صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام میں 22 اگست کو ایک چیئر لفٹ میں سکول کے بچوں کے پھنس جانے کے باعث ملک بھر میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جنہیں بچانے کے لیے ایک طویل ریسکیو آپریشن ہوا۔
چیئر لفٹ میں سوار بچوں کے والدین ہی نہیں بلکہ مقامی آبادی کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں بسنے والا ہر شہری ان بچوں کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاگو تھا۔
یہ بچے تو بحفاظت اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں مگر صوبے میں سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے چیئر لفٹس اب بھی ایک اہم ذریعہ ہیں جنہیں اگرچہ بعض مقامات پر سیاح تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
بٹگرام: چیئر لفٹ میں پھنسے تمام 8 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیاNode ID: 789686
تاہم صوبے کے شمالی علاقوں میں یہ پلوں اور سڑکوں کے نہ ہونے یا سفری سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث استعمال کی جاتی ہیں اور کچھ علاقوں میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث سڑکوں اور پلوں کے منہدم ہونے کی وجہ سے بھی ان کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے مقامی آبادی کی بہت سی سفری مشکلات آسان ہوئی ہیں۔
چیئر لفٹ کو مقامی زبان میں ’ڈولی‘ یا پھر کچھ علاقوں میں ’زانگو‘ بھی کہا جاتا ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے روایتی سفری ذرائع کے متبادل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔
ڈولی کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے؟
ڈولی کیبل کار کی طرح کی ہوتی ہے جو زیادہ تر پہاڑ کے دونوں جانب نصب کی گئی لوہے کی تار پر حرکت کرتی ہے۔ ڈولی کا وزن اگر زیادہ ہو تو چار تاروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں مقامی لوگ رسی بھی استعمال کرتے ہیں مگر یہ زیادہ پایئدار نہیں ہوتی۔
ڈولی عموماً لوہے سے تیار کی جاتی ہے جس کا وزن 50 سے 100 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ڈولی کی جگہ لکڑی سے لفٹ تیار کی جاتی ہے مگر اس پر ایک یا دو لوگوں سے زیادہ سفر نہیں کر سکتے۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36481/2023/33t84k3-preview.jpg)
یہ کن علاقوں میں استعمال ہو رہی ہے؟
سیاحتی مقامات میں موجود چیئر لفٹس سیر سپاٹے کے لیے ہوتی ہیں مگر دور افتادہ دیہات میں انہیں سفری سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے بالائی علاقوں سوات، دیر، شانگلہ، چترال، بٹگرام سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں چیئر لفٹ کا سفر کے لیے استعمال عام ہے۔
چترال کے رہائشی انوار الحق کے مطابق، ’لوئر چترال اور اپر چترال کے کچھ علاقوں میں اب بھی ڈولی استعمال ہوتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں رابطہ پل دستیاب نہیں ہیں یا پل بنانے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بعض جگہوں پر کیبل کار کے ذریعے دریا بھی عبور کیا جاتا ہے۔‘
لوئر چترال کی ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’چترال میں چھ سے سات مقامات پر چیئر لفٹس کے ذریعے سفر کیا جاتا تھا۔ تاہم کچھ کو سیلاب بہا لے گیا اور کچھ جگہوں پر پل بننے کی وجہ سے ڈولی کا استعمال بند ہو چکا ہے۔‘
ڈولی کی قسمیں
ڈولی کو رسی سے کھینچ کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچایا جاتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب بیش تر مقامات پر ڈولی کے لیے موٹر یا جنریٹر استعمال ہوتا ہے جس میں پیٹرول یا ڈیزل ڈالا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی جدید چیئر لفٹس میں زیادہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں اور منزل تک پہچنے میں وقت بھی کم لگتا ہے۔
چیئر لفٹس نصب کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
بیشتر علاقوں میں چیئر لفٹس مقامی لوگوں یا بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے لگائی جاتی ہیں جنہیں چلانے یا مرمت کرنے کے لیے مقامی شہریوں کی جانب سے چندہ دیا جاتا ہے، کچھ علاقوں میں مقامی شہری کو ہی چیئر لفٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36481/2023/33t27ak-preview.jpg)