Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور: جب 12 سال سے گمشدہ بیٹی کو دیکھ کر باپ پر سکتہ طاری ہو گیا

انسانوں کی بچھڑنے اور ملنے کی کہانیاں جذبات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ لیکن جب کوئی ایسی کہانی سامنے آئے جس میں ملنے کی تمام امیدیں ہی دم توڑ چکی ہوں اور ایک انہونی ہو جائے تو سکتہ طاری ہونا ایک فطری بات ہے۔
اندرون لاہور پھجا سری پائے چوک میں واقع نان چنے کی ایک دکان پر جمعہ 25 اگست کی سہ پہر جب محمد خلیل گاہکوں سے فراغت کے بعد خود کھانا کھانے لگے اور ابھی پہلا نوالہ ہی منہ کی طرف کیا تھا کہ ان کی نظر گلی میں آتی ایک نوجوان لڑکی پر پڑی اور وہ وہیں ساکت ہو گئے۔

صبا خلیل کی کہانی

لاہور کے لاری اڈہ کے علاقے میں آج سے 12 سال قبل ایک 8 سالہ بچی صبا خلیل کے گم ہونے کی خبر ان ہی خبروں میں سے ایک تھی جس میں بچے گم ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ گھر سے سودا سلف لینے گئیں اور راستہ بھٹک گئیں۔ ماں باپ نے بہت ڈھونڈا تھانے میں درخواست دی۔ صبا خلیل نے اپنے پیاروں سے بچھڑنا تھا تو وہ بچھڑ گئی۔
محمد خلیل ان دنوں لاری اڈے کے علاقے میں ایک ریڑھی پر نان چنے لگاتے تھے ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔ ایک کمسن بیٹی کی گمشدگی نے ماں اور باپ کو بوڑھا کر دیا تھا۔ کئی سالوں کی تلاش کے بعد وہ تھک چکے تھے لیکن اب بھی دعاؤں میں ان کی آس زندہ تھی۔
پاکستان میں گمشدہ اور ماں باپ کے بغیر بچوں کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے ہیں۔ صرف لاہور جیسے شہر میں سرکاری ریکارڈ کے مطابق 42 ایسی تنظیمیں اور ادارے ہیں جہاں گمشدہ، لاوارث یا پھر یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کیا جاتا ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور بلقیس ایدھی فاؤندیشن صرف دو ادارے ایسے ہیں جہاں لاوارث یا گمشدہ بچوں کو امان ملتی ہے۔ باقی تنظیمیں اور ادارے صرف ان بچوں کو پناہ دیتے ہیں جن کا ماں باپ کے علاوہ کوئی والی وارث نہ ہو۔

سسٹم کی ناکامی

اس سال مئی کے مہینے میں پنجاب کے آئی جی  پولیس ڈاکٹر عثمان انور لاوارث بچوں کے والدین کو ڈھونڈنے کے لیے اپنے ماتحتوں کو کوئی سکیم بنانے کا ٹاسک دیا تو لاہور کی ٹریفک پولیس نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ سٹی ٹریفک پولیس چیف مستنصر فیروز نے اپنے محکمے کے اندر ہی تعلیم و تربیت سے منسلک برانچ کو شہر بھر میں لاوارث بچوں کو فہرستیں ترتیب دینے اور ان کے ورثا کو کھوجنے کا ٹاسک سونپ دیا۔
ٹریفک پولیس کی ٹیم نے تمام 42 مراکز میں موجود لاوارث بچوں کی فہرستیں ترتیب دیں تو چائلڈ پروٹیکشن بیورو سے 68 ایسی لڑکیوں کی جانکاری ملی جن کے کیس ڈیڈ ہو چکے ہیں اور جن کے والدین کا کھوج لگانا تقریبا ناممکن ہو چکا ہے۔
فہرست ملنے کے بعد تین رکنی ٹریفک پولیس کی ٹیم جس کی سربراہی ٹریفک وارڈن محسن عباس ملک کر رہے تھے، فہرست کی ترتیب کے مطابق بچوں سے انٹرویو کرنے کے عمل کا آغاز کیا۔ فہرست میں پہلا نمبر ہی صبا خلیل کا تھا۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور بلقیس ایدھی فاؤندیشن میں لاوارث یا گمشدہ بچوں کو امان ملتی ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی اس کام کی ٹریننگ تو نہیں تھی تاہم وہ اسے ایک ٹاسک سمجھ کر رہے تھے۔ ٹیم کے سربراہ محسن عباس نے اردو نیوز کو بتایا کہ جب صبا خلیل کا وہ انٹرویو کر رہے تھے تو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم بھی ساتھ موجود تھی۔
’بچوں کا اعتماد حاصل کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی بساط کے مطابق صبا سے سوال جواب کرنا شروع کیے۔ تو ان کو چند بنیادی باتیں یاد تھیں۔ ایک والد کا نام خلیل، دوسرا وہ لاری اڈے کے علاقے میں ریڑھی لگاتے تھے، تیسرا ان کے گھر کے قریب مٹھو چائے والا کی دکان تھی۔ اور ایک تندور تھا۔‘

تلاش کا سفر

ان چند بنیادی معلومات کے ساتھ ہی ٹریفک پولیس کی ٹیم نے صبا کے والدین کو کھوجنے کا عمل شروع کیا۔
محسن عباس بتاتے ہیں کہ ’ہم تین لوگ تھے اور تینوں ہی لاری اڈے پر پہنچ کر مختلف سمتوں میں چل پڑے۔ بچی کو چائلڈ پروٹیکشن ٹیم کے ساتھ گاڑی میں ہی بٹھایا تھا۔ صبح ساڑھ 10 بجے کا وقت تھا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ لاری اڈے کے تمام ریڑھی بانوں سے خلیل کا پوچھا جائے۔ تین گھنٹے تک ہم سب سے پوچھ چکے تھے لیکن اس نام کوئی بندہ نہیں ملا۔‘
12  سال قبل جب صبا خلیل گم ہوئیں تو اس وقت اس علاقے کی شکل اور تھی اور اب انقلابی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ مینار پاکستان کا حدود اربعہ بدل چکا تھا۔ سڑکیں اور راستے بھی تبدیل تھے۔ اور گاڑی میں بیٹھی 20 سالہ صبا کے لیے اب سب کچھ نیا تھا۔
کھوجی ٹیم نے اقبال پارک کے چاروں اطراف بتی چوک تک ایک ایک ریڑھی بان کھنگالنا شروع کیا۔ اور انہیں خلیل نام کا ایک شخص ملا بھی لیکن وہ صبا کے والد نہیں تھے۔
محسن کے مطابق ’ٹیکسالی میں ایک دکاندار نے یہ بتایا کہ وہ ایک مٹھو چائے والے کو جانتے ہیں جو لاری اڈے کی ملحقہ ایک گلی میں ہے۔ اس کو ہم نے ساتھ لیا اور اس گلی میں لے گئے لیکن یہ مٹھو وہ نہیں تھا کیونکہ صبا اس گلی کو نہیں پہچان رہی تھیں۔ لیکن اسی گلی میں ہمیں تین چیزیں اکھٹی ملیں نان بائی اور دودھ دہی کی دکان بھی تھی اس علاقے میں 50 کے قریب گھر تھے ہم نے ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کیا۔‘

جب والد کی نظر صبا پر پڑی تو وہ چند لمحے کے لیے ساکت ہو گیا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

تقریبا اڑھائی بجے یہ ٹیم اس گلی کی دوسری طرف نکلی تو ایک اور نان بائی کی دکان نظر آئی۔ محسن بتاتے ہیں کہ ’اس دکان کے باہر لڑکے نے تمام سوالوں کے جواب نہیں میں دیے لیکن اس دکان کا مالک فقیر حسین جو اندر کام کر رہا تھا اس کی نظر لڑکی پر پڑی تو وہ باہر آ گیا  اور کہتے ہیں کہ یہ لڑکی دیکھی دیکھی لگتی ہے اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ اس کے والد کا نام خلیل تو نہیں؟ جب ہم نے ہاں میں سر ہلایا تو اس نے بتایا۔‘
’وہ یہاں کرائے پر رہتے تھے اور چند سال پہلے اس نے اندرون میں دکان بنا لی ہے اور وہیں شفٹ ہو گئے ہیں اور ان کی بچی گم ہوئی تھی۔‘

دعا کی قبولیت کا وقت

یہ تقریبا سہ پہر سوا تین بجے کا وقت تھا جب ٹریفک پولیس کی ٹیم نے فقیر حسین کو ساتھ لیا اور پھجا سری پائے چوک کی طرف روانہ ہو گئے۔
محسن عباس بتاتے ہیں کہ ’ہم نے گاڑی کھڑی کی اور صبا کو بھی ساتھ لیا اور اس نان چنے والی دکان کی طرف چلنا شروع ہوئے جو فقیر حسین کے مطابق خلیل کی دکان تھی۔ اس دکان کے باہر ہی ایک شخص کرسی پر ابھی بیٹھتے ہی کھانا کھانے لگا تھا۔ اس نے جیسے ہی پہلا نوالہ منہ کی طرف کیا تو ہم بھی قریب پہنچ چکے تھے اور اس کی نظر صبا پر پڑی اور وہ ساکت ہو گیا۔‘
محسن کہتے ہیں کہ ’وہ ایک ایک لمحہ میری آنکھوں میں نقش ہے۔ وہ نوالہ وہیں رکا ہوا تھا اور اس شخص کی ساکت نظریں بچی پر تھیں۔ جب ہم قریب پہنچ گئے اور اس نے ہمیں نوٹس تک نہیں کیا تو میں نے ان کے کندھے کو پکڑ کر ہلایا۔ تو وہ ہوش میں آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا نام خلیل ہے؟ تو انہوں نے کہا جی۔ میں نے کہا کھڑے ہو جائیں۔ وہ کھڑے ہوئے تو میں نے کہا کہ اس بچی کو پہچانتے ہیں؟ تو ان کے منہ سے نکلا یہ میری بیٹی صبا ہے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئے۔‘
صبا کے والد نے روتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے ابھی جمعہ پڑھا اور رو رو کر اپنی بیٹی کے بارے میں دعا کی کہ وہ مل جائے۔‘

صبا ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہیں کیونکہ قانونی عمل پورا کرنے کے بعد ہی ان کو والدین کے حوالے کیا جائے گا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

ان مناظر کو دیکھ کر وہاں کافی لوگ اکھٹے ہو چکے تھے۔ اور ہر آنکھ اشک بار تھی۔ والد نے اپنی بیٹی کو گلے لگایا اور بڑی دیر تک بے یقینی کی کیفیت میں رہے۔
صبا ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہیں کیونکہ قانونی عمل پورا کرنے کے بعد ہی ان کو والدین کے حوالے کیا جائے گا۔
اس کہانی میں کئی مقام پر اس نظام پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں کہ ذمہ دار اداروں کے درمیان رابطوں کا فقدان کس حد تک ہے۔ صبا 12 سال تک اپنے گھر سے محض 10 کلو میٹر کی دوری پر تھیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ٹریفک پولیس کی ٹیم نے گزشتہ دو مہینوں میں 10 ایسے بچوں کو اپنے والدین کو ملوایا ہے جو اسی طرح ملنے کی آس کھو چکے تھے۔

شیئر: