Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیٹرول اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ، ’لگتا ہے 400 بھی کراس کریں گے‘

معاشی ماہرین کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجوہات میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ بھی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت 300 سو روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے اور عوامی حلقوں میں اس بارے میں کافی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
جب سے نگران حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ دوسرا بڑا اضافہ ہے۔ اب ایک لیٹر پیٹرول پر لیوی مزید بڑھا کر 60 روپے تک پہنچا دیا گیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی روپے کی قدر بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہے۔ امریکی ڈالر کا انٹربینک ریٹ 307 روپے سے کچھ اوپر ہے۔ یوں ڈالر اور پیٹرول دونوں 300 روپے کی حد عبور کر چکے ہیں۔
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بالخصوص پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں کے معاملے پر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
گزشتہ کئی ماہ سے ملک میں آٹے کی فراہمی سے متعلق شکایات عام ہیں جبکہ چند دن سے چینی کا بحران دوبارہ سر اٹھاتا محسوس ہو رہا ہے۔
ان حالات میں احتجاج کرنے والے افراد کی جانب سے یہ مطالبہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ معاشرے کے بالائی طبقے اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی مراعات میں کمی کی جائے۔
ایک مطالبہ یہ بھی دہرایا جا رہا ہے کہ بالادست طبقے کو مفت پیٹرول اور بجلی کے یونٹس دینے کا سلسلہ روکا جائے لیکن نگراں حکومت کے عہدے داروں کے بیانات انہیں مطمئن کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کہاں جا کر رکے گا؟ کیا نگراں حکومت شہریوں کو اس شعبے میں کوئی سہولت یا چھوٹ دے سکتی ہے؟ معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نگراں حکومت کے اختیار میں بہت زیادہ کچھ نہیں ہے۔

پاکستان میں ڈالر اور پیٹرول دونوں 300 روپے کی حد عبور کر چکے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر معاشی تجزیہ کار خالد مصطفیٰ نے اُردو نیوز کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’31 اگست کو حکومت نے لیوی کی آخری حد یعنی 60 روپے فی لیٹر عائد کر دی ہے۔ اس سے پچھلے 15 روز کی کمی پوری کی جائے گی جبکہ 15 ستمبر کو پیٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے۔‘
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجوہات میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ اور انٹرنیشل مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ہے۔

’حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا‘

خالد مصطفیٰ کے مطابق ’اس مرتبہ بھی حکومت نے ڈالر کا ایکسچینج ریٹ پوری طرح لاگو نہیں کیا ہے۔ انہوں نے ڈالر کی قیمت 2 روپے 99 پیسے رکھ کر پیٹرول کی قیمت کا تعین کیا ہے لیکن یہ کمی 15 ستمبر کو بظاہر مزید ٹیکس لگا کر پوری کی جائے گی۔‘
’16 ستمبر کو نئی قیمت آئے گی۔ بات یہ ہے کہ حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا اور دوسری جانب حکومت مارکیٹ کو بھی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی۔ کل وزیراعظم کے بیان کے بعد سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی تھی اور رات کو پیٹرول کی قیمت میں اضافے کے بعد مزید غیریقینی کی فضا پیدا ہوئی۔‘

’ریل، جہاز اور دیگر گاڑیوں کے کرایوں میں اضافہ ہو گا‘

پیٹرول اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے فوری اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں خالد مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ’ہائی سپیڈ ڈیزل زیادہ تر ٹرانسپورٹیشن میں استعمال ہوتا ہے۔ اب ریل، جہاز اور دیگر گاڑیوں کے کرایوں میں اضافہ ہو گا۔ چینی اور آٹا تو پہلے ہی مہنگے ہیں، اب وہ تمام اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی جو ایک صوبے سے دوسرے صوبے بالخصوص ملک کے بالائی حصوں میں فروخت کے لیے لے جائی جاتی ہیں۔‘
’نگراں حکومت کے پاس کچھ زیادہ سپیس نہیں ہے۔ اگر یہ ٹیکس میں کمی کریں گے تو آئی ایم ایف اس کمی کے بارے میں سوال کرے گا کہ آپ معاہدے کے مطابق یہ ٹیکس کہاں سے جمع کریں گے۔ ان کے پاس کوئی اور ایسا سیکٹر نہیں ہے جس سے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے۔‘

’روسی تیل میں رسک کا عنصر غالب تھا‘

کچھ عرصہ قبل روس سے آنے والے خام تیل کے ٹینکر کے حوالے سے اس وقت کی اتحادی حکومت کے وزیر پیٹرولیم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے بعد پیٹرول کی قیمتیں نیچے آئیں گی لیکن اگست کے وسط میں ایسی خبریں سامنے آئیں کہ وہ تیل پاکستان کے لیے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا۔
روسی تیل کے بارے میں خالد مصطفیٰ کا خیال ہے کہ ’ایک تو یہ کہ روس نے اس تیل پر پاکستان کو رعایت کم دی تھی۔ دوسرا اس کی ٹرانسپورٹیشن پر 30 سے 36 دن کا دورانیہ لگتا ہے، اس لیے اس میں رسک کا عنصر غالب تھا۔‘
’دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی ریفائنری بہت فرسودہ ہے جو روس سے آنے والے ہائی کروڈ کو پراسس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ خلیجی ممالک سے جو تیل برآمد کیا جاتا ہے، وہ عموماً لائٹ کروڈ ہوتا ہے۔‘
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی فی الحال ملکی معیشت کے سنبھلنے کے بارے میں زیادہ پراُمید نہیں ہیں۔

بجلی کے بھاری بلز اور مہنگائی کے خلاف پاکستان کے مختلف شہریوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

قیصر بنگالی نے اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’نگران وزیراعظم اور وزیرخزانہ کے بیانات سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا کہ مستقبل قریب میں مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کچھ کمی آ سکے گی کیونکہ واجبات تو ادا کرنا ہی ہوں گے۔ اس لیے مارکیٹ کا کریش کرنا اور کارخانوں کا بند ہونا اس کا لازمی نتیجہ ہو گا۔‘
ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ابھی 300 کا ہندسہ عبور کیا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ یہ چار سو بھی کراس کرے گا کیونکہ ان حکمرانوں اور طاقت ور طبقات نے اپنے غیر ترقیاتی اخراجات تو کم نہیں کرنے۔‘
’اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کے پاس مینڈیٹ ہوتا ہی نہیں ہے۔ مینڈیٹ کہیں اور سے آتا ہے اور پالیسیاں بھی کوئی اور دیتا ہے۔‘

’ملک تین برس قبل ہی ڈیفالٹ کر چکا تھا‘

سیاسی جماعتوں کے کردار اور آئندہ الیکشن میں معاشی سوال پر ان جماعتوں کو لاحق خدشات پر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ ’مجھے اس سے تو کوئی غرض نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ معیشت کا کیا ہو گا۔‘
’ملک تین برس قبل ہی ڈیفالٹ کر چکا تھا۔ ڈیفالٹ کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنا قرض واپس نہ کر سکیں۔ اب حالت یہ ہے کہ حکومتیں مزید قرض لے کر پرانا قرضہ ادا کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ڈیفالٹ اور کسے کہتے ہیں؟ اب تو یہ اثاثے بھی بیچ رہے ہیں۔’
’مجھے تو لگتا ہے یہ اثاثے نہیں ملک بیچ رہے ہیں اور مستقبل میں ہم یہاں رہتے ہوئے دیگر ممالک کے ملازم کے طور پر کام کریں گے۔‘

شیئر: