Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرم ضلع میں قبائلی علاقوں کی تاریخ کی پہلی خاتون ایس ایچ او تعینات

ثمرین عامر کو ویمن پولیس رپورٹنگ سنٹر کرم میں بطور ایڈیشنل ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے۔ (فوٹو: کے پی پولیس)
ثمرین عامر کے دفتر کے باہر خواتین کی ایک بڑی تعداد جمع ہے جنہیں گھریلو تشدد، وراثت میں حصہ نہ ملنے کے علاوہ اور بہت سی ایسی شکایات ہیں جن کے اندراج کے لیے وہ کسی مرد پولیس افسر سے بات نہیں کر سکتیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے قبائلی روایات سے بغاوت کرنا آسان نہیں۔
ضلع کرم تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے جس نے خواتین کے حوصلے بھی پست کیے ہیں۔
ثمرین عامر قبائلی اضلاع کی پہلی خاتون اور مسیحی ایس ایچ او ہیں۔ یہ ایک ایسا عہدہ ہے جو عموماً مردوں سے مخصوص ہو چکا ہے۔ ثمرین عامر کی تعیناتی نے اس روایت کو بھی توڑا ہے۔
ثمرین عامر اب قبائلی ضلع کی خواتین کی شکایات کے حل کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتی ہیں۔ وہ خواتین کی شکایات سنتی ہیں اور ان پر فوری کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
وہ اپنے جواں جذبوں کے ساتھ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے سرگرم ہیں اور بے خوف ہو کر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اب اور بہت سی خواتین بھی پولیس سروس جوائن کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروا رہی ہیں اور ان سب کی رول ماڈل ثمرین عامر ہی ہیں، جنہیں ضلع کرم کے وومن پولیس رپورٹنگ سنٹر میں ایڈیشنل ایس ایچ او کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
 ثمرین عامر کا تعلق پارہ چنار سے ہے جو 13 سال قبل سنہ 2010 میں کرم ایجنسی کی قبائل فورس میں بطور سرچر بھرتی ہوئی تھیں مگر فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں انضمام اور کرم ایجنسی کے الگ ضلع بننے کے بعد وہ خیبرپختونخواہ پولیس کا حصہ بن گئیں۔ 
ثمرین عامر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ میں مظلوم خواتین کا مضبوط سہارا بننے کی کوشش کروں گی۔‘
 انہوں نے مزید بتایا، ’میری تعیناتی پر ضلع بھر کی خواتین بہت خوش ہیں اور ان میں بھی آگے بڑھنے کا ولولہ پیدا ہوا ہے۔‘ 
خاتون ایڈیشنل ایس ایچ او کے مطابق متاثرہ خواتین اپنے گھریلو مسائل لیکر میرے پاس آرہی ہیں ، چار دنوں میں 3 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ان سب کا تعلق گھریلو تشدد سے ہے۔ 

ثمرین عامر کا تعلق پاڑہ چنار سے ہے جو 13 سال قبل 2010 میں کرم ایجنسی کی قبائل فورس میں بطور سرچر بھرتی ہوئی تھی۔ (فوٹو: کے پی پولیس)

ثمرین عامر نے کہا کہ ’قبائل کی خواتین مرد پولیس افسروں کے سامنے بولنے سے کتراتی ہیں مگر میری تعیناتی سے ان کو ایک سہارا مل گیا ہے اور وہ کھل کر مجھے اپنی مشکلات بتا سکتی ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا، ’وہ وقت گزر گیا جب خواتین چپ چاپ ظلم سہہ لیتی تھیں مگر اب یہ ہونا ممکن نہیں۔‘ 
ڈسٹرکٹ پولیس افسر کرم عمران مرزا نے کہا، ’اس ضلع میں خواتین سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں مگر ان کی دادرسی کرنے والا کوئی نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مقامی خواتین کو گھریلو تشدد اور وراثت کے معاملات میں بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے، وہ مگر معاشرتی دبائو اور پدری نظام کی وجہ سے پولیس سٹیشن کا رُخ کرنے سے کتراتی ہیں یا کھل کر اپنے مسائل بیان نہیں کر پاتیں۔‘
ڈی پی او کرم کے مطابق خواتین کے مسائل میں مرد پولیس اس طرح تفتیش نہیں کرسکتے جس طرح ایک خاتون پولیس افسر کر سکتی ہے۔
 ان کا کہنا تھا کہ ’ثمرین عامر کی تعیناتی کا ایک مقصد خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ وہ آگے بڑھیں۔ مجھے امید ہے کہ ثمرین کو دیکھ کر مزید خواتین بھی پولیس سروس جوائن کریں گی۔‘
ڈی پی او محمد عمران مرزا نے مزید کہا کہ ’ثمرین عامر مسیحی برادری سے تعلق رکھتی ہیں جس سے دنیا میں برابری کا پیغام جاتا ہے۔‘  
فاٹا کے انضمام سے قبل کرم ایجنسی کی لیویز فورس میں 12 خواتین ملازمت کر رہی تھیں۔حکومت کی جانب سے کے پی پولیس میں مزید بھرتیوں کا اعلان کیا جا چکا ہے جس کے لئے خواتین کی ایک بڑی تعداد نے درخواستیں جمع کروائی ہیں۔

شیئر: