Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چترال حملے میں ملوث ’تین شدت پسندوں کا تعلق وزیرستان سے تھا‘

’تحریک تحفظ حقوق چترال‘ کے امن مارچ میں بڑی تعداد میں اپر اور لوئر چترال کے شہریوں نے شرکت کی (فوٹو: اردو نیوز)
سکیورٹی فورسز نے پاکستان اور افغانستان سرحد سے متصل چترال کے سرحدی علاقوں میں چھ ستمبر کو دراندازی کرنے والے کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے 12 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
اب ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے تین کا تعلق وزیرستان سے ہے۔

 دہشت گردوں کی شناخت

چترال کے ایک ذمہ دار آفیسر نے  اردو نیوز کو بتایا کہ شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کے بعد ان کے ساتھی لاشیں چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور اب لاشوں کی شناخت کا مرحلہ جاری ہے۔
 انہوں نے بتایا کہ ’تین شدت پسندوں کا تعلق وزیرستان سے ہے جو اس سے قبل بھی دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث تھے۔‘
’ہلاک ہونے شدت پسندوں میں مالاکنڈ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کچھ شدت پسند بھی شامل ہیں تاہم ان کا ڈیٹا اکھٹا کرنا ابھی باقی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز حملہ آوروں کی تعداد 100 سے زیادہ تھی جن میں سے بیشتر زخمی ہو کر واپس بھاگ گئے۔

بارڈر کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال محمد علی کے مطابق گزشتہ روز کے بعد آج کیلاش وادی اور ارسون میں مکمل امن ہے تاہم صبح کے وقت بارڈر کے اس پار سے شدت پسندوں نے چند مارٹر گولے پھینکے ہیں مگر کوئی جانی نقصان  نہیں ہوا۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’بارڈر پر سکیورٹی فورسز کے تازہ دم دستے موجود ہیں جو کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہی۔‘

چترال میں امن مارچ 

دوسری جانب آج (جمعرات کو) چترال میں تحریک تحفظ حقوق چترال نے امن مارچ کا انعقاد کیا ہے جس میں بڑی تعداد میں اپر اور لوئر چترال کے شہریوں نے شرکت کی۔
ریلی کے شرکاء نے دہشت گردی کے خلاف نعرے لگائے اور چترال سکاؤٹس کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
امن ریلی کے منتظمین میں سے ایک پیر مختار نے مطالبہ کیا کہ چترال سے منسلک بارڈر کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’چترال ایک پرامن علاقہ ہے مگر مشکل وقت میں یہاں کے عوام کو آواز اٹھانا آتا ہے۔‘
’مشکل کے اس گھڑی میں ہم اپنے فورسز کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘

امن مارچ کے شرکا نے سفید جھنڈے اور دہشت کی گردی مذمت پر مبنی نعروں والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے(فوٹو: اردو نیوز)

دوسری جانب جماعت اسلامی چترال کی جانب سے امن گرینڈ جرگہ بلایا گیا جس میں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کرکے دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی۔
جرگے میں شریک تمام ضلعی رہنماؤں نے چترال میں امن کے قیام اور بارڈر پر شدت پسندوں کے مکمل خاتمے سے متعلق حکومت سے مطالبہ کیا 
واضح رہے کہ چھ ستمبر کو ضلع چترال کے سرحدی مقامات استوئی اور جنجریت کوہ پر افغانستان سے آئے شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 12 عسکریت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ عسکریت پسندوں کی فائرنگ سے چترال سکاؤٹس کے چار اہلکار جان سے گئے اور سات زخمی ہوئے۔

شیئر: