مہینوں کو دخل ہے، جیسے رمضان کے روزے، فریضہ¿ حج کی ادائیگی، عیدین کی نماز، زکاة کی ادائیگی، اعتکاف کی مدت، نذر اور ایلاءکی مدت، بچہ کی شیر خوارگی اور نسب کا ثبوت، عورت کے لباس، دیت کی مدت، اجارہ، سلم، بچہ یا بچی کا سن بلوغ، عقیقہ کی تاریخ اور قربانی کے بکروں کی عمر وغیرہ سے متعلق مسائل وغیرہ ہیں۔
عام طور پر رمضان اور عید کیلئے رویت ہلال کا مسئلہ بڑے انتشار اور تشویش کا باعث بنتا ہے، اسی طرح حج کی تاریخ کی تعیین اور بعض مرتبہ عاشوراءکے دن کی تحدید میں بھی اختلاف واقع ہوتا ہے۔خاص طور پر غیرمسلم ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کو عید اور رمضان کی تاریخوں میںاختلاف سے سخت اُلجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب ایک ہی ملک مثال کے طور پر جرمنی، فرانس یا برطانیہ وغیرہ میں بسنے والے مسلمان2 اور بعض مرتبہ 3 الگ الگ دنوں میں عید کی تقریب مناتے ہیں تو غیرمسلموں پر اسکا جو اثر ہوتا ہو اس سے ہٹ کر اسکول میں بچوں کی تعطیل وغیرہ اور معاملات بھی نزاعی بن جاتے ہیں۔مسئلہ کی اسی نزاکت اور اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے رابطہ عالم اسلامی کے ماتحت چلنے والے” مجمع الفقہ الاسلامی“ کی طرف سے فروری 2012ءمیں خادم حرمین شریفین کی سرپرستی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان”علمائے شریعت اور فلکیات کے ماہرین کی قمری مہینوں کے اثبات سے متعلق عالمی کانفرنس“ تھا۔اس کانفرنس میں دنیا بھر سے فقہائے کرام اور ماہرینِ فلکیات کو جمع کیا گیا تھا۔
شرکائے کانفرنس میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز آل الشیخ، چیف جسٹس وامام وخطیب حرم ڈاکٹر صالح بن حمید، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، ڈاکٹر عبد اللہ المصلح، لیبیا کے ڈاکٹر الصادق الغریانی، قطر کے ڈاکٹر علی محی الدین قرہ داغی، اُردن کے ڈاکٹر عبد الناصر ابو البصل، صر کے سابق مفتی شیخ نصر فرید واصل وغیرہ کے علاوہ پاکستان سے حضرت مولانا محمد تقی عثمانی اور ہندوستانی فقہ اکیڈمی سے راقم الحروف شامل تھے۔کانفرنس کا آغاز سعودی عرب کے وزیر اوقاف واسلامی ودعوتی اُمور،ڈاکٹر صالح عبد العزیز آل الشیخ نے کیا اور رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی نے افتتاحی کلمات کہے۔ شرکائے کانفرنس کی نمائندگی ڈاکٹر حسین حامد حسان نے کی۔ سعودی عرب کے مفتی¿ اعظم نے بھی اس اجلاس سے خطاب کیا۔عام طور پر رویت ہلال اور قمری مہینہ کے آغاز اور اختتام کے بارے میں3 طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں
پہلا :رویت ہلال وہی معتبر ہے جو کھلی آنکھوں سے چاند دیکھنے یا دیکھنے والے کی طرف سے شرعی طور پر عینی شہادت کے فراہم ہونے پر مبنی ہو۔ فلکیات کے ماہرین کی تحقیقات اور انکے پاس موجود جدید آلات کی بنیاد پر چاند کے بارے میں انکی شہادت قطعی قابل اعتبار نہیں ۔
دوسرا:حساب اور ریاضیات کو قطعیت کا درجہ حاصل ہے۔ جدید فلکیات نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ لمحہ بہ لمحہ کی چاند کی حرکت کو پوری وضاحت کےساتھ دیکھا اور پورے وثوق کےساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ہلالِ رمضان یا ہلالِ عید طلوع ہوا یا نہیں ہوا اور اس کی بنیاد پر آنے والے سالوں کیلئے تاریخوں کی ایسی تقویم تیار کی جاسکتی ہے جسکے ذریعہ بغیر کسی اختلاف کے ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن عید منا سکتے ہیں اور ایک ہی دن اپنے روزے کا آغاز کرسکتے ہیں لہذا فلکیاتی حساب کو ہی بنیاد بنا لیا جائے۔
تیسرا:ان دونوں رجحانات کے مقابلہ میں ایک تیسرا رجحان یہ ہے کہ اسلام چونکہ قطعیات کی مخالفت نہیں کرتا اور جدید ترقیوں سے استفادہ کی تلقین کرتا ہے اسلئے ایک طرف جہاں ان شرعی نصوص کی پابندی ضروری ہے جن میں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ کھولنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ جدید فلکیات کی روشنی میں چاند نظر آنے کے امکان اور عدم امکان کا جائزہ لیا جائے اور حسابات کی روشنی میں اگر قطعیت کیساتھ یہ کہا جائے کہ علمی وسائنسی تحقیقات کی رُو سے چاند کے نظر آنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر چاند دیکھنے کی شہادت دینے والے کی گواہی کو مسترد کردیا جائے گالیکن اگر فلکیات کے ماہرین محض چاند کی ولادت کی بنیاد پر مہینہ کے آغاز کا دعویٰ کریں تو ایسی صورت میں انکے دعوے کو ہرگز قبول نہیں کیا جائےگا اور آنکھوں کی رویت ہی کی بنیاد پر قمری مہینہ کے شروع یا ختم ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
کانفرنس بڑے پرسکون ماحول میں ہوئی اور علمائے دین یا فقہائے اُمت اور فلکیات کے ماہرین دونوں نے ایک دوسرے کے نظریات اور انکی تحقیقات کو سننے اور سمجھنے اور انکے بارے میں متوازن ومشترک موقف اختیار کرنے میں سنجیدگی کا بھرپور ثبوت دیا اور بڑے کھلے دل ودماغ سے ایک نے دوسرے کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی جسکے نتیجہ میں کانفرنس کی طرف سے نہایت ہی متوازن مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں مدد ملی جس میں چاند وسورج کی تخلیق اور حساب سے انکے تعلق اور عبادتوں میں انکی گردش پر اعتبار سے متعلق مقدمہ کے بعد کہا گیا ہے کہ:۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ قمری مہینہ کے آغاز اور اختتام کا مدار رویت ہلال پر ہے، خواہ یہ رویت کھلی آنکھوں سے ہو یا رصدگاہوں اور فلکیاتی آلات کی مدد سے ہو لہذا اگر29 تاریخ کو چاند نظر نہ آئے تو 30 دن کی مدت پوری کی جائےگی۔
حضور اکرم سے رمضان المبارک کے چاند کے سلسلہ میں متعدد روایتیں منقول ہیں، سیدنا ابوہریرہؓ کی حدیث میں ہے ”
چا ند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر افطار کرو اور اگر بادباراں کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو گنتی 30پوری کرلو۔“(بخار ی)
حضرت ابن عمرؓ کی روایت میں ہے ”مہینہ 29دن کا ہے، تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور اگر بادباراں کی وجہ سے نظر نہ آئے تو 30کی گنتی پوری کرلو“۔
انہی کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ”تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور افطار نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو، اگر وہ نظر نہ آئے تو اندازہ لگا¶“(یعنی30دن کا) (بخاری)۔
ان تمام احادیث سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ مہینہ کے داخل ہونے اور ختم ہونے کے سلسلہ میں ر ویت ہی اصل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مہینہ کے آغاز کو جاننے کیلئے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرنا اور اُفق پر اسکو تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے کیونکہ کسی واجب کی ادائیگی جس چیز پر موقوف ہو وہ بھی واجب ہوا کرتی ہے۔حضور اکرم کے عمل اور آپ کی تقریر (کسی کام کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اس پر نکیر نہ کرنے) سے بھی یہ بات ثابت ہے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ”رسول اکرم شعبان کے متعلق اتنے محتاط تھے جتنے کسی دیگر مہینے کے متعلق نہیں تھے۔ آپ رمضان کا روزہ چاند دیکھ کر کیا کرتے تھے مگر کسی وجہ سے چاند نظر نہ آتا تو شعبان کی گنتی30پوری کرتے اور روزہ رکھتے“۔(ابو داو¿د)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں ” لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی تو میں نے حضور اکرم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا“۔
تیسری بات یہ ہے کہ گواہی دینے والے شخص میں شہادت قبول کئے جانے کی مطلوبہ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ چاند کی رویت میں حائل موانع بھی نہ ہوں چنانچہ گواہی دینے والے کی آنکھوں کا تیز ہونا، رویت کی حالت میں چاند کی کیفیت کا محفوظ رکھنا وغیرہ ضروری ہے تاکہ گواہی کے بارے میں کسی طرح کا شبہ باقی نہ رہے۔
چوتھے یہ کہ فلکیات کا حساب ایک اہم اور مستقل علم ہے اور اسکے اپنے اُصول وضوابط ہیں اور پچھلے زمانوں میں مسلمانوں کا اس علم کی ترقی میں زبردست اثر رہا ہے۔ مسلمان فقہاءکو بھی اس علم سے دلچسپی رہی ہے چنانچہ اس علم کے ذریعے چاند کے بارے میں حاصل ہونے والی بعض معلومات کا لحاظ کرنا ضروری ہے جیسے سورج اور چاند کے درمیان اقتران( یعنی نزدیک یا پاس ہونا)، قرص شمس سے پہلے چاند کے غائب ہونے کا مسئلہ اور اس بات کا علم کے اقتران کے بعد آنے والی رات میں چاند کی بلندی ایک درجہ کی ہوگی یا 2 درجہ اور اس سے زیادہ کی لہذا عینی رویت ہلال کی شہادت کو قبول کرنے کیلئے یہ بات بھی ضروری ہوگی کہ حسابی حیثیت یا فلکیاتی علم کی رُو سے چاند کا دیکھا جانا ناممکن نہ ہو۔ مثال کے طور پر سورج سے پہلے ہی چاند غروب ہوجائے یا سرے سے اقتران ہی نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں فلکیات کے ماہرین کی رائے میں چاند کا نظر آنا ممکن ہوتا ہے۔
مسلم اقلیت والے ملکوں کے کسی ایک علاقہ میں چاند کی رویت ثابت ہوجانے کی صورت میں دوسرے علاقہ کے لوگ بھی اس کے پابند ہوںگے تاکہ انکے روزے اور افطار میں باہم اختلاف نہ ہو۔
ایسے ممالک جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے آباد ہوں اور وہاں کسی وجہ سے رویت ہلال ممکن نہ ہو تو انکے ذمہ لازم ہوگا کہ وہ قریب کے اسلامی ملک کی رویت پر اعتماد کریں یا قریب کے ایسے ملک پر جہاں مسلم اقلیت آباد ہوں اور وہاں کے مستند اسلامی سینٹر کی طرف سے چاند کے ثبوت کا اعلان کردیا گیا ہو۔
عبادتوں کی ادائیگی کیلئے قمری مہینوں کے آغاز کا اثبات خالص شرعی مسئلہ ہے اور اسکے بارے میں فیصلہ اُن علمائے شریعت کا کام ہے جنکو اس کےلئے مستند اداروں کی طرف سے اسکی ذمہ داری سونپی گئی ہو۔جہاں تک فلکیات کے ماہرین اور فلکیاتی اداروں کی بات ہے تو انکی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ چاند کی ولادت، اُفق پر اس کے محل وقوع اور سطح زمین کے کس مقام پر رویت ہلال کی کیا صورت ہوگی؟ ان اُمور کے بارے میں دقیق معلومات پیش کریں جو ذمہ دار شرعی اداروں کو رویت ہلال کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنے میں مدد دے۔
اسلامی شریعت جدید علوم سے جیسے فلکیاتی حساب اور آسمانی سیاروں کی حرکت کو جاننے کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے سے منع نہیں کرتی۔
اسلامی شریعت جدید فلکیاتی حساب اور سیاروں کی حرکت پر نظر رکھنے والی ایسی جدیدٹیکنالوجی جس سے انسانوں کے معاملات انجام پائیں اور انکے مصالح پورے ہوں ان سے استفادہ کو ہرگز منع نہیں کرتی کیونکہ اسلام علمی حقائق سے متصادم نہیں ۔
جب قمری مہینہ کا آغاز شرعی حیثیت سے ثابت ہوجائے اور اسلامی ملک کے حکمراں اس کو تسلیم کرلیں تو پھر انکے بارے میں غور وخوض اور تشکیک کی گنجائش باقی نہیں رہتی کیونکہ اجتہادی مسائل میں حاکم کا فیصلہ اختلاف کو رفع کردیتا ہے۔
کانفرنس تمام اسلامی حکومتوں سے اس بات کی اپیل کرتی ہے کہ وہ رویت ہلال کے وسائل فراہم کریں اور سال کے ہر مہینہ میں چاند کی تلاش اور اسکے دیکھنے کی کوشش کیلئے ایسے مراکز اور ٹھکانے تیار کئے جائیں جہاں اسکا پورا اہتمام کیا جاسکتا ہو۔اس سلسلہ میں یہ کانفرنس بعض ملکوں کی طرف سے رویت ہلال کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہتی ہے جن میں سرفہرست خود سعودی عرب ہے جہاں ”سائنسی“ علوم اورٹیکنالوجی کا ملک عبد العزیز سینٹر اسی میدان میں کام کر رہا ہے۔
یہ کانفرنس رابطہ عالم اسلامی سے اپیل کرتی ہے کہ وہ علمائے شریعت اور ماہرینِ فلکیات پر مشتمل ایک ایسا بورڈ قائم کرے جو رویت ہلال سے متعلق تمام تحقیقی مقالات، اس موضوع پر منعقد ہونے والے مختلف سمیناروں اور کانفرنسوں میں پیش کئے جانے والے ابحاث اور مختلف فقہی اکیڈمیوں، علماءکونسلوں اور تحقیقاتی اداروں کی طرف سے شائع کردہ فتوو¿ں، قراردادوں اور پچھلے عہد کے علماءکے اجتہادات اور مختلف مذاہب کے علمائے محققین کی آراءکا جائزہ لیکر قمری مہینوں کے آغاز کے معاملہ میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور مکہ مکرمہ کو رصدگاہوں میں مرکزی حیثیت دیکر مشترکہ ہجری تقویم جاری کرنے کی راہ ہموار کرے۔
اس سلسلہ میں رابطہ عالم اسلامی دنیا بھر کے علمائے شریعت اور فلکیاتی ماہرین کیساتھ ربط قائم کرے۔ اس بورڈ کا مرکزی دفتر رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ میں ہو جو کہ عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل اور خیر وبرکت کی جگہ ہے۔اس بورڈ کی تشکیل مسلم ملکوں کی فقہی اکیڈمیوں، فتویٰ کے شعبوں اور شریعت اور فلکیات کے ان ماہرین پر مشتمل ہونی چاہئے جنکا نام ان اداروں کی طرف سے پیش کیا جائے اور پھر بورڈ کی طرف سے موجودہ کانفرنس مقالات واَبحاث کے اپنے جائزہ کے نتائج کو رابطہ کی فقہی اکیڈمی کے سامنے پیش کرے۔
...................
