پاکستان میں منتخب قومی اسمبلی اپنی پانچ سال کی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو چکی ہے۔ اب نئی اسمبلی کے انتخاب کے لیے نئے الیکشنز کا انتظار ہو رہا ہے۔
عام طور پر قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد ملک میں یا تو مارشل لا کی خاموشی ہوتی ہے یا پھر اگلے الیکشن کی گہما گہمی۔ عجیب بات ہے کہ اس بار دونوں ہی نہیں ہیں۔ یعنی نہ تو ملک میں مارشل لا ہے اور نہ ہی عام انتخابات کا بگل بجا ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنے چیئرمین سمیت 9 مئی کے ہنگاموں کو بھگت رہی ہے تو ن لیگ کی قیادت ایک بار پھر لندن میں گوشہ نشین ہے۔
مزید پڑھیں
-
صدر نے الیکشن کمیشن کے خط پر وزارتِ قانون سے رائے مانگ لیNode ID: 790241
-
نواز شریف اکتوبر میں پاکستان آئیں گے: شہباز شریف کا اعلانNode ID: 790591
پیپلزپارٹی نے البتہ جمعے کے روز خاموشی توڑ دی ہے اور90 دن کی آئینی مدت کے اندر انتخابات کروانے کے لیے ایک بیٹھک کا اہتمام کیا ہے۔
لاہور جو سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ مانا جاتا ہے وہ بھی خاموش ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کا دفتر بھی آباد دکھائی نہیں دیتا۔ نو مولود استحکام پاکستان پارٹی کی گاہے گاہے کوئی سرگرمی نظر آجاتی ہے لیکن وہ بھی فوٹو سیشن تک محدود ہے۔
اس ساری صورت حال سے ایک سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ملک عام انتخابات واقعی کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں رہی؟ اور کیا الیکشن ہو بھی رہے ہیں یا نہیں؟
پاکستان کی سیاسی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ملک کی موجودہ صورت حال میں کسی سیاسی گہما گہمی کا نہ ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ الیکشن اپنے مقررہ وقت کے بجائے اگلے سال ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کی خاموشی کا مطلب ہے کہ اندرونی طور پر ان کی مقتدرہ سے مفاہمت ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/August/36486/2023/df5jb-preview.jpg)
سہیل وڑائچ جو ان دنوں لندن میں ہیں، کا کہنا ہے کہ ’لیکن اس بات کا ہر گز مطلب نہیں کہ میں انتخابات میں کوئی غیر معمولی تاخیر بھی دیکھ رہا ہوں ہے۔ یہ صرف چند ایک مہینوں کا معاملہ ہے۔ مطلوبہ صورت حال بنتے ہی الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ دے دے گا تو پھر یہ گہما گہمی بھی نظر آنا شروع ہو جائے گی۔‘
ملک میں تمام سیاسی جماعتوں نے ابھی عوامی رابطہ مہم شروع نہیں کی ہے۔ مسلم لیگ ن کی راہنما مریم نواز صرف مختلف ملک کے سفیروں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں یا پھر جماعت کے اندرورنی معاملات کو دیکھتی ہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جو اس وقت ملک کی معاشی صورت حال ہے، خاص طور پر بجلی کے بلوں نے لوگوں کو متاثر کیا ہے اس سے بھی سیاسی معاملات ماند پڑے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات اور جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’اس وقت فیصلہ ساز چاہے وہ سیاسی ہوں یا اسٹیبلشمنٹ ان کے سامنے ملکی معیشت کی صورت حال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد کبھی بھی پاکستان میں اتنا سیاسی سناٹا نہیں دیکھا گیا۔ یہ ایک نئی بات ضرور ہے لیکن سمجھ میں آنے والی بات بھی ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت چونکہ پچھلی حکومت میں تھی اس لیے انہیں حالات کا بخوبی ادراک ہے۔ اس سب کو اندازہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جب بھی تاریخ کا اعلان کرے گا تو اس کے بعد ہی وہ میدان عمل میں آئیں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/August/36486/2023/afp.com-20130512-ph-del-del6216941-preview.jpg)