Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسباب

عوام کی رائے دہی سے ایوان بالا میں پہنچنے والا ماہوار ایک لاکھ 20 ہزار اور 2 لاکھ روپے ماہوار کے درمیان مشاہرہ وصول کرتا ہے
- - - - -  - - -
جاوید اقبال

-  -- - - - - - -

قہر کی گرمی تھی، کراچی کے ایک چھوٹے سے بازار میں سڑک کے درمیان ایک ہجوم دیوانگی کی حدیں پار کررہا تھا۔ درمیان میں 20 ، 22 سالہ 2 نوجوان لڑکے پھٹی پرانی قمیضوں میں زمین پر گھٹنوں کے بل سر جھکائے ہجوم سے مار کھا رہے تھے۔ لوگ گالیاں دیتے ان پر جوتوں، تھپڑوں کی بارش کررہے تھے اور دونوں نوجوان ہر ضرب کے ساتھ تڑپتے چیختے تھے۔ مبینہ طور پر دونوں ڈاکو تھے اور اسلحہ سے لیس دکانوں میں داخل ہوکر دکانداروں سے رقم وصول کرنے میں مصروف تھے کہ ہجوم کے ہتھے چڑھ گئے اور اب ہر کوئی ان پر اپنا ہاتھ سیدھا کرتا نئی نئی گالیوں کی ایجاد میں مصروف تھا۔ سوجے، پھٹے ہونٹوں اور گالوں پر مزید ضربات پڑ رہی تھیں اور آنکھیں سوزش سے بند ہوتی جارہی تھیں۔
پھر پولیس کی گاڑی آگئی اور 4 سپاہی ہجوم میں راستہ بناتے مجروح نوجوان ڈاکوؤں تک پہنچے۔ دونوں اٹھے اور پولیس والو ں کے ہمراہ گاڑی میں جابیٹھے۔ ہجوم سے گالیوں کی بارش گاڑی کے نظر سے اوجھل ہوجانے کے بعد بھی ہوتی رہی۔ ہائیکورٹ میں بیٹھے ایک منصف کے ماہانہ مشاعرے اور اسے ملنے والے دیگر الاؤنسر کی تفصیلات منظرعام پر آئی ہیں اور ایسا پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ عدالتوں میں بیٹھ کر خوب وزشت کا فیصلہ کرنے والوں سے متعلق حقائق منظر عام پر آئے۔ ہائیکورٹ کے ایک منصف کا ماہانہ بنیادی مشاہرہ 6 لاکھ 85 ہزار روپے ہوتا ہے ۔ اسکے علاوہ چونکہ اس کا تعلق عدالت عالیہ سے ہوتا ہے اس لئے اسے سپیریئر جوڈیشل الاؤنس کی مد میں اضافی 2 لاکھ 69 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ رہائش کیلئے حکومت ایک بنگلہ فراہم کرتی ہے چنانچہ اس میں لگے باغیچے کی دیکھ بھال کیلئے مالی اور خاکروب اور کھانا پکانے کیلئے باورچی بھی نظام کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کیلئے صاحب کو ماہوار 25 ہزار روپے اضافی دیئے جاتے ہیں۔ ایک گاڑی بھی حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے اور اسے حرکت میں رکھنے کیلئے ماہانہ 500 لیٹر پٹرول بلا معاوضہ الاؤنس کے طور پر فراہم کیا جاتا ہے۔ بجلی گیس اور ٹیلیفون کی سہولتوں کا استعمال بلاحدود کیا جاسکتا ہے۔
وطن چاہے سارا تاریکی میں ڈوب جائے منصف کے گھر میں اندھیرا کیوں ہو؟ چنانچہ گھر میں لگے جنریٹر کو متحرک رکھنے کیلئے روزانہ بلامعاوضہ 22 لیٹر پٹرول فراہم کیا جاتا ہے۔ ماہانہ 65 ہزار روپے میڈیکل الاؤنس ملتا ہے جبکہ گھر کے کرائے کیلئے بھی اتنا ہی الاؤنس حکومت دیتی ہے۔ مجموعی طور پر ہائی کورٹ کا ایک جج ہر ماہ10 لاکھ 24 ہزار 700 روپے گھر لے جاتا ہے۔ تو جب کراچی کے اس چھوٹے سے بازار میں ہجوم اپنے حواس کھوئے بیٹھا تھا اور 2 نوجوانوں کو بے رحمی سے مار رہا تھا اور دونوں پھٹی پرانی قیمضوں میں ملبوس سر جھکائے کراہتے ہجوم کی لگائی ضربات سہ رہے تھے تو مجھے اپنے وطن کی اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ اعلیٰ مقننہ بھی یاد آئی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں براجمان وہ لوگ یاد آئے جن کا بنیادی فریضہ قانون سازی ہے لیکن وہ ہر شے سے غافل اپنے مفادات کاسوچتے رہتے ہیں۔ ذرا قومی اسمبلی کے ایک رکن پر حکومت پاکستان کی نوازشات سے آگاہی حاصل کریں۔ عوام کی رائے دہی سے ایوان بالا میں پہنچنے والا ماہوار ایک لاکھ 20 ہزار اور 2 لاکھ روپے ماہوار کے درمیان مشاہرہ وصول کرتا ہے۔ اسے آئین پاکستان کا خصوصی الاؤنس ایک لاکھ روپے ماہوار بھی دیا جاتا ہے۔ اس کاایک دفتر بھی ہوتا ہے جس کے اخراجات کیلئے اسے ایک لاکھ 40 ہزار روپے ماہوار دیئے جاتے ہیں۔
اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے اسے خصوصی الاؤنس بھی دیا جاتا ہے اس مفروضے پر کہ وہ اسلام آباد اجلاس میں شرکت کیلئے آنے جانے کا 6 ہزار کلومیٹر فاصلہ طے کرتاہے، اسے 8 روپے فی کلومیٹر کے حساب سے 48 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسے روزانہ 500 روپے الاؤنس کے طور پر بھی ملتے ہیں۔ اگر عوام کے منتخب اس نمائندے کو بذریعہ ریل گاڑی سفر کرنا پڑ جائے تو ایئرکنڈیشنڈ پہلے درجے میں جتنا چاہے بلامعاوضہ سفر کرسکتا ہے تاہم اگر وہ ریل گاڑی کو کمتر ذریعۂ سفر سمجھتے ہوئے بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرنا پسند کرے تو پھر وہ اپنی اہلیہ یا پرسنل اسسٹنٹ کے ہمراہ بزنس کلاس میں سال میں 40 بار بلامعاوضہ کہیں بھی آجاسکتا ہے۔
منزل مقصود پر پہنچ کر وہ حکومتی رہائش گاہ میں بھی بلامعاوضہ ٹھہر سکتا ہے۔ جب وہ عوام کا نمائندہ ہوگا تو بلاشبہ اس کا دفتر اور اس کی رہائش گاہ ہر وقت سائلوں سے بھرے رہتے ہیں چنانچہ اسے یہ سہولت بھی دی گئی کہ ماہانہ 50 ہزار یونٹ تک بجلی بلا معاوضہ استعمال کرسکے جب سائل ہوں گے تو ان کے مسائل کے حل کیلئے ٹیلیفون بھی استعمال کرنا پڑے گا چنانچہ حکومت نے عوام کے اس نمائندے کو ایک لاکھ 70 ہزار مقامی کالیں بلامعاوضہ کرنے کی سہولت بھی دے رکھی ہے۔ یوں قومی اسمبلی یا سینیٹ کے ایک رکن پر حکومت سالانہ 3 کروڑ 20 لاکھ روپے صرف کررہی ہے۔ مقننہ جس کا فرض قانون بنانا یا مروجہ قانون کی خامیاں دور کرنا ہے ایوان بالا میں بیٹھی ہے جبکہ عدلیہ جس کا کام قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کرنا ہے عدالتوں میں بیٹھی ہے۔ تو جب کراچی میں کل ہجوم 2 نوجوان ڈاکوؤں کو بری طرح پیٹ رہا تھا تو مجھے عدالت عالیہ اور قومی اسمبلی کے علاوہ وطن عزیز کے زندان بھی یاد آئے۔
وہاں ایک ماہ سے عمر قید کاٹنے والے زندانوں میں کوئی صاحب ثروت نہیں ہوتا۔ کوئی جیب کاٹنے کے جرم میں 6 ماہ کیلئے بند ہے تو کوئی چوری کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا اور ڈیڑھ ، 2 برس کی سزا کاٹ رہا ہے ، چھوٹے چھوٹے جرائم کے مرتکب، نادار گھرانوں کے افراد ، دیوارِ زنداں کے سائے میں پڑے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے نے اس مجبوری کو نہ جانا جس نے ان سے جرم سرزد کرایا تھا۔ بھوک ، بیروزگاری، کسی عزیز کی بیماری، عسرت کی تڑپ۔ حضرت عمر ابن الخطاب ؓ یاد آئے کہ آپ ؓنے بھوک سے بے حال بچے کے روٹی چرانے کے فعل کو درگزر کرتے ہوئے قطع ید کی سزا نہیں سنائی تھی،تو جب 2 نوجوانوں کو سڑک کے درمیان ہر کوئی بری طرح پیٹ رہا تھا تو لاکھوں، کروڑوں کے مشاہرے پانے والے مقننہ اور عدلیہ والے یاد آئے۔ وہ کوئی ایسے اقدامات بھی تجویز کریں جو جرم کے ارتکاب کے اسباب کا بھی جائزہ لیں۔ ناداری! …افلاس…بھوک…امراض! …ڈکیتی کسی کا مشغلہ نہیں ہوتی…

شیئر: