’آکسیجن باغ‘ کے ذریعے گلوبل وارمنگ سے لڑنے والا انڈین پولیس اہلکار
’آکسیجن باغ‘ کے ذریعے گلوبل وارمنگ سے لڑنے والا انڈین پولیس اہلکار
اتوار 27 اگست 2023 7:05
راحِل مرزا -نئی دہلی
دیوندر سورا کو ان کی خدمات کی وجہ سے آج ’ٹری مین آف ہریانہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے (فوٹو: ٹری مین آف ہریانہ فیس بک)
گلوبل وارمنگ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی وجہ سے زمین پر متواتر برف پگھل رہی ہے، موسم سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ انسانوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی آلودگی سے دریاؤں کا پانی نقصان دہ کیمیکلز سے بھرتا جا رہا ہے۔ بہت سے لوگ اسے دیکھ کر شترمرغ کی طرح زمین میں منہ چھپا کر ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ان مسائل کا حل ڈھونڈنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔
ایسے ہی ایک شخص انڈین دارالحکومت دہلی سے متصل ریاست ہریانہ کے دیوندر سورا ہیں جنھوں نے انسان کو درپیش بڑے مسائل کے حل کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی ہے۔
اگر ہندوستان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے ماریموتھو یوگناتھ کو سوا لاکھ سے زیادہ درخت لگانے کے لیے ’ٹری مین آف انڈیا‘ کہا جاتا ہے تو ریاست ہریانہ کے سونی پت ضلع کے دیوندر سورا کو ان کی خدمات کی وجہ سے آج ’ٹری مین آف ہریانہ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
36 سالہ دیوندر سورا پیشے سے پولیس کانسٹیبل ہیں۔ وہ چندی گڑھ پولیس میں بطور سپاہی تعینات ہیں اور انھیں وہاں کی ہریالی بہت متاثر کرتی ہے۔
جب اردو نیوز نے ان سے پوچھا کہ درخت لگانے کے لیے ان کی ترغیب و محرکات کیا تھے تو انھوں نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جس طرح ایک پلان اور منصوبے کے تحت چندی گڑھ کو بسایا گیا ہے وہ قابل رشک ہے، آپ گرمیوں کے دن میں درختوں کے سائے تلے دھوپ کی تپش کا احساس کیے بغیر میلوں پیدل چل سکتے ہیں۔ جب چندی گڑھ میں میری پوسٹنگ ہوئی تھی تو میں پولیس چوکی درختوں کے سائے میں پیدل ہی جایا کرتا تھا۔ وہیں سے ذہن میں آیا کہ کیوں نہ ہریانہ کے تمام گاؤں میں اس کا کام شروع کیا جائے۔‘
آکسیجن باغ
21 مارچ 2021 کو دیوندر سورا کی سرپرستی میں سونی پت کے بھٹ گاؤں میں ایک غیر سرکاری مہم کے تحت 10 ایکڑ زمین پر 4000 درخت لگائے گئے جس میں گاؤں والوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
دیوندر نے اس مہم کو ’آکسیجن باغ‘ کا نام دیا ہے اور یہ اس وقت کا تیسرا آکسیجن باغ تھا جو دیوندر کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جس طرح ہریانہ میں پہلے جنگل ہوتے تھے اور کئی قسم کے چرند و پرند ہوتے تھے وہ ہریالی نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ ختم ہونے لگے اس لیے انھوں نے ’آکسیجن باغ‘ کا منصوبہ بنایا اور اس پر عملدرآمد شروع کیا جس میں 100 سے زیادہ اقسام کے درخت لگائے گئے، جن میں نیم، برگد، گولڑ، پیپل وغیرہ بڑے اور گھنے درخت شامل ہیں۔
دیوندر سورا بتاتے ہیں کہ ان میں بچپن سے ہی ملک کا نام روشن کرنے کا خیال جان گزیں تھا۔ پولیس میں تقرری سے پہلے وہ بطور ایتھلیٹ اپنے صوبے کی نمائندگی کر چکے ہیں، لیکن ایک انجری کی وجہ سے ان کا یہ خواب پايہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
وہ 2010 سے پودے لگانے کا کام کر رہے ہیں اور اب تک چار لاکھ سے زائد پودے لگا چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس پروجیکٹ کا نام ’آکسیجن باغ‘ رکھا ہے اور اب تک وہ 20 آکسیجن باغ لگا چکے ہیں۔
ہزاروں نوجوانوں کی حمایت
ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پولیس کی نوکری بذات خود مشکل اور مصروف ہوتی ہے اس میں وہ اتنے درخت نکالنے کے لیے وقت کیسے نکالتے ہیں اور آج ان کے ساتھ کتنے لوگ ہیں؟
دیوندر سورا نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میری جاب 24 گھنٹے کی اور پھر 48 گھنٹے چھٹی کے حساب سے ہے تو یہاں وقت کا مسئلہ نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پلانٹ کم لگاؤ، لوگوں کو اس کے فوائد زیادہ بتاؤ اور اس کام میں کافی وقت لگتا ہے۔ لوگ آج میرے ساتھ جڑے ہوئے ہیں یہ گذشتہ آٹھ دس سال کی محنت ہے۔ جس طرح سیاسی اجتماعات میں بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے، میلے ٹھیلے میں بھیڑ ہوتی ہے اسی طرح اگر آپ درخت لگانے کے فوائد لوگوں کو بتائیں گے تو وہ آپ سے ایسے ہی جڑیں گے جیسے وہ کسی سیاسی تحریک سے جڑتے ہیں۔‘
دیوندر کہتے ہیں آج ان کی ٹیم میں دس ہزار سے زیادہ لوگ شامل ہیں اور یہ کسی انقلاب سے کم نہیں۔
گلوبل وارمنگ سے لڑنے کے بارے میں دیوندر اپنی زندگی کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ سواری کے لیے موٹر سائیکل کے بجائے سائیکل استعمال کرتے ہیں، پلاسٹک سے بچنے کے لیے کپڑے کے تھیلے کا استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنی ساری تنخواہ پیڑ پودے لگانے میں صرف کر دیتے ہیں۔
ان کی اس بات پر پوچھا تو پھر گھر کیسے چلتا ہے تو انھوں نے کہا وہ ان کی والد کی پینشن سے چلتا ہے۔
اس سے قبل انھوں نے آؤٹ لک میگزن کے ساتھ بات چیت میں کہا تھا کہ ’مادیت اپنے عروج پر ہے۔ لوگ اس کے لیے درخت کاٹ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، پرندوں کی نسلیں اپنا ٹھکانہ کھو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں پرندوں کی بہت سی انواع معدوم ہو رہی ہیں۔
وبائی بیماری فطرت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ
انھوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی وبائی بیماری ہماری جانب سے فطرت کو محفوظ نہ رکھنے کا نتیجہ تھی۔ ہم زمین کا توازن بگاڑ رہے ہیں اور اسے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ایک عوامی تحریک کے ذریعے دیوندر سورا نے اب تک اپنی ریاست میں 11 ہزار 500 نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا ہے جو درخت لگاتے ہیں، ان کا تحفظ کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔
اپنی اس مہم کو انھوں نے ’پریاورن متر‘ (ماحول کے دوست) کا نام دیا ہے۔
دیوندر سورا کو وہ وقت بھی یاد ہے جب ہریانہ میں بہت ہریالی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے جنگلات کا 90 فیصد حصہ تباہ ہو چکا ہے، اور پانی کی سطح نیچے جا رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مادیت کی قیمت سے آگاہ ہوں۔‘
سورا نے سونی پت-گوہانہ ہائی وے کے ساتھ ایک ’جنتا نرسری‘ بھی قائم کی ہے جہاں ہر سال مختلف اقسام کے درختوں کے تقریباً 25 ہزار پودے مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔
دیوندر سورا نے کہا کہ کسی بھی ریاست یا ملک میں اگر نوجوان یہ تہیہ کر لیں کہ وہ درخت لگائیں گے تو دنیا ہری بھری ہو جائے گی اور بہت سے موسمیاتی مسائل حل ہو جائیں گے۔