سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی، ’امید ہے پاکستان کو وعدوں کے مطابق فنڈز جلد ملیں گے‘
پچھلے برس آنے والے سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا (فوٹو: یونیسف)
پاکستان کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا ہے کہ امید ہے کہ پاکستان کو پچھلے برس سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کی تعمیر نو کے لیے فنڈز جلد ادا کر دیے جائیں گے۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا بری طرح شکار ہوئے ہیں اور اس سے پاکستان میں براہ راست ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانی سے متاثر تھا اور اس کے نتیجے میں 30 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔‘
پچھلے سال پاکستان کو خوفناک سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا جو 2020 کے بعد سے ایشیا میں آنے والا بدترین سیلاب تھا۔
اس سیلاب کے تقریباً ایک ماہ بعد مصر میں ہونے والے اقوام متحدہ کی کلائمیٹ چینج کانفرنس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے والے ممالک کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے جس سے ان کا نقصان پورا کیا جائے گا۔
اس موقع پر بہت سے ممالک نے پاکستان کے ان علاقوں کی بحالی کے لیے مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا جو سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے چار ارب ڈالر سے زائد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جبکہ ورلڈ بینک نے دو ارب اور سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔
نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک بین الاقوامی برداری کی جانب سے بہت کم فنڈز کی ادائیگی ہوئی ہے اور بحالی کے حوالے سے ہونے والا پاکستان اپنے وسائل سے کر رہا ہے۔‘
’ہمارے بینک ان لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کر رہے ہیں جو سیلاب سے متاثر ہوئے تھے تاہم بینکنگ انڈسٹری بھی کسی حد تک ہی مدد کر سکتی ہے۔‘
نگراں وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ وہ صورت حال ہے جس کا ہمیں سامنا ہے تاہم ہم پرامید ہیں کہ بڑے ممالک اور ڈونرز کی جانب سے فنڈز کی ادائیگی کے وعدے جلد پورے ہو جائیں گے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان ٹی ٹی پی (پاکستان تحریک طالبان) سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو افغانستان کی سرحد کے قریب سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور پاکستان دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہوئے عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
’ساتھ ہی ہم یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ افغانستان ان گروہوں کے خلاف ایکشن لے گا جو وہاں کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔‘
آنے والے انتخابات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک جمہوری ملک ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں جب پارلیمنٹ اپنا وقت پورا کر لیتی ہے اس کے بعد آئین کے مطابق نگراں حکومت وجود میں آتی ہے جس نے شفاف انتخابات کرانا ہوتے ہیں۔