چاند کیا ہے؟
چاندزمین کے مرکز سے تقریباً2900میل کے فاصلے پر ہے ،چاندزمین کے گردناقص مدار میں گردش کرتاہے ،ان کے مرکزوں کا اوسط فاصلہ تقریباً 238857میل ہے چونکہ چاند کی محوری گردش اور زمین کے گرد اس کی مداری گردش کی مدت مساوی ہے اس لئے چاند کا ہمیشہ ایک ہی رخ زمین کے سامنے رہتاہے لیکن چاند کے ترقصّ جھولنے کی حرکت (libration)کی وجہ سے اس کی سطح کا تقریبا ً 59فیصد ہر مہینے نظر آسکتاہے چاند کی شکل کی ظاہری تبدیلیاں چاندکی جگہ کے زمین اورسورج کے تعلق سے تبدیل ہوجانے کے باعث اس کی مرئی سطح میں کمی بیشی پیدا ہوجانے سے واقع ہو تی ہیں ،ہلالی صورت اس وقت نظر آتی ہے جب چاند، سورج اورزمین کے درمیان ہو اور پوراچاند اس وقت د کھائی دیتاہے جب زمین سورج اور چاند کے درمیان ہو ،مہینہ چاند کی گردش سے ناپاجاتاہے۔ کوکبی مہینہ (sidereal month) وہ مدت ہے جوچاند کے کسی اور ستارے کے ساتھ اقتران کے توالی (rercurence) میں حائل ہوتی ہے (اوسطاً 27.3یوم) قمری مہینہ (sinodic month) وہ مدت ہے جو سورج کے اعتبار سے چاند کے پھر اسی پہلی جگہ پہنچنے میں درکار ہوتی ہے (مثلاً ایک ہلال سے دوسرے ہلال تک کی درمیانی مدت ) یہ تقریبا ً 29.5یوم ہے، کوکبی اور قمری مہینے کا فرق زمین کی محوری گردش کی وجہ سے ہے جو زمین کو سورج کے گرد اپنے راستے میں آگے لے جاتی ہے اور چاند مغرب کی جانب حرکت کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے ، زمین کے گرد چاند کی مدارکی چاند کو صُو رِ سماوی کے اعتبار سے مشرقی جانب حرکت دیتی نظر آتی ہے چونکہ مشرقی جانب یہ ظاہری حرکت سورج کی ظاہری حرکت سے زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے چاند ہر شب اوسطاً 50.5منٹ دیر سے طلوع ہوتاہے ۔
مدیر اعلیٰ ،مولانا حامد علی خان
ماخوذ : اردوجامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول ،صفحہ 509
چیئرمین جسٹس ایس اے رحمان ،ڈائریکٹر مسٹر ڈیٹس سی اسمتھ جونیر
.............
چاند کے ثبوت کا فیصلہ علماء کریں یا ماہرین فلکیات؟
رمضان المبارک کے روزے بصری رویت کی بنیاد پر شروع کئے جائیں یا ماہرین فلکیات کے حساب کے .مطابق رکھے جائیں؟ اس پر برسہا برس سے اختلافات کا سلسلہ چل رہا ہے ۔علماءاور فقہاءمیں بھی اختلاف رائے ہے ۔ فتویٰ دینے والے ادارے اور مختلف مسلکوں کے ماننے والے بھی اس سلسلے میں کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ سکے ۔جب جب رمضان آتاہے تب تب علماءاور ماہرین فلکیات کے درمیان رویت ہلال کا مسئلہ ذرائع ابلاغ کا گرما گرم موضوع بن جاتا ہے۔ ایک بڑا فریق وہ ہے جس کی رائے میں قمری مہینوں کی شروعات اور اختتام کا فیصلہ رویت ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے ، ان کا موقف یہ ہے کہ روزے عبادت ہیں ، نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزے رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو“ دوسرے فریق کا کہنا یہ ہے کہ رویت کے ساتھ ساتھ فلکیاتی حساب کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے، تیسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ رمضان المبارک کی شروعات اور اختتام کے سلسلے میں فلکیاتی حساب زیادہ موزوں اور مناسب ہے اس کے ذریعے چاند کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ زیادہ دقیق انداز میں ہوتا ہے ۔اختلافات کا نتیجہ اس صورت میں دیکھا جاتا ہے کہ کئی ممالک میں ایک دن روزہ شروع ہوجاتا ہے اور دیگر ممالک کے باشندے اگلے روز جبکہ بعض اور ممالک کے باشندے تیسرے روز روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں۔ مسلم اقلیتوں کا مسئلہ مسلم ممالک کے باشندوں سے زیادہ نازک ہوتا ہے وہ بھی مسلم ممالک کے ان اختلافات سے متاثر ہورہے ہیں۔بعض ممالک کے اقلیت میں رہنے والے مسلمان قریب ترین مسلم ملک کے ساتھ روزہ شروع کردیتے ہیں جبکہ کئی ممالک میں اقلیت کے طور پر رہنے والے مسلمان اپنے اصلی وطن میں رویت کی پابندی کرکے روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔اس موضوع پر الرسالہ اور الوطن کی خصوصی رپورٹ کے ترجمے و تلخیص کے ساتھ دیگر علماءکی آراء نذر قارئین ہیں:۔
فلکیاتی حساب پر انحصارکو ناجائز کہنے والوں کا موقف یہ ہے کہ سعودی عرب کا سربرآوردہ علماءبورڈ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کے خلاف فتویٰ دے چکا ہے۔اس گروہ کی ایک دلیل یہ ہے کہ جادوگری،شعبدہ بازی، ستارہ شناسی اور فلکیاتی حساب کتاب میں روایتی رشتہ پایا جاتا ہے اگر فلکیاتی حساب کی بنیاد پر چاند کے طلوع ہونے کو جائز قراردیدیا جائے تو ایسی صورت میں عوام میں خلفشار پیدا ہوگا کیونکہ وہ ستارہ شناسی اور فلکیاتی حساب دونوں میں واضح فرق نہیں کرپاتے، ان کی نظر میں دونوں فن کے ماہرین اپنے حساب کتاب کی بنیاد ستاروں ہی کو بناتے ہیں۔اس گروہ کی دوسری دلیل یہ ہے کہ سلف صالحین ، فلکیاتی حساب کو قمری مہینوں کی شروعات کے سلسلے میں غیر معتبر قراردیتے رہے ہیں۔ (فتح الباری،ج 4ص ،127، سنن النسائی بشرالسیوطی ج 4ص140مواہب الجلیل للحطاب ج 2ص288عمدة القاری ج10ص9272القلیوبی ج 2ص 49)۔
سلف صالحین کی دلیل یہ رہی ہے کہ نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ”چاند دیکھ کر روزہ رکھواور چاند دیکھ کر افطار کرواور اگر آسمان ابر آلود ہوتو 30کی گنتی مکمل کرو“ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے چاند کی پیدائش اور قمری مہینوں کی ابتدا کو بصری رویت سے جوڑ دیا ہے ۔اس مضمون کی اور بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
رمضان المبارک کے روزے ان عبادات میں سے ہیں جن کے احکام میں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی۔ان میں قیاس آرائی اور علت بازی کی اجازت نہیں ۔قواعد شریعت اور اصولِ فقہ میں عبادات کے تعلق سے امور میں مناظرے کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔
اسلامی شریعت نے ہمیں روزے اور دیگر عبادات کے اوقات کے سلسلے میں حساب کتاب جاننے کا مکلف نہیں بنایا۔
علامہ ابن حجراور ابن بزیزہ کا موقف یہ ہے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی ہے اس میں قطعیت نہیں پائی جاتی۔ستاروں کا علم رکھنے والوں کے درمیان فلکیاتی حساب کے نتائج مختلف ہوتے ہیں زرقانی نے شرح مو¿طا (ج 2ص154) میں نووی سے نقل کیا ہے کہ نجومیوں کے حساب کی بنیاد گمان اور تخمین پر ہوتی ہے صرف قبلے کی سمت اور وقت کو جاننے میں اسکا اعتبار کیا جائیگا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی رائے ہے کہ قمری مہینوں کی ابتدادریافت کرنے کیلئے فلکیاتی حساب پر اعتماد ان نجومیوں اور کاہنوں کے عمل کے قبیل سے ہے جو قسمتوں کے احوال اور حادثات عالم کو ستاروں کی گردش سے جوڑتے ہیں۔(دیکھئے: الفتاویٰ ج 25ص183)
ڈاکٹر سعود الفنیسان(سابق ڈین شریعہ کالج ،امام محمد بن سعوداسلامی یونیورسٹی ، ریاض) فقہی دلائل کی بنیاد پر فلکیاتی حساب پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، عصر حاضر میں سعودی علماءبورڈ کا فتویٰ اس حوالے سے اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالواحد الخمیس(پروفیسر اسلامیات ،شریعہ کالج) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مختلف عبادتیں فرض کی ہیں۔ عبادتوں کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں،نماز دن رات میں 5مرتبہ فرض ہے جبکہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں کیا جاتا ہے ۔ روزوں کیلئے رمضان کا مہینہ مقرر کیا گیا ہے۔فلکیاتی حساب کا ان عبادتوں سے گہرا تعلق ہے ،قدیم فقہاءرمضان کی شروعات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب کو جائز نہیں سمجھتے۔جمہور علماءکا کہنا ہے کہ رمضان کی شروعات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار جائز نہیں ،اس پر جمہور علماءکا اتفاق ہے البتہ اس حکم کی اساس کے سلسلے میں اختلاف موجود ہے۔اکثر کا کہنا ہے کہ فلکیاتی حساب پر انحصار اسلئے درست نہیں کیونکہ یہ ظن و تخمین پر مبنی ہے۔میری رائے یہ ہے کہ اگر ماہرین فلکیات یہ کہہ رہے ہوں کہ فلاں دن چاند سورج غروب ہونے سے پہلے ہی غائب ہوجائیگا ایسی حالت میں کسی کا یہ کہنا کہ اس نے چاند دیکھا ہے قابل قبول نہیں ہونا چاہیئے۔میری سوچ یہ ہے کہ دن میں چانددیکھنے کا دعویٰ کرنیوالا وہم کا شکار بھی ہوسکتا ہے اور دروغ بیانی کا احتمال بھی اپنی جگہ قائم ہے۔
ڈاکٹر فہد بن عبدالکریم السنیدی(معاون پروفیسر ، ریاض شریعہ کالج)ہمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے مسلک پر عمل کرنا چاہیئے،ان کا موقف ہے کہ رمضان المبارک کی شروعات کا فیصلہ رویت پر کیا جائے نہ کہ ماہرین فلکیات کی رائے پر۔ویسے بھی علم الفلک ، اجرام سماوی کی حقیقت ، ان کے تعلق اور ان کی حرکات پر بحث کرنیوالا علم ہے، اس کا امکان ہے کہ اس علم کے ماہر حقیقت پالیں اور صحیح بات تک رسائی حاصل کرلیں۔علم الفلک کے 2حصے ہیں ، ایک تو حساب کتاب والا پہلو ہے ، اس کے ذریعے نماز کے اوقات اور قبلہ کی جہت وغیرہ معلوم کی جاتی ہے، سیاروں کے نام اور انکے کوائف دریافت کئے جاتے ہیں، یہ علم ایسا ہے جسے حاصل کیا جانا چاہیئے۔دوسرا پہلو علم فلک کا استدلالی والا ہے ۔اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے یہ بات صاف کردی ہے کہ چاند کے ہونے کا فیصلہ صرف رویت سے ہوگا،فلکیات کے حساب پر نہیں کیونکہ ماہرین یہ بات مان چکے ہیں کہ علم الفلک سے تعلق رکھنے والے چاند کی پیدائش اور اسکی رویت کے سلسلے میں دقیق ترین حقائق بیان کرنے پر قادر نہیں ۔ماہرین فلکیات کے حساب کتاب پر انحصار گمراہی ہے ۔
شیخ خالد سیف اللہ رحمانی(سیکریٹری جنرل اسلامی فقہ اکیڈمی ہند)اسلام نے عبادات اور دوسرے احکام میں بھی جن کا تعلق عوام و خواص ہر دوطبقے سے ہو انسان کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں بنایا جس کی دستیابی دشوار ہو، جسکا حصول ہرشخص کیلئے مشکل ہواور جس کو بڑے فلاسفہ ، حکمائ،علماءاور دانشور ہی سمجھ سکیںاور جان سکیں اور عام لوگوں کیلئے ان کا سمجھنا ممکن نہ ہو۔
چاند کے ثبوت کے سلسلے میں فقہاءنے جو قواعد مقررکئے ہیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مطلع ابر آلو د نہ ہوتب تو یقینی خبرمطلوب ہے اسلئے ایسی صورت میں ہوائی جہاز سے اڑکر یا دوربین کے ذریعے رویت کا اعتبار نہیں کیا جائیگا کہ مطلع صاف ہونے کے باوجود معمول کی حالت میں چاند کا نظر نہ آنا چاند کے طلوع ہونے کو مشتبہ کردیتا ہے، مطلع ابر آلود نہ ہوتو گمان غالب کافی ہے لہذا یسی صورت میں ہوائی جہاز یا دور بین کے ذریعے رویت معتبر ہونی چاہیئے بشرطیکہ ہوائی جہاز کے ذریعے پرواز اتنی اونچی نہ کی گئی ہو کہ مطلع بدل جائے، اسی مضمون کا فیصلہ مجلس تحقیقات شریعہ ندوة العلماءلکھنو¿ بھی کئے ہوئے ہے۔
اسلام کے اصول سادہ اور فطری ہیں اس نے مختلف عبادتوں اور تہواروں کے اوقات کیلئے ایسی چیزوں کو معیار بنایا ہے جن کا سمجھنا اور جاننا سب کیلئے ممکن تھا۔اسی کا ایک جزو یہ ہے کہ اس نے قمری مہینوں کے بارے میں تکلفات سے کام لینے کے بجائے چاند دیکھنے یا مہینے کے 30دن مکمل کرلینے کو کسوٹی قراردیا۔اسی لئے امام ابو حنیفہ ، امام مالک، امام احمد اور عام فقہاءکا اتفاق ہے کہ فلکیاتی علوم اور حساب پر عید و رمضان کا فیصلہ درست نہیں ۔دوسری طرف یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اہل فن کی آراءکبھی ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہیں اور کبھی غلط بھی ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ آئے دن جنتریوں اور تقویموں کے سلسلے میں دیکھا جارہاہے۔ البتہ فلکیاتی تحقیق سے اس قدر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ جس تاریخ کو طلوعِ ہلال کا امکان نہ ہو اس روز رویت کی شہادت کافی تحقیق اور ناقابل تر دید تعداد کی گواہی کے بغیر تسلیم نہ کی جائے اور جس روز فنی اعتبار سے طلوعِ ہلال کا امکان زیادہ ہو اس دن معمولی خبر پر بھی اعتبار کیا جاسکتا ہے (ماخوذ ازجدید فقہی مسائل ،ص 27تا46)۔
ڈاکٹر علی جمعہ(مفتی مصر) تمام ممالک کے مسلمان اپنے اپنے یہاں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے کے پابند ہیں، یہ اصول مسلم معاشروں میں تفرقہ و انتشار روکنے کے لئے بھی ضروری ہے ۔بعض حضرات کسی دوسرے ملک میں رویت ہلال کا فیصلہ ہوجانے پر اپنے یہاں چاند نہ ہونے کے باوجود روزہ رکھنے یا عید منانے پر زوردیتے ہیںیہ درست نہیں۔اسلامی شریعت مسلمانوں میں اس طرح کے تفرقے پر پابندی لگائے ہوئے ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی سربراہ کانفرنس (اوآئی سی) اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی یہ فیصلہ کئے ہوئے ہے کہ چاند کی رویت جم غفیر کی شہادت سے ثابت ہوگی اور مخصوص حالات میں کسی ایک مرد یا کسی ایک عورت کی گواہی بھی قابل قبول ہوگی۔یہ فیصلہ 30ستمبر تا27اکتوبر 1966ءکو منعقدہ کانفرنس میں کیا گیا تھا۔
................
سعودی سربرآوردہ علماء بورڈ کا فیصلہ
سعودی سربرآوردہ علماءبورڈ نے 27برس قبل اپنے22 ویں سیشن منعقدہ طائف میں 6نکاتی فیصلہ جاری کیا:۔
پہلا:رویت ہلال کے سلسلے میں رصد گاہوں سے مد دلی جاسکتی ہے ،اس حوالے سے کوئی شرعی قباحت نہیں پائی جاتی۔
دسرا:اگر بصری رویت سے چاند نظر آجائے تو ایسی صورت میں اسی کا اعتبار ہوگا خواہ رصد گاہوں کے ذریعے چاند نظر نہ آیا ہو۔
تیسرا:اگر دور بین کے ذریعے رصد گاہوں میں موجود افراد نے چاند دیکھ لیا تو ایسی حالت میں اسی پر عمل کیا جائیگا خواہ عام افراد نے ننگی آنکھ کے ذریعے چاند نہ دیکھا ہو۔وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ”اور تم میں سے جو بھی رمضان کا مہینہ دیکھے تو وہ اس کے روزے رکھے“اسی طرح نبی کریم کا ارشاد ہے ”رمضان کے روزے نہ رکھو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اور افطار اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ چاند نہ دیکھ لو اگر مطلع ابر آلود ہوجائے تو شعبان کے 30روزے پورے کرلو“حدیث پاک میں رویت ہلال پر روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اب یہ رویت ننگی آنکھ سے ہو یا دور بین کے ذریعے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رویت کے دعوے کو عدم رویت کے دعوے پر ترجیح دی جائیگی ، یہ شرعی قاعدہ ہے۔
چوتھا:رویت ہلال کے فیصلے کا ذمہ دار ادارہ 29تاریخ کو رصد گاہوں سے چاند دیکھنے کی درخواست کریگا، یہ درخواست ایسی صورت میں بھی کی جائیگی جبکہ فلکیاتی حساب کتاب کے بموجب اس روز چاند نظر آنے کا کوئی امکان نہ ہو۔
پانچواں:سعودی عرب کے چاروں سمتوں میں مکمل رصد گاہوں کا قیام بہتر ہوگا۔یہ رصد گاہیں ماہرین کی مشاورت پر قائم ہوں اور تمام مطلوبہ آلات سے لیس ہوں۔
چھٹا:گشتی رصد گاہوں کا بھی اہتمام کیا جائے یہ ایسے مقامات پر چاند دیکھنے کی کوشش کریں جہاں چاند نظر آنے کا امکان ہو ، ایسے لوگوں کی خدمات سے استفادہ کیا جائے جن کی نظر تیز ہواور جنہیںرویت کے سلسلے میں آزمایا جاچکا ہو۔
.............
فلکیاتی حساب پر عمل قرآن و سنت کے منافی نہیں
عصر حاضر میں علماءکے دوسرے بڑے گروہ کا موقف یہ ہے کہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کرنا چاہیئے،کیونکہ ایک طرف تو اس سے رمضان المبارک ،حج اور سال کے دیگر مہینوں کے انتظامات میں آسانی پیدا ہوگی، خلفشار دور ہوگا،معاشی امور ومسائل منظم شکل میں انجام دیئے جاسکیں گے اور تمام فرزندان اسلام ذہنی سکون کے ساتھ یکسوئی سے اپنے کام انجام دے سکیں گے۔
ڈاکٹر خالد زعاق(ماہر فلکیات)میرے نقطہ نظر سے فلکیاتی حساب کو نظر انداز کرنا حیرت انگیز ہے،دراصل سربرآوردہ علماءبورڈ کا موقف تضاد کا شکار ہے۔بورڈ ایک طرف تو نمازوں کے اوقات کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کا قائل ہے اور دوسری جانب رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کی مخالفت کررہا ہے(الوطن 12اگست 2009ءص3)۔
رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصار کے حامی افراد کی رائے یہ ہے کہ اگر فلکیاتی حساب کو رویت ہلال کے حوالے سے معتبر مان لیا جائے تو سب سے پہلے تو مسلم دنیا میں اس حوالے سے پایا جانیوالا فقہی تنازع ختم ہوجائیگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کی بدولت رمضان کے روزوں ،عیدالفطر اور حج کی تاریخیں آسانی سے متعین ہوسکیں گی۔ اس حقیقت سے پورا جہاں واقف ہے کہ حج اور عمرے سے پچاسوں اقتصادی سرگرمیاں جڑی ہوئی ہیں، لاکھوں حاجی دنیا کے تمام علاقوں سے حج کیلئے ارض مقدس پہنچتے ہیں ، یہاں مملکت میں رویت ہلال کے تعین اور عدم تعین سے ہر گھر کے افراد جڑے ہوئے ہیں ،تمام گھر ،کارخانے، نجی و سرکاری شعبے،اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں اس سے جڑی ہوئی ہیں ، فضائی کمپنیوں کی پروازوں کے فیصلے اسی پر معلق رہتے ہیں ۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ میں ہوٹلوں کے ریزرویشن کے مسائل اسی رویت سے جڑے ہوئے ہیں۔ہزاروں افراد اپنی زندگی کے دسیوں پروگرام محض اس وجہ سے طے نہیں کرپاتے کیونکہ انہیں حج کی تاریخ پہلے سے معلوم نہیں ہوپاتی یا رمضان اور عید کی تواریخ کا علم نہیں ہوتا۔
مصطفی احمد الزرقا(معروف عالم دین) عصر حاضر میں فلکیاتی حساب کے ذریعے طلوعِ ہلال کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ عصر حاضر میں علماءکے درمیان اس حوالے سے اختلاف حیرت انگیز ہے ،سلف صالحین نے جن اسباب کی وجہ سے فلکیاتی حساب کو غیر معتبر قراردیا تھا وہ سارے اسباب اب دور ہوچکے ہیں۔اب ہم ایسے عصر میں زندگی گزار رہے ہیں جب انسان چاند کو تسخیر کرچکا ہے ، مدار میں سیارے بھیج رہا ہے ، خلاءمیں سیر سپاٹے کیلئے جارہا ہے ،ہزاروں نوری سال کی مسافت پر واقع سیاروں کا پتہ لگا رہا ہے۔معلوم ہونا چاہیئے کہ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں رہا بلکہ جدید وسائل چاند کے طلوع کا تعین ،منٹ اور سکنڈتک کے حساب سے کررہے ہیں۔جہاں تک یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ نے روزہ اور افطار شروع کرنے کیلئے چاند کی بصری رویت پر اعتماد کا حکم دے رکھا ہے تو اس سلسلے میں ہمارا کہنا یہ ہے کہ رسول اللہ اس کی علت بھی بیان کررکھی ہے،علت یہ بتاتی ہے کہ ہم ان پڑھ قوم سے تعلق رکھتے ہیں جو نہ لکھنا جانتی ہے نہ حساب لگانا جانتی ہے لہذا ان کے پاس طلوع ہلال کو جاننے کیلئے بصری رویت کے سوا کوئی اور طریقہ نہ تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قوم تعلیم یافتہ ہواور حساب کتاب سے واقف ہو تو وہ یقینی علم کا طریقہ اختیار کرکے چاند کے طلو ع ہونے کا پتہ لگا سکتی ہے۔ اگر مسلمان ایسے علم میں دسترس پیدا کرلیں جس کے ذریعے چاند کی شروعات اور انتہاکا علم یقین سے ہوجاتا ہو تو ایسی حالت میں فلکیاتی حساب پر انحصار میں کوئی شرع مانع نہیں ۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ رسول اللہ ہمیں ایسے علم سے روکیں جو کائنات کے نظام ،اللہ تعالیٰ کی قدر ت ، اسکی حکمت اور دقیق نظام کو اجاگر کررہا ہو۔اگر ہم علمائے سلف کے زمانے میں ہوتے تو ہم بھی وہی کہتے جو انہوں نے کہا ہے کیونکہ اس وقت سلف کے زمانے میں فلکیاتی حساب پر اعتماد ممکن نہ تھا اس وقت ایسے آلات ایجاد نہیں ہوئے تھے جو منٹ اور سیکنڈتک بتا کر چاند طلوع ہونے کا تعین کرسکتے۔اگر آج سلف صالحین ہمارے درمیان ہوتے تووہ رویت ہلال کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر انحصارکے قائل ہوجاتے اور اپنی رائے بدل لیتے۔ چاند کی بصری رویت بذاتہ عبادت نہیں بلکہ یہ روزے کا وقت جاننے کا ذریعہ ہے، ماضی میں ننگی آنکھ سے رویت ہی سہل اور مہیا وسیلہ تھے اب صورتحال بدل گئی ہے۔رویت ہلال کے سلسلے میں کسی ایک حدیث نہیں بلکہ تمام احادیث کو پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ عصرحاضر میں علم الفلک شعبدہ بازی ،ستارہ شناس،کہانت اور ستاروں کے ذریعے قسمت کی خبر دینے والے فن سے یکسر الگ ہے لہذا اس حوالے سے علماءمیں جو تحفظات پائے جاتے ہیں ان کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ۔
شیخ عبداللہ بن سلیمان المنیع(مشیر ایوان شاہی ور کن سربرآوردہ علماءبورڈ )23اگست 2009ءہفتے کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہوگا،اس سال روزے 29دن کے ہونگے،فلکیاتی حساب کے نتائج پر عمل قرآن و سنت کے منافی نہیں،اس سلسلے میں کئی امور بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب پر عمل نبی کریم کے اس ارشاد گرامی کے منافی نہیں جس میں فرمایا گیا ہے”ہم ناخواندہ قوم ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب کتاب کرنا،مہینہ ایسے ہوتا ہے اور ایسے ہوتا ہے“رسول اللہنے اس ارشاد میں اپنے دور کے مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا ہے۔اس وقت اکثر مسلمان ناخواندہ تھے ، اب فرزندان اسلام کی یہ حالت تبدیل ہوچکی ہے،اب مسلمان امی نہیں رہے،مسلمانوں میں میڈیسن، انجینیئر نگ ، فزکس ،فلکیات اور سائنس کے ماہر کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے ماہرین بھی ہیں لہذا ایسی حالت میں ہمیں شرعی امور میں ایسے روایتی اسباب پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے جن کے نتائج ظن و تخمین کے حامل ہوں ۔یہ انحصار ایسی حالت میں بدرجہ اولیٰ غلط ہوجاتا ہے جبکہ ہمارے پاس یقینی نتائج دینے والے ذرائع مہیا ہوں۔دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی ماہرین فلکیات دعویٰ کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوگااس کے باوجود چاند غروب آفتاب کے بعد دیکھ لیا جاتا ہے اگر ماہرین فلکیات کے دعوے پر انحصار کرلیا جائے تو ایسی صورت میں ننگی آنکھ سے دیکھی جانے والی حقیقت کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے اس سے یہ اشکال بھی پیدا ہوتا ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب کے بارے میں یہ دعویٰ کہ وہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے، غلط ثابت ہورہا ہے۔اسکے جواب میں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ماہرین فلکیات اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سال میں ایک بار ایسا ہوتا ہے جبکہ چاند سورج غروب ہونے کے بعد پیدا ہوتا ہے اور غروب کے بعد اسے دیکھا جاسکتا ہے۔یہ بات ایسی نہیں کہ ماہرین فلکیات کی نظروں سے اوجھل ہو۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ماہرین فلکیات مہینے کی شروعات متعین کرنے کے سلسلے میں متفق نہیں ،خود ان میں اختلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ماہرین فلکیات کے درمیان چاند کی پیدائش کے لمحے پر کبھی اختلاف نہیں ہوتا اسی طرح چاند کے سورج سے اقتران کے لمحے میں کبھی اختلاف نہیں ہوتا اس حوالے سے اس کے برعکس جو بھی کہا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ چاند کی پیدائش اور سورج سے اس کے اقتران کا معاملہ ماہرین فلکیات کے درمیان متفقہ ہے۔چوتھی بات یہ ہے کہ فلکیاتی حساب کتاب سے استفادے پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ کبھی کبھی چاند تواتر سے دیکھا جاتا ہے اور ماہرین فلکیات اسکاانکار کرتے ہیں ۔ ماہرین اسکے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی چاند پیدا ہوجاتا ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے ہی روپوش ہوجاتا ہے لیکن سورج سے اس کا اقتران نہیں ہوپاتا لیکن سورج سے اسکا اقتران سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی ہوا ہوتا ہے۔ایسی حالت میں چاند حقیقت میں اپنی پیدائش سے پہلے نظر آتا ہے لیکن یہ رویت حقیقی نہیں ہوتی۔پانچویں بات یہ ہے کہ ماہرین فلکیات اپنے علم کی بدولت چاند کی پیدائش کا منٹوں کے ساتھ تعین کرلیتے ہیں اس حوالے سے ماہرین فلکیات میں کوئی اختلاف نہیں ، ماہرین میں چاند کی پیدائش کے بعد اسے دیکھے جانے کے امکان کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے ۔چھٹی بات یہ ہے کہ مہینوں کی شروعات اور اختتام کے سلسلے میں فلکیاتی حساب پر عمل درآمد کا مسئلہ عصر حاضر کی پیداوار نہیں بلکہ بعض فقہاءاس پر قدیم زمانے سے اظہار خیال کرتے رہے ہیں۔بعض قدیم علماءنے فلکیاتی حساب کتاب پر عمل کا فتویٰ بھی دے رکھا ہے۔ساتویں بات یہ ہے کہ ہم فلکیاتی حساب سے مہینوں کی شروعات کے فیصلے کے سلسلے میں جزوی استفادے کے قائل ہیں کیونکہ ہر حالت میں فلکیاتی حساب کے مطابق رمضان المبارک کی آمد اور اختتام کا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی ہے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز بن عبدالرحمن المحمود(ماہر اسلامیات) میری رائے یہ ہے کہ ایک ریاست کے مختلف علاقوں میں کہیں بھی چاند نظر آجائے تو اس ریاست کے دیگر علاقوں کے باشندوں کو اس رویت پر انحصار کرکے رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہیں۔یہی اصول رمضان کے اختتام پر بھی لاگو کیا جانا چاہیئے۔یہ فیصلہ اسلامی شرعی سیاست کے تحت اسلئے ضروری ہے تاکہ امت تفرقہ و انتشار کا شکار نہ ہو۔ جہاں تک قریب واقع ممالک کا تعلق ہے ، مثال کے طور پر خلیجی ملکوں کو لے لیجئے تو اس سلسلے میں میرا خیال یہ ہے کہ شرعی سیاست کے تحت ہی خلیج کے تمام ملکوں کو ایک شمار کیا جانا چاہیئے ، ان کا مطلع ایک ماننا چاہیئے،یہ سب سعودی عرب کے ماتحت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ خلیج کا سب سے بڑا ملک ہے جہاں حرمین شریفین واقع ہیں، مسلمانوں کا قبلہ بھی یہیں ہے اگر مملکت میں چاند ہوجائے تو خلیج کے دیگر ممالک اسکی پابندی کریں۔علاوہ ازیں اگر 2ایسے ملکوں میں سے کسی ایک میں چاند ہوجائے جن کے تعلقا ت اچھے ہوں تو دوسرے ملک کے مفتی کو جہاں چاند نہ ہوا ہو دوست ملک کی پیروی کرتے ہوئے رویت کا اعلان کردینا چاہیئے۔
ڈاکٹرزکی عبدالرحمن مصطفی( پروفیسر فلکیاتی علوم، کنگ عبدالعزیز سٹی برائے سائنس و ٹیکنا لوجی) عصر حاضر میں فلکیاتی حساب نہایت دقیق ہوتا ہے اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہوتا ۔ ماہرین فلکیات سورج گرہن، چاند گرہن، اجرام سماوی کے طلو ع و غروب و دیگر احوال و کوائف کے بارے میں جو اعلانات کرتے ہیں وہ 100فیصددرست نکلتے ہیں ۔ فلکیاتی حساب ظن و تخمین پر مبنی نہیں بلکہ ازل سے لیکر عصر حاضرتک اقوام عالم کے مسلسل مطالعے کا ثمر ہیں۔حالیہ برسوں کے دوران مسلمانوں میں علم الفلک نے ترقی کی ہے ۔ روزوں ، حج ،نماز کے اوقات اور قبلہ کی سمت وغیرہ فلکیاتی حساب کتاب کے ذریعے آسانی سے متعین کرلیتے ہیں ۔عصر حاضر میں ہونے والی تبدیلیوں کا تقاضا ہے کہ فقہاءاور ماہرینِ فلکیات دونوں رویت کے سلسلے میں جامع اور صاف شفاف تصور پر اتفاق رائے پیدا کریں۔
................
بین الاقوامی اسلامک فقہ اکیڈمی کا فیصلہ
بین الاقوامی فقہ اکیڈمی نے 8تا 13صفر 1407ھ کے دوران اردنی دارالحکومت عمان میں منعقدہ اپنی تیسر ی کانفرنس کے موقع پر 2فیصلے کئے ۔پہلا فیصلہ یہ کیا کہ اگر کسی ایک ملک میں رویت ہلال ثابت ہوجائے تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو اسکی پابندی کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ جس ملک میں چاند نظر آیا ہے اس کا مطلع ہمارے ملک کے مطلع سے الگ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمیں چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر افطار کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام ہے لہذا اگر کہیں بھی چاند دیکھ لیا گیا تو ایسی صورت میں دیگر مقامات کے مسلمان اس کے پابند ہوجائیں گے۔ دوسرا فیصلہ یہ کیا گیا کہ چاند نظر آنے کا انحصار بصری رویت پر ہی ہو البتہ رصد گاہوں کے جدید ترین وسائل اور فلکیاتی حساب کتاب سے رویت کے سلسلے میں مدد لی جائے۔
جدید ٹیکنالوجی کا بائیکاٹ شرمندگی کا باعث
ڈاکٹر محمد عبدالرحمن البابطین(مشیر وزارت انصاف برائے امور رویت) سعودی عرب میں فلکیاتی رصد گاہیں مختلف مقامات پر قائم ہیں ان کے قیام کا محرک طائف میں 1403ھ کے دوران سعودی سربرآوردہ علماءبورڈ کے اجلاس میں پاس ہونیوالی وہ سفارش بنی تھی جس میں صراحت کی گئی تھی کہ چاند دیکھنے کیلئے دوربین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔تجربات سے پتہ چلا ہے کہ رصدگاہیں اور ٹیلی اسکوپ اور ان سے ملتے جلتے دیگر وسائل درحقیقت ننگی آنکھ سے سامنے آنے والے نتائج میں معاون بنتے ہیں۔بعض اوقات جدید فلکیاتی وسائل بصری رویت کے نتائج پر حرفِ سوال کھڑا کردیتے ہیں ۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کثیر تعداد میں لوگ چاند دیکھنے کی کوشش کررہے ہوں اور ماہرین فلکیات چاند نظر نہ آنے کا دعویٰ کررہے ہوں ایسی حالت میں کسی ایک شخص کے اس دعوے کو تسلیم کرلینا کہ اس نے چاند دیکھا ہے کسی طور مناسب نہیں ۔اگر کوئی ایسی حالت میں رویت کا دعویٰ کرے تو مکمل اطمینان حاصل کرنے کیلئے اس سے کڑی جرح ضروری ہوجاتی ہے ۔ویسے بھی جدید ٹیکنا لوجی سے استفادہ نہ کرنا اور جدید ٹیکنالوجی کا بائیکاٹ کرنا شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔
عبداللہ المالکی(ڈائریکٹرریسرچ اینڈ اسٹڈیز سینٹر)مجھے امید ہے کہ ہمارے علماءفلکیاتی حساب پر انحصار کا فیصلہ مستقبل قریب میں کرلیں گے،اس کی شروعات سعودی سپریم کورٹ کے اس اعلان سے ہوگئی ہے جس میں رویت ہلال کیلئے دوربینوں کے استعمال کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور سر برآوردہ علماءبورڈ کے قدیمی فیصلے کا احیاءکیا گیا ہے ۔ سعودی سپریم کورٹ کے شیخ صالح بن حمید ایسے فقہاءاور علماءکی آراءپر انحصار کرتے ہیں جو کھلے ذہن کے مانے جاتے ہیں۔انہوں نے امسال رویت ہلال کے حوالے سے رسد گاہوں کے ماہرین سے دوربینوں سے استفادے کی اپیل کرکے اعلیٰ عدالتی کونسل کی سابق روایت کو نظر انداز کیا ہے جس کے سابق سربراہ شیخ صالح اللحیدان کا موقف یہ تھا کہ چاند کا ثبوت صرف ننگی آنکھ کی رویت ہی کی بنیاد پر ہوگا۔شیخ صالح بن حمید نے نہ صرف یہ کہ 27برس پرانے سعودی علماءبورڈ کے فتوے کا احیاءکیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں جدید معلومات کا مطالعہ بھی بڑے پیمانے پر کررکھا ہے۔وہ عالمی درجے کی شخصیت ہیں ،وہ نہ صرف یہ کہ فقہی نظریات کو پیش نظر رکھتے ہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے دھارے کا بھی احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں نہ صرف یہ کہ رمضان اور عید الفطر کے چاند کا مسئلہ ٹھو س بنیادوں پرطے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ قمری مہینوں کی ابتدا و انتہاکا معاملہ بھی فلکیاتی حساب کی اساس پر طے کرالیں گے۔
۔مجھے امید اسلئے بھی ہے کہ ابتدا میں مساجد میں مائیکرو فون کے استعمال کی سخت مخالفت کی گئی تھی لیکن آگے چل کر اسے جائز قراردیدیا گیا۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ فقہی رائے بعض علماءکے مزاج سے متاثر ہوتی ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ فقہی آراءکے اجراءاور شرعی فتو¶ں کے سلسلہ میں ادارہ جاتی روایت استوار کی جائے۔ہلال کے ثبوت کا معاملہ میرے نقطہ نظر سے جدید و قدیم بنیاد پرستی اور جدیدیت کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔
ڈاکٹر محمد بن صالح العلی(اسکالر شرعی سیاست) ملک میں مذہبی،ثقافتی اور اقتصادی اصلاحات کی ہوا چل رہی ہے،اسکا تقاضا یہ ہے کہ چاروں مسالک کے علماءاور روشن خیال اسکولوں کی آراءسے استفادہ کیا جائے ،مختلف مسائل کے فیصلے یکجہتی اور تال میل پیدا کرکے کئے جائیں۔مختلف مسلکوں اور فقہی اکیڈمیوں کے رجحانات ،نزاعی مسائل کو طے کرنے میں موثر ثابت ہونگے۔قدیم زمانے میںکسی ایک علاقے میں دیئے جانے والے فتوے سے دوسرا علاقہ متاثر نہیں ہوتا تھا اب جبکہ پوری دنیا ایک قریہ میں تبدیل ہوچکی ہے ایسے عالم میں ایک جگہ دیا جانیوالا فتویٰ دیگر مقامات کے فتو¶ں اور حالات پر اثر انداز ہوتا ہے۔
شیخ محمد بن عثیمینؒ(ممتاز سعودی عالم)چاند کا فیصلہ کرنے کیلئے دور بین یا رصد گاہوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی ہرج نہیں ، اسی طرح طیاروں اور مصنوعی سیاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ طیاروں اور مصنوعی سیاروں کیلئے چاند زیادہ آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ جو لوگ طیارے یا مصنوعی سیارے کی مدد سے چاند دیکھتے ہیں وہ زمین پر کھڑے ہوکر چاند دیکھنے والوں سے کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں، ان کی رویت زیادہ معتبر اور مضبوط ہوتی ہے۔
.............