Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیو آنند کا لاہور سے رومانس: ’سرحد کہاں ہے؟ دشمنی کہاں ہے؟‘

دیو آنند نے کہا کہ ’مدھو بالا فلموں کی سحرانگیز دنیا کی سب سے خوبصورت ہیروئنز میں سے ایک تھیں۔‘ (فوٹو: کوئی موئی)
یہ سنہ 1958 کا قصہ ہے جب دیو آنند بالی وڈ کے بڑے پردے پر ایک اداکار کے طور پر اپنی منفرد پہچان بنا چکے تھے۔ انہوں نے اسی دور میں مدھو بالا کے ساتھ ایک فلم ’کالا پانی‘ میں کام کیا جو اس سال کی دس کامیاب ترین فلموں میں سے ایک تھی۔
دیوآنند فلم کے سیٹ پر مدھوبالا کے دیوانے ہو گئے جس کا ذکر انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح عمری ’رومانسنگ ود لائف‘ میں بھی کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ ’مجھے کالا پانی اگر یاد ہے تو اس کی بڑی وجہ فلم کی ہیروئن مدھو بالا ہیں،  وہ فلموں کی سحرانگیز دنیا کی سب سے خوبصورت ہیروئنز میں سے ایک تھیں۔ وہ اپنے فطری حسن کے ساتھ ہمیشہ صبح کی شبنم کے قطروں کی طرح تازہ دم دکھائی دیتیں۔ وہ خود پر مصنوعی گلیمر طاری کرنے کے لیے بھاری میک اَپ، پلکوں کو خوبصورت بنانے، کنٹیکٹ لینزز یا ڈیزائنرز کے تیار کردہ چھوٹے ملبوسات زیبِ تن نہیں کیا کرتی تھیں جس کے باعث مردوں میں ان کی کشش میں اضافہ ہوتا۔ بچوں کی سی معصومیت اور ان کا مشہورِ زمانہ ہنسنے کا انداز ان کی شخصیت کے اہم ترین پہلوؤں میں شامل تھے۔ میں جب بھی ان کے بارے میں سوچتا تو اپنے میک اَپ روم کے باہر ان کی ہنسی کی کھنک سنتا جس کے بعد دروازے پر دستک ہوتی جو ان کے آنے کا پتہ دیتی۔ اچھا تو آپ آ چکی ہیں، زبردست، میں ان کو خوش آمدید کہتا۔‘
’اور وہ اپنی ’ہاں‘ کے ساتھ ہنس دیتیں۔ وہ ہمیشہ ہی دھیرے دھیرے ہنستی رہتیں۔ کوئی بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اب کب مسکرائیں گی؟ ان کے چہرے پر ہمہ وقت ہنسی رہتی اور وہ جب ہنسنے لگتیں تو یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا کہ ان کے چہرے کی یہ مسکان اب کب ختم ہو گی۔‘
دیو آنند لکھتے ہیں کہ ’بسا اوقات تو یہ بھی ہوا کہ انہوں نے ٹیک کے دوران کیمرے کے سامنے شوٹنگ کرتے ہوئے ہی ہنسنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں بتیاں غیرمعینہ وقت کے لیے بند کر دی جاتیں اور چائے کا آرڈر دیا جاتا، تاوقیتکہ کہ وہ اپنی اس ہنسی پر قابو نہ پالیتیں اور دوبارہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہ ہو جاتیں۔ زیادہ ہنسنے والے لوگ عموماً اپنے اردگرد کی دنیا پر ہنس رہے ہوتے ہیں اور مدھو بالا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا جو یہ نہیں جانتی تھیں  کہ ان کے دل پر کتنے زخم تھے اور وہ جلد ہی وفات پا گئیں۔‘
دیو آنند اپنے معاصر اداکاروں راج کپور اور دلیپ کمار کی نسبت خواتین کے معاملے میں زیادہ مقبول رہے۔ وہ دل پھینک طبیعت کے مالک تھے اور ان کے افیئرز کے بھی بہت چرچے رہے۔
دیو آنند کی پہلی محبت بھی کسی فلمی سکرپٹ سے کم نہ تھی، اس میں محبت تھی، رومان تھا، نفرت تھی اور ایک دُکھی کر دینے والا اختتام تھا۔
یہ سنہ 1940 کے اواخر کی بات ہے جب ابھرتے ہوئے فلم سٹار دیوآنند کی ثریا سے ملاقات ہوئی جو پہلے ہی ایک گلوکارہ اور اداکارہ کے طور پر شہرت حاصل کر چکی تھیں۔ فلمی دنیا میں نووارد دیو آنند ثریا کی خوبصورتی، ان کی شخصیت میں پنہاں سحر اور ان کی سادہ طبیعت کے باعث ان کی جانب متوجہ ہونے لگے تھے اور انہوں نے جب پہلی فلم ’ودیا‘ کی تو دیو جی ان کی محبت میں گرفتار ہو چکے تھے۔
دیو آنند اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’میں اور ثریا دونوں اس وقت محبت کے جذبے میں ڈوب گئے جب ہم نے پہلی فلم میں ایک ساتھ کام کیا۔ وہ ایک بہت ہی معصوم لڑکی تھی جو گرمجوشی اور اپنائیت کے ساتھ پیش آتیں۔ وہ اس وقت تک ایک مقبول اداکارہ اور گلوکارہ کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی تھیں۔ان میں ایک کشش تھی اور میں ان کے پیار میں بری طرح ڈوب چکا تھا۔ میں نوجوان تھا، یہ میری پہلی محبت تھی اور میں شدت سے ثریا کو چاہنے لگا تھا۔‘
ان کا یہ تعلق دو سال تک دنیا سے پوشیدہ رہا اور سنہ 1950 میں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران منظر عام پر آیا جس کے باعث ان کا رشتہ آگے بڑھنا مشکل ہو گیا۔
دیوآنند اور ثریا دونوں ہی شادی کر کے ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتے تھے مگر ثریا کے گھر والوں کو یہ منظور نہ تھا۔

دیوآنند اور ثریا دونوں ہی شادی کر کے ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا چاہتے تھے مگر ثریا کے گھر والوں کو یہ منظور نہ تھا (فوٹو: بھارت ایکسپریس)

ثریا اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’میرے دادا دادی ہم دونوں کو الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دیوآنند کو گہرا صدمہ لگا اور وہ میرے ہمت نہ کرنے پر نالاں بھی تھے، لیکن میں ان کے لیے خوفزدہ تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اگر زیادہ بہادری سے حالات کا سامنا کرتی تو کسی نہ کسی حد تک کامیاب ضرور ہوجاتی۔ لیکن میں اپنی دادی سے ڈری ہوئی تھی۔ اور میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔‘
دیو آنند نے ایک بار کہا تھا کہ ’ثریا کی ماں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور حوصلہ افزائی کی مگر اس کی دادی مجھ سے نفرت کرتی تھیں۔‘
دیوآنند اور ثریا کے راستے تو جدا ہو گئے، وہ مگر کبھی ایک دوسرے کو بھلا نہ سکے۔
دیوآنند اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئے اور انہوں نے اداکارہ کلپنا کارتک سے شادی کر لی۔ ثریا نے کچھ ہی برسوں بعد کیریئر چھوڑ دیا جب کہ ساری زندگی شادی نہیں کی۔
ثریا کی جنم بھومی بھی لاہور ہی تھی یوں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ دیو جی کی زندگی میں لاہور نے اہم کردار ادا کیا۔
باعث دلچسپ اَمر یہ ہے کہ دیو آنند کا لاہور سے ایک اور تعلق بھی تھا کیوں کہ ان کی اہلیہ کلپنا کارتک کا تعلق اگرچہ امرتسر کے ایک مسیحی خاندان سے تھا مگر ان کے بہت سے رشتے دار لاہور میں رہتے تھے۔
دیو جی کا ایک اور اعزاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ہم عصروں کی نسبت زیادہ طویل کیریئر گزارا۔ ان کی اس رنگین زندگی کے باوجود ان کی شخصیت میں پنہاں پنجابی اور لاہور نہیں نکل سکا۔

لاہور سے دیو آنند کے رومان کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آئے اور انہوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا (فوٹو: اکیڈمیا)

وہ ایک صدی قبل 26 ستمبر کو لاہور سے پچاس میل کے لگ بھگ فاصلے پر ضلع گرداس پور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک کامیاب وکیل تھے چناںچہ ان کی پرورش بھی گرداس پور میں ہی ہوئی۔
لاہور سے ان کے رومان کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آئے اور انہوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ لاہور میں قیام نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
ان کی خودنوشت سوانح عمری سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ دیو آنند نے پہلی اور خاموش محبت لاہور میں اپنی ہم جماعت اُشا چوپڑہ سے کی۔ وہ اگرچہ چند برس ہی لاہور میں رہے مگر ان کی سانسوں کی مہک اب بھی اس شہرِ بے مثل میں محسوس کی جا سکتی ہے۔
وہ سنہ 1943 میں لاہور سے ممبئی چلے گئے کیوںکہ ان کے بڑے بھائی معروف ہدایت کار، پروڈیوسر اور سکرین پلے رائٹر چیتن آنند پہلے ہی ممبئی جا چکے تھے جن کی فلم ’نیچا نگر‘ نے بالی ووڈ کی عالمی سطح پر پہچان کروائی  جب کہ کلاسیکی اداکارہ کامنی کوشل نے اسی فلم سے اپنا ڈبیو کیا تھا۔
نیچا نگر‘ کو کینز فلم فیسٹیول میں گرینڈ پرکس پرائز سے نوازا گیا اور بعدازاں 1949 میں دونوں بھائیوں نے نیوکیتن فلمز کے نام سے ادارہ قائم کیا جس نے بہت سی یادگار فلمیں پروڈیوس کیں جن میں گائیڈ، جیول تھیف اور جانی میرا نام نمایاں ہیں۔
فلم ’گائیڈ‘ بلاک بسٹر ثابت ہوئی جسے کلٹ فلم کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک فلم ہی دیو آنند کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ ان کی دیگر نمایاں فلموں میں ضدی، بازی، جال، آرام، نرالہ، سزا اور ٹیکسی ڈرائیور سمیت بہت سی فلمیں ہیں جو سنہ 1965 سے قبل لاہور کے سینماؤں میں ریلیز بھی ہوئیں اور کامیاب بھی رہیں۔
یہ دیو آنند کی فلم ’جال‘ ہی تھی جس کی ریلیز کے خلاف پاکستان کے فلمی حلقوں نے احتجاج کیا جن کے خیال میں بالی وڈ کی فلموں کی ریلیز کے باعث لالی وڈ فلمیں باکس آفس پر ناکام ہو رہی تھیں۔ بالی وڈ کی فلموں پر پابندی سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں چربہ سازی کا رجحان بڑھا اور بالی وڈ کی فلموں کی ہوبہو نقل تیار کی جانے لگی جس کے باعث آنے والے برسوں میں پاکستانی فلم انڈسٹری بدترین زوال کا شکار ہو گئی۔
دیو آنند کی آخری فلم ’چارج شیٹ‘ تھی جس کی ہدایات بھی انہوں نے خود دی تھیں اور اداکاری بھی کی تھی۔ انہوں نے یوں چھ دھائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط اطویل کیریئر گزارا جو غالباً ایک ریکارڈ ہے کیوںکہ ان کے ہم عصروں میں سے کسی کا کیریئر بھی اس قدر طویل نہ تھا۔

دیو آنند اٹل بہاری واجپائی کی خصوصی دعوت پر ان کے ساتھ لاہور آئے تھے (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب ’تقسیم سے قبل کے پنجاب کی انڈین سنیما کے لیے خدمات‘ میں شامل دیو آنند پر لکھے گئے اپنے مضمون میں وہ اپنے بڑے بھائی مشتاق کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  ’ہم جب کوئی ٹریجیڈی دیکھنے کا ارادہ کرتے تو دلیپ کمار کی فلم دیکھتے، جب رومانوی اور سماجی پیغام کی حامل فلم دیکھنے کا ارادہ ہوتا تو راج کپور کی فلم دیکھتے، لیکن ہم جب کوئی ایسی فلم دیکھنا چاہتے جس میں کچھ نیا پن ہو، یا وہ رومان سے بھرپور ہو اور اس میں نوجوانی کا کرزمہ بھی ہو تو ہم دیو آنند کے جادو سے لطف اندوز ہوتے۔‘
یہ سنہ 1999 کی بات ہے جب دیو آنند اس وقت انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ دوستی بس پر55  برس بعد انڈیا سے لاہور آئے تو انہوں نے اس کا ذکر اپنی خودنوشت  سوانح عمری میں بھی کیا۔
 وہ لکھتے ہیں کہ ’میں لاہور میں بیتے گزرے برسوں کی سیاحت کر رہا تھا۔ میں نے اپنے کالج فیلوز اور دوستوں سے ملاقات کی۔ میں نے حمیداللہ خان برکی سے ملاقات کی، جو کالج میں ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے۔ میں نے اُشا چوپڑہ کو کتابیں ہاتھ میں لیے کالج کی پہلی منزل کے کاریڈور میں اپنے پاس سے گزرتے دیکھا، اس نے ساڑھی زیبِ تن کر رکھی تھی جس سے اس کے حسن کو چار چاند لگ گئے تھے اور وہ ہمیشہ کی طرح معصوم دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے شرماتے ہوئے اسے ہیلو کہا جس پر وہ خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی۔ لیکن وہ یہاں پر نہیں تھی۔ اور اس کے باوجود مجھے اس کی اونچے ہیلوں والی جوتی کی آواز سنائی دے رہی تھی جس کی گونج پورے کاریڈور میں سنائی دے رہی تھی۔‘
وہ اٹل بہاری واجپائی کی خصوصی دعوت پر ان کے ساتھ لاہور آئے تھے۔ اس بس میں ہی مصور ستیش گجرال، شاعر جاوید اختر، صحافی کلدیپ نائر، کرکٹر کپل دیو، اداکار شتروگن سنہا کے علاوہ اور بہت سی شخصیات بھی پاکستان  لاہور آئیں۔
وہ جب اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ کالج لاہور گئے تو ان کا ایک ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ کالج کا تمام عملہ اور طالب علم ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے جمع تھے۔
دیو آنند نے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’سرحد کہاں پر ہے؟ دشمنی کہاں ہے؟‘ اور مجمع بے قابو ہو کر چلانے لگا، ’ہم آپ سے محبت کرتے ہیں دیو صاحب۔‘
دیو آنند کی خودنوشت سوانح عمری کے مطابق، دیوآنند کاروباری رموز سے واقفیت رکھتے تھے۔ وہ تعلقات بنانے اور اپنے چاہنے والوں کے علاوہ معروف شخصیت کے طور پر اپنی اس طاقت کو ضرورت کے وقت استعمال کرنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

دیو آنند کی موت کی خبر ان کے فلم بینوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

ان کی خودنوشت سوانح عمری میں یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ ’انہوں نے ایک بار اپنی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش بھی کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔‘
یہ انکشاف بھی دلچسپ ہے کہ ’دیوآنند نے فلم انڈسٹری میں آنے سے قبل ملٹری سنسر آفیسر کے طور پر بھی کام کیا۔ اور ان کی ذمہ داری فوجی افسروں کی جانب سے لکھے جانے والے خطوط پڑھنا تھا۔‘
یہ ممکن ہے کہ ان کے ذہن میں جو بہت سے رومانی خیالات تھے، وہ انہی خطوط سے ان کی شخصیت کا حصہ بنے ہوں جو فوجی افسر اپنی بیویوں اور محبوباؤں کو لکھا کرتے تھے۔  
دیو جی کی اداکاری کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا جو ان کے ہم عصروں سے مختلف ہونے کے علاوہ منفرد بھی تھا۔ ان کا یہ بے ساختہ پن ہی ان کی کامیابی کی وجہ ٹھہرا۔
دیو آنند نے صرف فلموں میں کام ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک مصنف، ہدایت کار اور پروڈیوسر کے طور پر بھی ایک منفرد مقام حاصل کیا۔
دیوآنند کی فلموں پر بات کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے جو کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ انہوں نے 100 سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور ان کا شمار انڈیا کے عظیم اور کامیاب ترین اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔
دیو آنند نے اپنے فلمی کیریئر میں چار فلم فیئر ایوارڈز جیتے جن میں سے دو بہترین اداکار کی کیٹیگری میں دیے گئے۔ انڈیا نے 2001 میں ان کو پدما بھوشن کے ایوارڈ سے نوازا  جب کہ اگلے ہی برس ان کو انڈین سینما کا سب سے بڑا اعزاز پھالکے صاحب ایوارڈ دیا گیا اور یہ بھی یاد رہے کہ وہ تین دہائیوں تک انڈیا کے سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکاروں کی فہرست میں شامل رہے تھے۔
یہ دسمبر کی ایک سرد شام تھی۔ دیو آنند لندن کے دی واشنگٹن مے فیئر ہسپتال میں زیرِعلاج تھے کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا اور یہ عظیم فنکار 88 برس کی عمر میں چل بسا۔ ان کی موت سے دو ماہ قبل ہی ان کی فلم چارج شیٹ ریلیز ہوئی تھی۔
دیو آنند کی موت کی خبر ان کے فلم بینوں کے لیے کسی صدمے سے کم نہ تھی جو آج ان کی پیدائش کی صد سالہ تقریبات منا رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے فنکار تھے جن کی وفات کے بعد بھی ان کے چاہنے والوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی ان کی فلمیں ذوق وشوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ دیوآنند کی موت سے ایک عہد کا اختتام ضرور ہوا مگر ان کا فن ہمیشہ زندہ رہے گا۔

شیئر: