Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیرملکی فنڈنگ کا الزام، انڈیا میں میڈیا کمپنی کے دفتر اور صحافیوں کے گھروں پر چھاپے

پولیس نے اس نیوز چینل کے ساتھ وابستہ صحافیوں کے گھروں میں بھی چھاپے مارے ہیں (فوٹو: سکرین گریب)
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی پولیس نے ایک خبر رساں ادارے کے دفتر اور اس سے وابستہ صحافیوں کے گھروں میں چھاپے مارے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کو دو حکومتی اہلکاروں کے حوالے سے بتایا کہ یہ کارروائی ’نیوز کلِک‘ نامی میڈیا چینل کو غیرملکی فنڈنگ ملنے کے الزامات کی تحقیقات کا حصہ ہے۔
سرکاری حکام اور کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لیے ’نیوز کلِک‘ نامی چینل سے دفتر سے لیپ ٹاپس اور موبائل فونز بھی تحویل میں لیے گئے ہیں۔
دوسری جانب این ڈی ٹی وی نے رپورٹ کیا ہے کہ ’نیوز کلک‘ کے بانی پیرابیر پرکایاستھا کو انسداد دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کے قوانین کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ نیوز پورٹل کے ہیومن ریسورس (ایچ آر) کے سربراہ امیت چکراورتی کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔
روئٹرز کو پولیس کے ان چھاپوں کی نگرانی کرنے والے وزارت داخلہ کے ایک آفیسر نے بتایا کہ ’ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ان افراد کی جانچ کے لیے یہ سرچ آپریشن کیا جو میڈیا گروپ چلانے کے لیے ممکنہ طور بیرون ملک سے فنڈنگ حاصل کر رہے ہیں اور ان کا بڑا مقصد غیرملکی ایجنڈے کو ترویج دینا ہے۔‘
ان کے مطابق ’انڈیا میں مالی جرائم کی تحقیقات کرنے والی ایجنسی نے ’نیوز کلک‘ پر منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے شبے میں چھاپہ مارا۔‘
وزارت داخلہ کے ایک اور عہدے دار نے بتایا کہ اس نیوز پورٹل سے وابستہ درجن بھر صحافیوں اور لکھاریوں کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔
روئٹرز سے گفتگو کرنے والے سرکاری حکام نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی جبکہ پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ’میں اس معاملے پر رائے دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔‘
نیوز پورٹل ’نیوز کلک‘ کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم میڈیا کمپنی کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ انڈیا اور دیگر ممالک میں ’ترقی پسند تحریکوں‘ سے متعلق رپورٹ کرتی ہے۔
حکام کے مطابق یہ تحقیقات اگست میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے بعد شروع ہوئیں جس میں ’نیوز کلک‘ کا نام لے کر کہا گیا تھا کہ یہ میڈیا چینل مبینہ طور پر چینی پروپیگنڈہ پر مبنی مواد شائع کرنے کے لیے امریکی کھرب پتی نویلے رائے سنگھم سے رقوم وصول کرنے والے ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔
اس رپورٹ کے بعد نیوز کلک کے بانی پرابیر پرکایاستھا نے کہا تھا کہ یہ الزامات نئے نہیں ہیں اور ادارہ ان کا جواب عدالت میں دے گا۔
پریس کلب آف انڈیا نے کہا ہے کہ انہیں پولیس کی اس چھاپہ مار کارروائی پر تشویش  ہے۔
اپوزیشن کی 28 جماعتوں کے اتحاد ’انڈیا‘ نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ نو برسوں میں حکومت نے تحقیقاتی ایجنسیوں کو استعمال کرتے ہوئے میڈیا کو دباؤ میں لانے کی اقدامات اٹھائے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد نے اپنے بیان میں کہا کہ ’وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے ’سخت اقدامات‘ ان صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے خلاف ہیں جو طاقت کے سامنے سچ بولتے ہیں۔‘
روئٹرز کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے ایک ترجمان نے کہا ہے ’بیرونی ممالک سے فنڈنگ لینے والے میڈیا ہاؤسز کے خلاف تحقیقات اور چھاپے مارنا درست اقدام ہے۔‘
ایک غیرسرکاری صحافتی تنظیم ’رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کی سالانہ رینکنگ کے مطابق صحافتی آزادیوں کے لحاظ سے انڈیا 161 ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس یہ سب سے کم یعنی 151 ویں نمبر پر تھا۔
نریندر مودی کی حکومت نے اس رینکنگ کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انڈیا میں صحافت متحرک اور آزاد ہے۔

شیئر: