Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈولی یا چیئر لفٹ دور افتادہ علاقوں میں ’سفری سہولت‘

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بٹگرام میں 22 اگست کو ایک چیئر لفٹ میں سکول کے بچوں کے پھنس جانے کے باعث ملک بھر میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی جنہیں بچانے کے لیے ایک طویل ریسکیو آپریشن ہوا۔
چیئر لفٹ میں سوار بچوں کے والدین ہی نہیں بلکہ مقامی آبادی کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں بسنے والا ہر شہری ان بچوں کی بحفاظت واپسی کے لیے دعاگو تھا۔
یہ بچے تو بحفاظت اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں مگر صوبے میں سفری سہولیات کی فراہمی کے لیے چیئر لفٹس اب بھی ایک اہم ذریعہ ہیں جنہیں اگرچہ بعض مقامات پر سیاح تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم صوبے کے شمالی علاقوں میں یہ پلوں اور سڑکوں کے نہ ہونے یا سفری سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث استعمال کی جاتی ہیں اور کچھ علاقوں میں سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث سڑکوں اور پلوں کے منہدم ہونے کی وجہ سے بھی ان کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے مقامی آبادی کی بہت سی سفری مشکلات آسان ہوئی ہیں۔
چیئر لفٹ کو مقامی زبان میں ’ڈولی‘ یا پھر کچھ علاقوں میں ’زانگو‘ بھی کہا جاتا ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے روایتی سفری ذرائع کے متبادل کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔

ڈولی کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے؟

ڈولی کیبل کار کی طرح کی ہوتی ہے جو زیادہ تر پہاڑ  کے دونوں جانب نصب کی گئی لوہے کی تار پر حرکت کرتی ہے۔ ڈولی کا وزن اگر زیادہ ہو تو چار تاروں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ بعض علاقوں میں مقامی لوگ رسی بھی استعمال کرتے ہیں مگر یہ زیادہ پایئدار نہیں ہوتی۔
ڈولی عموماً لوہے سے تیار کی جاتی ہے جس کا وزن 50 سے 100 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ڈولی کی جگہ لکڑی سے لفٹ تیار کی جاتی ہے مگر اس پر ایک یا دو لوگوں سے زیادہ سفر نہیں کر سکتے۔

ڈولی کو مقامی افراد ہی آپریٹ کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ کن علاقوں میں استعمال ہو رہی ہے؟

سیاحتی مقامات میں موجود چیئر لفٹس سیر سپاٹے کے لیے ہوتی ہیں مگر دور افتادہ دیہات میں انہیں سفری سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ صوبہ خیبرپختونخواہ کے بالائی علاقوں سوات، دیر، شانگلہ، چترال، بٹگرام سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں چیئر لفٹ کا سفر کے لیے استعمال عام ہے۔
چترال کے رہائشی انوار الحق کے مطابق، ’لوئر چترال اور اپر چترال کے کچھ علاقوں میں اب بھی ڈولی استعمال ہوتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں رابطہ پل دستیاب نہیں ہیں یا پل بنانے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بعض جگہوں پر کیبل کار کے ذریعے دریا بھی عبور کیا جاتا ہے۔
لوئر چترال کی ضلعی انتظامیہ کے ترجمان نے بتایا کہ ’چترال میں چھ سے سات مقامات پر چیئر لفٹس کے ذریعے سفر کیا جاتا تھا۔ تاہم کچھ کو سیلاب بہا لے گیا اور کچھ جگہوں پر پل بننے کی وجہ سے ڈولی کا استعمال بند ہو چکا ہے۔

ڈولی کی قسمیں 

ڈولی کو رسی سے کھینچ کر ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچایا جاتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب بیش تر مقامات پر ڈولی کے لیے موٹر یا جنریٹر استعمال ہوتا ہے جس میں پیٹرول یا ڈیزل ڈالا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی جدید چیئر لفٹس میں زیادہ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں اور منزل تک پہچنے میں وقت بھی کم لگتا ہے۔

چیئر لفٹس نصب کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟

بیشتر علاقوں میں چیئر لفٹس مقامی لوگوں یا بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے لگائی جاتی ہیں جنہیں چلانے یا مرمت کرنے کے لیے مقامی شہریوں کی جانب سے چندہ دیا جاتا ہے، کچھ علاقوں میں مقامی شہری کو ہی چیئر لفٹ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی سونپی جاتی ہے۔

بٹگرام میں ڈولی کے تار ٹوٹنے کی وجہ سے سکول کے طلبہ سمیت آٹھ افراد پھنس گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یہ سواری کتنی محفوظ ہے؟

 ڈولی لوہے کی موٹی تار سے گزر کر جاتی ہے، یہ پایئدار ہونے کی وجہ سے 2 سے 3 سال تک کارآمد رہتی ہے۔ چیئر لفٹ کو نصب کرنے کے لیے مقامی کمپنیوں کی مدد لی جاتی ہے۔ کیبل کار میں عموماً لفٹ کی طرح چار سے پانچ سواریاں بیٹھ سکتی ہیں مگر ایس او پیز نہ ہونے کی وجہ سے چیئر لفٹ آپریٹر 10 سے زیادہ سواریاں بھی بٹھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات حادثات بھی پیش آتے ہیں۔

چیئر لفٹس کی نگرانی کون سا سرکاری محکمہ کرتا ہے؟

خیبرپختونخواہ کے صوبائی محکمہ بلدیات کے ایک ذمہ دار افسر نے اردو نیوز کو رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’صوبے میں موجود تمام چیئر لفٹس یا کیبل کارز  کے لیے ایس او پیز جاری کرنا مقامی حکومتوں و دیہی ترقی کے محکمہ کی ذمہ داری ہے مگر اس حوالے سے اب تک کوئی اقدام نہیں کیا جا سکا، چیئر لفٹس کا معیار اور حفاظتی تدابیر کی جانچ کا اختیار بھی اس محکمہ کے پاس ہے۔

چیئر لفٹس کا معائنہ لازمی قرار دے دیا گیا

بٹگرام حادثے کے بعد کمرشل، سفری اور سیاحتی چیئر لفٹس کا معائنہ لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
چیف سیکریٹری خیبرپختونخواہ نے تمام ضلعی افسروں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ دریاؤں، ندی نالوں اور مختلف مقامات پر چلنے والی سفری چیئر لفٹس کی چیکنگ کی جائے جب کہ کیبل کار کے ڈیزائن، گنجائش اور ان میں حفاظتی اقدامات کا معائنہ بھی کیا جائے۔
خیال رہے کہ 22 اگست کو ضلع بٹگرام میں ڈولی کے تار ٹوٹنے کی وجہ سے سکول کے طلبہ سمیت آٹھ افراد پھنس گئے تھے جن کو 13 گھنٹے جاری رہنے والے طویل ریسکیو آپریشن کے بعد بحفاظت واپس لایا گیا۔

شیئر: