’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘پروگرام جس نے تین نسلوں کو متاثر کیا
’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘پروگرام جس نے تین نسلوں کو متاثر کیا
ہفتہ 28 اکتوبر 2023 8:29
علی عباس۔ لاہور
نیلام گھر پاکستان ٹیلی ویژن کا سب سے زیادہ عرصے تک چلنے والا کوئز شو تھا۔ (فوٹو: پی ٹی وی)
’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام‘
یہ ایک جملہ نہیں تھا بلکہ اپنے عہد کے عظیم ترین میزبان، اداکار اور صداکار طارق عزیز کا اپنے ناظرین سے سلام کرنے کا ایک منفرد انداز تھا جو پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے طویل عرصے تک جاری رہنے والے شو ’نیلام گھر‘ کے شروع میں بولا جاتا تھا، یہ تین نسلوں کا پسندیدہ پروگرام رہا ہے۔
یہ جملہ طارق عزیز کے ذہن کی اختراع تھی جو بہت جلد خاص و عام میں مقبول ہو گیا۔
طارق عزیز نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ ’میں نیلام گھر کے ابتدائی دنوں میں سب میزبانوں کی طرح اسلام علیکم سے پروگرام کا آغاز کیا کرتا تھا۔ ایک روز مجھے ایک لڑکے کا خط ملا جس میں اس نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آپ مجھے تو سلام ہی نہیں کرتے۔ میں نے اس وقت یہ جملہ تخلیق کیا۔‘
پی ٹی وی کے سینیئر پروڈیوسر آغا قیصر عباس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیلام گھر پہلے پہل پی ٹی وی کے کراچی سٹیشن سے نشر ہونا شروع ہوا۔ پروگرام کے پوڈیوسر عارف رانا اور میزبان طارق عزیز نے نیلام گھر کے ابتدائی پروگرام کے لیے کراچی کے علاقے صدر کی مختلف دکانوں سے تحائف خریدے مگر جلد ہی پروگرام کو سپانسر شپ ملنا شروع ہو گئی۔‘
آغا قیصر عباس نے 2004 سے 18 مارچ 2019 تک 15 برس بزم طارق عزیز کے پروڈیوسر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں جب کووڈ 19 کی وجہ سے یہ پروگرام بند کر دیا گیا اور کچھ ہی عرصے بعد طارق عزیز وفات پا گئے۔ آغا قیصر عباس پہلے پی ٹی وی کے سینیئر پروڈیوسر سید زاہد عزیر کے ساتھ بزمِ طارق عزیز کا حصہ رہے اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اکیلے اس پروگرام کو پروڈیوس کرتے رہے۔
یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا سب سے زیادہ عرصے تک چلنے والا کوئز شو تھا جس کی نشریات کا آغاز نیلام گھر کے طور پر اکتوبر 1975 میں ہوا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب پروگرام کے میزبان طارق عزیز اور یہ شو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم ہو گئے۔ 2012 میں اس شو کی 300 اقساط مکمل ہوئیں۔
نیلام گھر کچھ وقفوں اور نام کی تبدیلیوں کے ساتھ تقریباً 35 برس تک نشر ہوتا رہا۔ یہ پاکستان ٹیلی ویژن کا ایسا پہلا شو تھا جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوا کرتی تھی اور اس کا ہر راؤنڈ سپانسرڈ ہوتا۔ اس پروگرام کے مختلف ادوار میں پروڈیوسرز رہنے والوں میں حفیظ طاہر، ایوب خاور، عارف رانا، سید زاہد عزیر، فرخ بشیر، آغا ذوالفقار فرخ اور آغا قیصر عباس شامل ہیں۔
نیلام گھر سے طارق عزیز شو اور پھر بزم طارق عزیز تک کے سفر میں قارئین کے لیے یقیناً دلچسپی کا پہلو موجود ہے۔ آغا قیصر عباس نے بتایا کہ ’نواز شریف وزیراعظم کے طور پر قوم سے خطاب کے لیے پی ٹی وی کے لاہور سٹیشن آئے تو انہوں نے نیلام گھر کا نام تبدیل کر کے طارق عزیز شو رکھنے کی ہدایت کی۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’نیلام گھر 11 سال کے تعطل کے بعد جب 18مارچ 2004 میں اس وقت کے وزیراعظم ظفراللہ جمالی کے کہنے پر دوبارہ شروع ہوا تو اس کے نام کے انتخاب میں کافی دن لگ گئے جس کے لیے مختلف شعرا کو بلایا گیا اور خالد احمد اور نجیب احمد کے تجویز کردہ نام ’بزم طارق عزیز‘ پر سب نے اتفاق کیا۔‘
نیلام گھر کے تین دہائیوں سے زیادہ کے سفر کے باعث یہ خیال کیا گیا کہ یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔
آغا قیصر عباس نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نیلام گھر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہو سکتا تھا اگر یہ طویل عرصے بند نہ رہتا۔ کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل ہو۔‘ انہوں نے مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ ’کچھ لوگ‘ کون تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نیلام گھر ایک ایسا شو تھا جس کے لیے مارکیٹنگ کرنے والوں کو زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی تھی اور مختلف ادارے پروگرام کو سپانسر کرنے کے لیے خود رابطہ کرتے تھے۔‘
آغا قیصر عباس کے مطابق ’یہ تاثر غلط ہے کہ بزم طارق عزیز کو سپانسر شپ ملنا کم ہو گئے تھے بلکہ ہمارے لیے سپانسرز کا انتخاب کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوا کرتا تھا اور بہت سے سپانسرز تو سفارش کروا کر آتے۔ ایک وقت تو ایسا بھی آیا جب ہمارے پاس بہت سے انعامات اور سپانسرز جمع ہو گئے جس کے باعث ہمیں بہت سوں کو انکار کرنا پڑا۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے ایک بار طارق عزیز صاحب سے کہا کہ ہم بھی دوسرے ٹیلی ویژن چینلوں کی طرح آڈینس کو موبائل فونز یا اس قسم کے انعامات دینا شروع کرتے ہیں تو انہوں نے کہا، میں ایسا نہیں کروں گا کیوں کہ میں اپنی قوم کو ایجوکیٹ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے ان کی تربیت کرنی ہے۔ میں ان کو مسخرہ نہیں بنانا چاہتا کہ میں ان سے یہ پوچھوں کہ آپ نے کون سے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور وہ اس کا جواب دیں تو میں ان سے کہوں کہ آپ موٹر سائیکل لے جائیں۔ لوگ ہنس کر دکھا دیں تو میں ان کو موبائل فون دے دوں۔ میں انعام اس کو دوں گا جو گھر میں جا کر کچھ پڑھے گا، سوالوں کے جواب یاد کرے گا تاکہ اس میں مطالعہ کی عادت پیدا ہو۔‘
بزم طارق عزیز کے بہت سے راؤنڈز ہوتے تھے جن میں بیت بازی کے مقابلوں کو سب سے زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔ ایک اور راؤنڈ میں شادی شدہ جوڑوں سے ایک دوسرے کے متعلق سوال پوچھے جاتے تھے۔ نوبیاہتا جوڑوں کے راؤنڈ میں بھی لوگوں کی بہت زیادہ دلچسپی ہوتی۔
آغا قیصر عباس نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم لوگ نئے شادی شدہ جوڑوں کو تحفے میں واشنگ مشین دیا کرتے تھے جو اس نوبیاہتا جوڑے کو ہماری طرف سے ایک طرح کی سلامی ہوتی تھی۔‘
یہ شو ایک طویل عرصے تک لاہور کے الحمرا ہال نمبر ایک میں ریکارڈ کیا جاتا رہا جس میں ساڑھے سات سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے مگر اس میں شرکت کے خواہاں لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی۔ آغا قیصر عباس کے بقول، ان کے موبائل اور بسا اوقات گھر کے فون پر بھی لوگ کال کر کے شو میں شرکت کے لیے پاسز کی خواہش ظاہر کیا کرتے۔
آغا قیصر عباس نے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے کہا کہ ’یہ 2010 یا 2011 کی بات ہے، اس روز ہماری ریکارڈنگ تھی مگر صبح سے شام پانچ بجے تک شدید بارش ہوئی۔ شہر بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے طارق عزیز صاحب سے کہا کہ بارش بہت تیز ہو رہی ہے، لوگ نہیں آئیں گے تو طارق صاحب نے آنکھیں بند کر لیں اور چند لمحوں بعد آنکھیں کھولیں اور جواب دیا کہ آج ہی کرو۔ ہم لوگ الحمرا چلے گئے، وہاں بھی بہت زیادہ پانی تھا۔ ہم نے اس روز قدرے تاخیر سے پروگرام شروع کیا۔ آپ یقین کریں گے کہ اس روز ہال فل تھا اور لوگ سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔‘
ہمہ جہت شخصیت کے مالک طارق عزیز کی موت کے ساتھ ہی یہ پروگرام بھی بند ہو گیا کیوں کہ اس نوعیت کے پروگراموں کی میزبانی کے لیے میزبان کا وسیع المطالعہ ہونا بہت ضروری ہے۔
طارق عزیز مرحوم کے لہجے میں موجود گرج اور ان کی اپنے پروگرام سے کمٹمنٹ نے اس پروگرام کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ عہدِ حاضر میں نشر کیے جا رہے شوز کی ریکارڈنگ میں پورا پورا دن لگ جاتا ہے جب کہ طارق عزیز صاحب صرف دو گھنٹوں میں اپنی شوٹنگ مکمل کر لیا کرتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس شو کا چربہ تیار کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔
نیلام گھر سے شروع ہوا یہ سفر بزم طارق عزیز پر ختم ہوا جس نے تین نسلوں کو متاثر کیا۔
ناظرین کے ذہنوں میں آج بھی طارق عزیز کے یہ الفاظ گونجتے ہیں، ’دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام۔‘ یہ وہ جملہ ہے جسے طارق عزیز کے انداز میں کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