Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں ایشیا کپ کا میچ جس نے ’مغوی افغان خاتون‘ کو اپنوں سے ملا دیا

ایشیا کپ کا افغانستان اور بنگلہ دیش کا میچ لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں شروع ہونے میں ابھی تھوڑا وقت تھا۔ پاکستان میں افغانستان کے ناظم الامور احمد شکیب بھی میچ دیکھنے کے لیے قذافی سٹیڈیم کی پارکنگ میں اپنے پروٹوکول کے ساتھ پہنچ چکے تھے۔
لاہور کی ٹریفک پولیس سٹیڈیم کے اندر اور باہر ٹریفک کی روانی قائم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ ایک ٹریفک وارڈن جن کی ڈیوٹی سٹیڈیم کے اندر تھی وہ بڑی شدت سے افغان ناظم الامور کے موٹر کیڈ کا انتظار کر رہے تھے۔
جیسے ہی ٹریفک وارڈن نے وائرلیس پر سنا کہ افغان ناظم الامور کا موٹر کیڈ سٹیڈیم میں داخل ہو رہا ہے تو وہ تیزی سے پارکنگ میں پہنچے۔ اور پارکنگ سے وی آئی پی سٹینڈ تک لے جانے والی چھوٹی روور کی ڈرائیونگ سنبھالی اور احمد شکیب کی گاڑی کے پاس لگا دی اور افغان ناظم الامور اور ان کے ملازمین کو پورے پروٹوکول کے ساتھ روور میں بٹھایا اور وی آئی پی سٹینڈ کی طرف روانہ ہو لیے۔
مقررہ جگہ پر پہنچا کر ٹریفک وارڈن نے اچانک ناظم الامور کو کہا کہ ’سر مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔‘ احمد شکیب رک گئے اور غور سے یونیفارم میں ملبوس ٹریفک وارڈن کو دیکھا۔ ٹریفک وارڈن نے فوری طور پر بولنا شروع کر دیا کہ ’سر ہمارے پاس افغانستان سے اغوا کی گئی ایک نوجوان خاتون ہیں جن کا ایک بچہ بھی ہے ہم افغانستان میں ان کے خاندان والوں کو ڈھونڈ رہے ہیں کیا آپ ہماری مدد کر سکتے ہیں؟‘ احمد شکیب یہ سُن کر ہکا بکا رہ گئے اور بولے کہ ’ہم پوری کوشش کریں گے۔‘ انہوں نے اپنے سٹاف کو ٹریفک وارڈن شاہد قیوم کا نمبر لے کر رابطہ میں رہنے کی ہدایت کر دی۔

افغان مغوی خاتون کون ہیں؟

افغانستان بنگلہ دیش کرکٹ میچ سے دو ہفتے پہلے لاہور کے بلقیس ایدھی ہوم (جہاں بے سہارا افراد کو امان حاصل ہے) میں ٹریفک وارڈن شاہد بے سہارا افراد کا ریکارڈ کھنگال رہے تھے تو انہیں افغانستان سے تعلق رکھنے والی خاتون مرسل کومل سعیدی کا نام بھی فہرست میں ملا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے شاہد قیوم نے بتایا کہ ’نام دیکھنے کے بعد ہماری ٹیم نے خاتون کو بلایا تو انہوں نے ایک آٹھ نو مہینے کا بچہ اٹھایا ہوا تھا۔ لیکن ان کی زبان ہمیں سمجھ نہیں آئی۔ ایک پشتو بولنے والے کو ہم نے بلایا تو ان کو بھی زبان سمجھ میں نہیں آئی۔ انہوں نے بتایا یہ دری اور فارسی کے مکس لہجے میں بات کر رہی ہیں۔‘
خیال رہے کہ ان دنوں لاہور کی ٹریفک پولیس کا ایجوکیشن ونگ بے سہارا بچوں کو ان کے گھر والوں سے ملوانے کی ایک کمپین چلا رہا ہے۔ اور ٹریفک پولیس کی ٹیم بلقیس ایدھی ہوم اور چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رہنے والے بچوں اور افراد کے کوائف کی چھان بین کر رہی ہے۔
ٹریفک وارڈن شاہد بتاتے ہیں کہ ’ہم نے پھر فارسی بولنے والے ایک مترجم کو ڈھونڈا اور ان کو لے کر بلقیس ایدھی ہوم آئے۔ تو ہمیں خاتون نے بتایا کہ کیسے دو سال پہلے افغانستان سے اغوا کر کے پاکستان لایا گایا۔ طویل انٹرویو کے بعد ہمارے پاس کافی معلومات آ چکی تھیں۔‘
شاہد قیوم کے مطابق مرسل نامی اس خاتون کی عمر 25 سال کے قریب تھی اور ان کا کابل کے مضافات میں گھر تھا۔ وہ شادی شدہ تھیں اور ان کا شوہر اور ایک بیٹا افغانستان میں ہی تھے جب ان کو اغوا کیا گیا تو وہ پانچ مہینے کی حاملہ تھیں۔

مرسل سعیدی کیسے اغوا ہوئیں؟

اردو نیوز کو اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو اور مترجم کی زبانی اپنی کہانی سناتے ہوئے مرسل نے بتایا کہ ’دو سال قبل ایک خاتون نے مجھے نوکری کا جھانسہ دے کر اپنے گھر بلایا اور مجھے کوئی نشہ آور دوائی پانی میں پلائی جس سے بے ہوش ہو گئی۔ اس کے بعد مجھے پتا نہیں کیسے پاکستان پہنچی۔‘

مرسل کومل سعیدی کے شوہر اور بیٹے کی تصاویر۔ فائل فوٹو

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں پہنچ کر بھی مجھے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ مجھے کہاں لایا گیا ہے۔ میں جس گھر میں تھی وہاں بہت اندھیرا تھا اور میں اکیلی تھی میں اسی وقت اس گھر سے بھاگ نکلی۔ مجھے کچھ پتا نہیں تھا میں کہاں ہوں۔‘
اس گھر سے بھاگنے کے بعد مرسل گلیوں اور سڑکوں پر چلتی رہیں ’میں تین دن تک بھوکی پیاسی تھی اور مجھے لگ رہا تھا میں پاکستان میں ہوں۔ یہاں تک ایک رات پولیس کی گاڑی نے مجھے روکا  لیکن نہ انہیں میری کوئی بات سمجھ آ رہی تھی اور نہ مجھے ان کی کچھ سمجھ تھی۔ انہوں نے مجھے گاڑی میں بٹھایا اور یہاں بلقیس ایدھی ہوم لے آئے۔ میں تب سے ہی یہاں ہوں۔‘
پولیس نے مرسل کو لاہور کے علاقے شیرا کوٹ سے حفاظتی تحویل میں لیا پھر ٹاؤن شپ کے علاقے میں واقع بلقیس ایدھی ہوم منتقل۔ انہوں نے بتایا کہ ’مجھے نہیں پتا میں کب سے یہاں ہوں لیکن میں بہت تکلیف میں رہی اور ساری امیدیں دم توڑ چکی تھیں کہ اپنے خاندان سے کبھی نہیں مل سکوں گی۔‘

جب مُرسل سعیدی کے ساتھ تصاویر کا تبادلہ ہوا

ٹریفک وارڈن شاہد قیوم نے جب افغان ناظم الامور کو قذافی کی پارکنگ میں روکا تھا تو اس وقت وہاں ان کی ڈیوٹی نہیں تھی۔  وہ لاہور پولیس چیف مستنصر فیروز کے احکامات پر گمشدہ افراد اور بچوں کو اپنے پیاروں سے ملوانے کا ٹاسک بھی پورا کر رہے ہیں۔ افغان ناظم الامور سے بات کرنے کا طریقہ انہوں نے وہی کھڑے کھڑے نکالا اور پروٹوکول فراہم کرتے ہوئے ان سے بات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ مرسل کے خاندان کو ہر صورت ڈھونڈنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا میں خود سے تھوڑا گھبرایا ہوا تھا کہ کہیں گڑ بڑ نہ ہو جائے لیکن شکر ہے کہ میرا طریقہ کام کر گیا۔‘
ایشیا کپ کے لاہور میں ہونے والے تیسرے میچ میں جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تھا اس دوران شاہد قیوم کے موبائل فون پر ایک تصویر موصول ہوئی۔ یہ تصویر افغان ناظم الامور کے سٹاف کی طرف بھیجی گئی تھی اور کچھ بھی بتائے بغیر صرف یہ ہدایت کی گئی کہ اس تصویر کو اس خاتون کو دکھایا جائے۔

قذافی سٹیٹیم میں ایشیا کپ کا میچ افغان خاتون کو کابل میں اُن کے اہلخانہ سے ملانے کی وجہ بن گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

شاہد بتاتے ہیں کہ ’میں وہ تصویر لے کر فوری طور پر بلقیس ایدھی ہوم پہنچا اور وہ تصویر مرسل کو دکھائی۔ تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہو گئی یہ تصویر ان کے شوہر کامل سعیدی کی تھی۔‘
جب افغان ناظم الامور کو بتایا گیا کہ وہ اپنے شوہر کو پہچان چکی ہیں تو وہاں سے مزید خاندان کے تصاویر بھیجی گئیں۔ مرسل نے اپنے باپ، بیٹے اور بہن کو بھی پہچان لیا۔
اسی طرح مرسل کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بھیجی گئیں جو ان کے خاندان والوں نے پہچان لیں۔ یوں اس خاندان کا ملاپ ممکن ہوا۔ جمعہ آٹھ ستمبر کو مرسل کو اسلام آباد میں واقع افغان ناظم الامور کے دفتر میں پہنچایا جا رہا ہے۔ جہاں سے انہیں افغانستان بھیجنے کی تیاریاں پہلے سے ہی مکمل ہیں
مرسل نے اپنے بچے کو بلقیس ایدھی ہوم میں ہی جنم دیا اور اس کا نام موسٰی رکھا۔ اب وہ بیٹے کو سینے سے لگائے بلقیس ایدھی ہم کے برآمدے سے مسکراہٹ لیے گزر رہی ہیں۔ جیسے قدرت کی طرف سے لیا گیا امتحان پاس کر چکی ہیں۔

شیئر: