ثمرین عامر کے دفتر کے باہر خواتین کی ایک بڑی تعداد جمع ہے جنہیں گھریلو تشدد، وراثت میں حصہ نہ ملنے کے علاوہ اور بہت سی ایسی شکایات ہیں جن کے اندراج کے لیے وہ کسی مرد پولیس افسر سے بات نہیں کر سکتیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے لیے قبائلی روایات سے بغاوت کرنا آسان نہیں۔
ضلع کرم تشدد سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے جس نے خواتین کے حوصلے بھی پست کیے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پشاور میں چوری کے مال میں حصہ نہ ملنے پر جھگڑا، دو نوجوان قتلNode ID: 795411
ثمرین عامر قبائلی اضلاع کی پہلی خاتون اور مسیحی ایس ایچ او ہیں۔ یہ ایک ایسا عہدہ ہے جو عموماً مردوں سے مخصوص ہو چکا ہے۔ ثمرین عامر کی تعیناتی نے اس روایت کو بھی توڑا ہے۔
ثمرین عامر اب قبائلی ضلع کی خواتین کی شکایات کے حل کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتی ہیں۔ وہ خواتین کی شکایات سنتی ہیں اور ان پر فوری کارروائی بھی کی جاتی ہے۔
وہ اپنے جواں جذبوں کے ساتھ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے سرگرم ہیں اور بے خوف ہو کر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور اب اور بہت سی خواتین بھی پولیس سروس جوائن کرنے کے لیے درخواستیں جمع کروا رہی ہیں اور ان سب کی رول ماڈل ثمرین عامر ہی ہیں، جنہیں ضلع کرم کے وومن پولیس رپورٹنگ سنٹر میں ایڈیشنل ایس ایچ او کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ثمرین عامر کا تعلق پارہ چنار سے ہے جو 13 سال قبل سنہ 2010 میں کرم ایجنسی کی قبائل فورس میں بطور سرچر بھرتی ہوئی تھیں مگر فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخواہ میں انضمام اور کرم ایجنسی کے الگ ضلع بننے کے بعد وہ خیبرپختونخواہ پولیس کا حصہ بن گئیں۔
ثمرین عامر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مجھے ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ میں مظلوم خواتین کا مضبوط سہارا بننے کی کوشش کروں گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا، ’میری تعیناتی پر ضلع بھر کی خواتین بہت خوش ہیں اور ان میں بھی آگے بڑھنے کا ولولہ پیدا ہوا ہے۔‘
خاتون ایڈیشنل ایس ایچ او کے مطابق متاثرہ خواتین اپنے گھریلو مسائل لیکر میرے پاس آرہی ہیں ، چار دنوں میں 3 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ان سب کا تعلق گھریلو تشدد سے ہے۔
