امیتابھ جو اپنے مکالموں پر پورا اترتے ہیں، ’مرد کو درد نہیں ہوتا‘
امیتابھ جو اپنے مکالموں پر پورا اترتے ہیں، ’مرد کو درد نہیں ہوتا‘
بدھ 11 اکتوبر 2023 6:11
یوسف تہامی -دہلی
امیتابھ بچن نے خود کہا تھا کہ ’میری زندگی کو آپ لوگ کامیاب مت سمجھیے یہ بس کسی کہانی کی طرح چل رہی ہے۔‘(فوٹو: سکرین گریب)
بالی وڈ کے شہنشاہ امیتابھ بچن کی ایک فلم مرد کا مشہور ڈائیلاگ ہے ’مرد کو کبھی درد نہیں ہوتا‘ اور یہ بات ان کی زندگی پر بھی صادق نظر آتی ہے۔
اس کا اظہار ہمیں اداکارہ ریکھا کے ایک انٹرویو میں بھی ملتا ہے جب وہ سیمی گریوال سے ان کے معروف شو ’ریندیوو‘ میں کہتی ہیں کہ ان میں بلا کی قوت برداشت ہے۔
وہ ان دونوں کی فلم ’گنگا کی سوگندھ‘ میں ان کی چوٹ کے حوالے سے یہ بات کہتی ہیں کہ ’انہیں سخت چوٹ لگی تھی لیکن انہی کی فلم کا ڈائیلاگ ہے نا کہ ’جتنے اس پر ظلم بڑھے اتنی اس کی تپسیا بڑھی‘، وہ ان پر بالکل موزوں بیٹھتا ہے۔‘
یہ سب ایک طرف اورفلم ’قلی‘ میں چوٹ کھا کر موت کے منھ میں چلے جانے کے بعد پھر سے زندہ بچ جانے کی کہانی ایک طرف، جسے وہ اپنی دوسری زندگی سے تعبیر کرتے ہیں وہ بھی ان کی قوت برداشت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔
آج امیتابھ بچن کا 82واں جنم دن ہے یعنی وہ 11 اکتوبر 1942 کو دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم والے شہر الٰہ آباد میں ہندی کے ایک معروف شاعر ہری ونش رائے بچن کے گھر پیدا ہوئے تھے۔
امیتابھ کے حوالے سے یوں تو سینکڑوں کہانیاں اور افسانے موجود ہیں لیکن ان میں ایک خوبی ایسی ہے جو کسی دوسرے اداکار میں نظر نہیں آتی۔ اور وہ ان کا ڈسپلن اور کام سے ان کی لگن ہے۔
لیکن ریکھا کے مطابق تو ان میں ’اللہ میاں نے ساری خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھر دی ہیں۔‘
امیتابھ بچن نے گرکر سنبھلنے کا ہنر سیکھا ہے۔ انہوں نے دہلی کے کروڑی مل کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی لیکن اس دوران ان کی اداکاری میں بھی دلچسپی نظر آنے لگی اور انھوں نے وہاں تھیئٹر بھی کیا۔ جب ان کے چھوٹے بھائی اجیتابھ نے اداکاری میں ان کے شوق کو دیکھا تو انہوں نے امیتابھ بچن کی ایک تصویر ’فلم فیئر مادھوری ٹیلنٹ مقابلے‘ میں بھیج دی لیکن انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔
اس مقابلے کے فاتح کو اڑھائی ہزار نقد انعام کے ساتھ ہندی فلموں میں کام کرنے کا موقع دیا جانا تھا۔
اس برس یہ ایوارڈ خان برادران اداکار فیروز خان اور سنجے خان کے بھائی کو ملا لیکن اس سے قبل اداکار دھرمیندر اور راجیش کھنہ یہ ایوارڈ جیت کر فلم انڈسٹری میں اپنا نام اور مقام حاصل کر چکے تھے۔
اندین نیوز ایجنسی آئی اے این ایس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امیتابھ بچن نے خود کہا تھا ’میری زندگی کو آپ لوگ کامیاب مت سمجھیے یہ بس کسی کہانی کی طرح چل رہی ہے۔‘ اگر اس بات کو سچ مان لیں تو یہ کسی کامیاب فلم کی کہانی جیسی ہے۔
امیتابھ کو ابتدا میں پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آج جہاں ان کی آواز کو فلم انڈسٹری کی سب سے بلند بانگ آواز کہا جاتا ہے اور ان کی آواز کو بہت سارے اشتہارات اور فلموں میں لیا جاتا ہے وہی آواز کبھی نامناسب اور غیرموزوں قرار دی گئی تھی۔
انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں جب پریزنٹر کی جاب کے لیے درخواست دی تو آڈیشن میں ان کی آواز کو پسند نہیں کیا گیا اور انہیں مسترد کر دیا گیا۔
انڈیا ٹی وی کے انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کہ ’شاید میری آواز اس کام کے لیے موزوں نہیں تھی جس کی وہ تلاش کر رہے تھے۔ اس وقت بہت سے نامور براڈکاسٹر تھے اور یہ ٹھیک ہے کہ ایسے کام ان ہی لوگوں کو ملے جو اس کے اہل ہوں۔‘
یہی نہیں جب وہ ایک خط لے کر قسمت آزمانے ممبئی پہنچے تو اس وقت سنیل دت فلم ریشما اور شیرا بنا رہے تھے۔ وہ اس فلم میں کسی کردار کے لیے ان کے پاس پہنچے تو سنیل دت نے پتلے دبلے لمبے ترنگے شخص کو دیکھ کر پوچھا کہ آپ کی بے حد نمایاں خاصیت کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’میری آواز۔‘
بہرحال انہیں فلم میں چھوٹو کا کردار دیا گیا لیکن انہیں کوئی مکالمہ ہی نہیں دیا گیا یعنی انہیں ایک گونگے کا کردار دیا گیا تھا۔ یہ امیتابھ بچن کے لیے ان کی کسی تضحیک سے کم نہیں تھا لیکن انہوں نے دل پر اس کا ملال نہیں لیا اور اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
اداکار کے طور پر ممبئی میں اپنی جدوجہد کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک انٹرویو کے دوران بگ بی نے کہا تھا ’میں جہاں بھی جاتا تھا نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتا تھا۔ یا تو میں اس کا اہل نہیں تھا یا انتہائی شرمیلا ہونے کی وجہ سے انٹرویو کے دوران میری زبان بالکل بندھ سی جاتی تھی اور مجھ سے زیادہ اہل لوگ ان عہدوں کو حاصل کر لیتے تھے۔‘
بہرحال ان کی منفرد آواز نے ہی انہیں فلموں میں بریک دلوایا اور انہوں نے کہانی کو بیان کرنے والے کے طور پر مرنال سین کی نیشنل اوارڈ یافتہ فلم ’بھون شوم‘ سے اپنے کریئر کی ابتدا کی۔
اپنے فلمی کیریئر کے آغاز سے پہلے امیتابھ کلکتے میں بزنس ایگزیکیٹو کی حیثیت سے اچھی خاصی نوکری کر رہے تھے لیکن انہیں اداکاری کی دھن سوار تھی جو انہیں بمبئی لے آئی۔
جب ممبئی آئے تو اس وقت فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز اور ادیب خواجہ احمد عباس ’سات ہندوستانی‘ فلم کی تیاری کر رہے تھے۔ خواجہ احمد عباس کو شاید اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا خط موصول ہوا تھا جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ امیتابھ بچن کی ممکنہ مدد کی جائے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ اندرا گاندھی اور امیتابھ بچن کے خاندانی تعلقات تھے کیونکہ دونوں کے گھر کبھی الہ آباد میں ہوا کرتے تھے اور دونوں کے خاندان وہاں کے مشہور خاندان تھے۔
خواجہ احمد عباس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں سات مرکزی کرداروں میں سے ایک بہار کے ایک مسلم شاعر انور علی کا کردار امیتابھ بچن نے ادا کیا۔
اس کے بعد انہیں اس زمانے کے سپر سٹار راجیش کھنہ کے ساتھ ایک فلم ’آنند‘ ملی جس میں انہوں نے ایک ڈاکٹر کا کردار اور ایک دوست کا کردار ادا کیا ہے لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو جہاں لوگوں نے راجیش کھنہ کے یادگار کردار کو سراہا وہیں انہوں نے امیتابھ بچن کی اداکاری کو بھی سراہا اور انھیں بہترین معاون اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
یہاں سے امیتابھ بچن نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اگرچہ ہیرو کے طور پر انہیں بلاک بسٹر فلم ’زنجیر‘ سے پہلی کامیابی ملی۔ اس فلم کے بعد انہوں نے کئی ایسی فلمیں کی جس میں وہ جرم کی دنیا سے ٹکراتے نظر آئے اور انھی وجوہات سے ’اینگری ینگ مین‘ کا جو لقب ملا وہ اب ’اینگری اولڈ مین‘ تک جا پہنچا ہے۔
وہ ایک ایسے اداکار ہیں جن کے ڈسپلن کے بارے میں بہت سارے قصے مشہور ہیں۔ وہ وقت پر سیٹ میں پہنچنے کے لیے مشہور رہے ہیں اور ایسے کئی قصے ہیں جب انہیں ساتھی ادکاروں کے لیے گھنٹوں سیٹ پر انتظار کرنا پڑتا تھا۔
امیتابھ بچن سنہ 1970 کی دہائی میں راجیش کھنہ کی جگہ سپر سٹار ہو گئے اور اس دوران ان کی جو فلمیں آئیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی طور یادگار سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں فلم دیوار، شعلے، ملی، دو انجانے، تریشول، ڈان، مسٹر نٹور لال، کالا پتھر وغیرہ شامل ہیں۔
ان کا جادو اس طرح سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ مشہور فرانسیسی ڈائریکٹر نے انہیں ’ون مین انڈسٹری‘ کا لقب دے دیا تھا۔ لیکن اب تک کے سب سے بڑے اداکار مانے جانے والے دلیپ کمار نے اسی دوران اپنی دوسری اننگ شروع کر دی تھی۔ چنانچہ لوگوں میں یہ اشتیاق تھا کہ دونوں ایک ساتھ فلم میں ہوں گے تو کیا ہو گا۔
فلم ساز و ہدایت کار رمیش سپی نے لوگوں کی اس آرزو کو سنہ 1982 میں فلم ’شکتی‘ میں پورا کر دیا جس میں امیتابھ بچن نے ایک فرض شناس پولیس انسپیکٹر دلیپ کمار کے سامنے ایک ناراض بیٹے کا کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ اس فلم کے لیے بہترین اداکار کا ایوارڈ دلیپ کمار کو ملا اور ان کے دوست اور اداکار و ہدایت کار راج کپور نے انہیں دنیا کا بہترین اداکار قرار دیا لیکن ناقدین نے امیتابھ بچن کی اداکاری کو بھی بہت سراہا کیونکہ اس فلم کے لیے انہیں بھی بہترین اداکاری کے زمرے میں نامزد کیا گیا تھا۔
سنہ 1980 کی دہائی کے اختتام تک امیتابھ بچن کی کامیابی کا رنگ اترنے لگا اور ان کی فلمیں ناکام ہونے لگیں۔ فلموں میں ناکامی کے ساتھ انہیں بزنس میں بھی ناکامی ہاتھ لگی یہاں تک کہ وہ دیوالیہ ہو گئے اور فلم انڈسٹری میں دوسرے ستارے ابھرنے لگے جن میں شاہ رخ خان کا سورج سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔
لیکن امیتابھ اپنے کرداروں کی طرح اپنی راکھ سے زندہ ہونے کی صلاحیت کے حامل نے ہار نہیں مانی اور ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بار پھر لوگ اس وقت کے سٹار شاہ رخ خان کے ساتھ انہیں دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ سنہ 2000 فلم ’محبتیں‘ میں ان کی خواہش پوری ہو گئی جب دونوں اداکار آمنے سامنے تھے۔ اس فلم کے لیے امیتابھ بچن کو بہترین معاون اداکار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
آج 82 سال کی عمر میں جب ایک روزہ کرکٹ میچ کا ورلڈ کپ انڈیا میں ہو رہا ہے تو وہ لائیو میچ کے دوران فلپ کارٹ کی ’بگ بلین ڈیل‘ کا اشتہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔
آج ان کے پاس فلمیں ہیں اور درجنوں انڈورسمنٹ ہیں اور وہ اپنی آواز اور انداز سے لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں صدی کا بہترین اداکار کہا گیا تھا جس کی ضیا باریاں نئی صدی کے پہلے کوراٹر میں بھی جاری ہیں۔