Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر صرف مشورہ دے سکتے ہیں یا پھر الیکشن کی حتمی تاریخ؟ خط کے بعد نئی بحث

اگست کے آخری ہفتے میں بھی صدر نے عام انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ تھا۔ (فوٹو: اے پی پی)
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بدھ کو چيف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھ کر عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 6 نومبر 2023 کی تاریخ تجویز کر دی ہے اور اس حوالے سے اعلی عدلیہ سے رائے لینے کا بھی کہا ہے۔
صدر کی جانب سے الیکشن کی تاریخ دینے کے بعد ملک کے سیاسی اور صحافتی یہ بحث ہورہی ہے کہ آیا صدر کو الیکشن کی حتمی تاریخ دینے کا اختیار ہے یا وہ صرف مشورہ دے سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر نے براہ راست تاریخ کا اعلان کرنے کے بجائے 6 نومبر کی تاریخ تجویز کرکے اور پھر اس حوالے سے اعلی عدلیہ سے رائے لینے کا کہہ کے ایک طرح سے گیند عدلیہ کے کورٹ میں بھی پھینک دی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین  نے صدر عارف علوی کے چیف الیکشن کمشنر کے نام اس تازہ خط کے سیاسی و آئینی اثرات سے متعلق سوال کے جواب میں اردو نیوز کو بتایا کہ ’صدر عارف علوی کے اس بیان کے بعد ایک نئی بحث ضرور شروع ہو گی کہ آیا وہ صرف مشورہ دے سکتے ہیں یا پھر الیکشن کی حتمی تاریخ بھی دے سکتے ہیں؟‘
زاہد حسین نے کہا کہ ’ابھی کچھ عرصہ قبل ایک ترمیم بھی ہوئی تھی جس میں انتخابات سے متعلق اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیے گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ صدر عارف علوی کے خط میں 90 دن میں الیکشن کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔‘’یہ ساری چیزیں ایک تسلسل میں ہو رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دو ماہ میں الیکشن کرانا ممکن نہیں ہے۔‘
فروری 2024 میں الیکشن ہونے یا نہ ہونے سے متعلق سوال پر  زاہد حسین نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے اقدامات کی جانب  دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ الیکشن ہوں گے لیکن دوسری طرف جو معاملات چل رہے ہیں، انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ کہتے کہ شاید نگراں سیٹ اَپ ذرا طویل چلے گا۔ ابھی منظر بہت واضح نہیں ہے۔‘

’صدر نے اپنی آئینی ذمہ داری نبھائی‘

صدر کے چیف الیکشن کمشنر کے نام خط کے حوالے سے سیاسی امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس کا موقف قدرے مختلف ہے۔

زاہد حسین نے کہا کہ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک ترمیم بھی ہوئی تھی جس میں انتخابات سے متعلق اختیارات الیکشن کمیشن کو دے دیے گئے تھے۔ (فوٹو:ٹوئٹر)

رسول بخش رئیس نے اردو نیوز کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی آئینی ذمہ داری ہے۔ صدر نے وہی ذمہ داری پوری کی ہے۔ اب دیکھنا ہے بار بار آئین توڑنے والے اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔‘
ماضی قریب میں الیکشن کمیشن کے اختیارات سے متعلق قانون میں ہوئی ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں وہ ترمیم قانون میں ہوئی تھی۔ اگر قانون میں کوئی ایسی ترمیم ہو جائے تو جو آئین کے متصادم ہو تو ترجیح ہمیشہ آئین ہی کو ہوتی ہے۔ آئین یہی کہتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90 دن میں الیکشن ہوں۔‘
’اس وقت ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے۔ اگر ان کی نیت 90 دن میں الیکشن کرانے کی ہوتی تو یہ ضرور اس کی تیاری مکمل رکھتے۔‘
نگراں حکومت کے حوالے سے رسول بخش ریئس کا کہنا تھا کہ ’جس طرح کے حالات چل رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے پیچھے کسی اور کی طاقت ہے۔ وہ کسی آئین یا قانون کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں۔ وہ وہی کر رہے ہیں جو ان کا ایجنڈا ہے۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل اگست کے آخری ہفتے میں بھی صدر نے عام انتخابات کی تاریخ دینے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ تھا اور انھیں ملاقات کی دعوت دی تھی جس میں ملک میں عام انتخابات کے لیے تاریخ کے اعلان کے لیے مشاورت کا کہا گیا تھا۔
صدر کے خط کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر جوابی خط میں کہا تھا کہ قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے 9 اگست کو تحلیل کی تھی۔
’اب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کردی گئی ہے، اس ترمیم سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کے لیے کمیشن سے مشاورت کرتا تھا، اب سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار ہے۔‘

شیئر: