Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلامتی کونسل سے افغان خواتین پر جبر کو ’صنفی تعصب‘ قرار دینے کا مطالبہ

یو این ویمن نے افغانستان میں خواتین کے ساتھ جاری سلوک کو ’ایپرتھائیڈ‘ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: اے پی
اقوام متحدہ کی سب سے طاقتور باڈی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری شدید کریک ڈاؤن کو ’صنفی ایپرتھائیڈ‘ یعنی صنفی امتیاز قرار دیا جائے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق سے متعلق ادارے ’یو این ویمن‘ کی ڈائریکٹر سیما بحوث نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ طالبان کے پچاس سے زیادہ سنگین احکامات کو شدت سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ ان پر عمل درآمد کروانے والوں میں خاندان کے مرد ممبران بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان احکامات کے باعث خواتین میں ذہنی صحت کے مسائل اور خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے بالخصوص نوجوان خواتین میں اور اپنے گھروں میں بھی فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی شمولیت کم سے کم ہو رہی ہے۔ 
’خواتین ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ قیدی کی طرح ہیں جو اندھیرے میں رہ رہا ہو، اپنے گھروں تک محدود ہیں، نہ کوئی امید ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل۔‘
بین الاقوامی قوانین کے تحت ایپرتھائیڈ یعنی نسل پرستی کو قانونی طور پر نسلی علیحدگی کے نظام کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس کی ابتدا جنوبی افریقہ سے ہوئی تھی۔ لیکن بین الاقوامی ماہرین، حکام اور سماجی کارکنوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اتفاق رائے کے تحت ایپرتھائیڈ کا اطلاق افغانستان جیسے حالات پر بھی ہو سکتا ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کو منظم امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔
سیما بحوث نے 15 رکنی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس پر زور دیا کہ وہ ’جینڈر ایپرتھائیڈ‘ یعنی جنس کی بنیاد پر ہونے والے امتیازی سلوک کو بین الاقوامی قوانین کا حصہ بنانے کے لیے مکمل تعاون کریں۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال ایسا کوئی بین الاقوامی قانون موجود نہیں ہے جو ’بڑے پیمانے پر، ریاستی سرپرستی میں صنفی جبر‘ کا جواب دے۔
’طالبان کی جانب سے خواتین کے حقوق پر منظم اور منصوبہ بند حملوں کو ہمارے عالمی اصولوں میں کوئی نام  دینا چاہیے، ان کی تعریف بیان کریں تاکہ ہم ان کا مناسب جواب دے سکیں۔‘

شیئر: