میاں چنوں: جب ٹرین کی آواز اور پانی کی بوتل سے ڈاکٹر کے اغوا کار پکڑے گئے
میاں چنوں: جب ٹرین کی آواز اور پانی کی بوتل سے ڈاکٹر کے اغوا کار پکڑے گئے
ہفتہ 28 اکتوبر 2023 16:32
علی عباس۔ لاہور
پولیس اہل کاروں نے ریلوے سٹیشن کے قریب ہی کرائے دار بن کر وہاں رہائش اختیار کی (فوٹو: پنجاب پولیس، فیس بک)
صوبہ پنجاب کے شہر کمالیہ کے ایک ڈاکٹر کا اغوا ہوتا ہے جسے چھوڑنے کے لیے دو کروڑ روپے تاوان مانگا جاتا ہے۔ مغوی کے خاندان اور اغوا کاروں کے درمیان ایک کروڑ کی ادائیگی پر اتفاق ہو جاتا ہے۔
مغوی کے لواحقین اغواکاروں کو ایک کروڑ روپے ادا کرتے ہیں اور مغوی ڈاکٹر کو اغواکاروں سے بحفاظت بازیاب کروا لیتے ہیں جس کے بعد پولیس کے علم میں جب اغوا کا یہ معاملہ آتا ہے تو کمالیہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) کے صدر پولیس سٹیشن میں ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور پولیس اپنی تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔
پولیس کے پاس تفتیش کرنے کے لیے کوئی سراغ نہیں ہے۔ ایس ایچ او احتشام الحق مغوی ڈاکٹر سے مختلف سوالات کرتے ہیں تاکہ کوئی ایسا سراغ ہاتھ لگ سکے جو اغواکاروں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو۔
پولیس کے علم میں یہ بات بھی آتی ہے کہ ڈاکٹر ہنی ٹریپ ہو کر ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ آیا تھا اور اغوا ہو گیا تھا۔
اس ایچ او صدر پولیس سٹیشن کمالیہ احتشام الحق کے مطابق، ڈاکٹر نے اگرچہ کچھ دیکھا نہیں تھا مگر انہوں نے کچھ نہ کچھ سنا ضرور تھا جس سے کچھ اہم معلومات حاصل ہو سکتی تھیں۔
ڈاکٹر سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کو دورانِ اغوا کسی قسم کی کوئی آوازیں تو سنائی نہیں دیتی تھیں جس پر ڈاکٹر نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ قریب سے ہی ٹرین کے رکنے اور چلنے کی آواز سنائی دیتی تھی جس سے پولیس یہ اندازہ لگانے میں کامیاب رہی کہ اغواکار کسی ریلوے سٹیشن کے 500 میٹر کے قریب رہے ہوں گے۔
ڈاکٹر نے دورانِ تفتیش یہ بھی بتایا کہ ’مجھے قریب سے ہی شٹر کے کھولے جانے اور بند کیے جانے اور کسی کیری ڈبے کی آواز سنائی دیتی تھی۔‘
ڈاکٹر کے مطابق، انہیں ایک چوبارے میں رکھا گیا تھا۔
یہ معلومات فی الحال نامکمل تھیں اور پولیس کو کوئی ایسا سراغ چاہیے تھا جس سے وہ اس مقام تک پہنچ سکتی جہاں پر مغوی کو رکھا گیا تھا۔
پولیس ان معلومات سے صرف یہ مفروضہ قائم کر پائی تھی کہ ہو سکتا ہے چوبارے کے نیچے کوئی دکان ہو جس میں رات کو آ کر وہ کیری ڈبہ کھڑا ہوتا تھا اور صبح کے وقت کیری ڈبہ لے جانے کے لیے شٹر کھولا جاتا۔
ایس ایچ او احتشام الحق کے مطابق میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ آپ کو کھانے پینے میں کیا چیزیں دی جاتی تھیں؟
ڈاکٹر نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ کھانے میں بسا اوقات باربی کیو دیا جاتا تھا جب کہ اکثر مینگو شیک بھی دیا جاتا جس سے پولیس نے یہ اندازہ لگایا کہ ڈاکٹر کو اغوا کر کے ممکنہ طور پر کسی شہری علاقے میں رکھا گیا ہو گا۔
پولیس کو اہم سراغ کیسے ملا؟
یہ سب شواہد ایسے تھے جو ہر شہر میں مشترک ہو سکتے ہیں تاہم پولیس کو ڈاکٹر کے ساتھ کی جانے والی اس گفتگو سے ایک اہم سراغ مل ہی گیا۔
ایس ایچ او احتشام الحق کے مطابق، میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ ’وہ آپ کو پینے کے لیے کولر میں رکھا پانی دیتے تھے یا منرل واٹر دیا جاتا تھا؟‘
ڈاکٹر نے بتایا کہ ’وہ مجھے دو کمپنیوں کے منرل واٹر کی بوتلیں دیتے تھے۔ ایک ’غازی‘ اور دوسری ’راسانی‘ نام کی کمپنی تھی۔‘
یہ دونوں برانڈز مقامی تھے جن کے بارے میں مزید معلومات سے تفتیش درست سمت میں جا سکتی تھی۔
پولیس نے اس وقت پانی کی ان دونوں کمپنیوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا جن کا کھوج لگانے کے لیے چیچہ وطنی، ساہیوال، میاں چنوں، ملتان، تلمبہ، شور کوٹ کینٹ سمیت ہر جگہ پر ان دونوں ناموں کی کمپنیوں کی تلاش کی گئی۔
ایس ایچ او احتشام الحق کے مطابق، ہمیں ان کمپنیوں کا سراغ صرف اور صرف میاں چنوں میں ملا۔ ہم جب میاں چنوں پہنچے تو ہمیں ان دونوں کمپنیوں کے بارے میں معلوم ہو گیا۔ ہم نے شکر ادا کیا کہ ہم اس شہر تک پہنچ گئے تھے جہاں مغوی کو رکھا گیا تھا۔
چوبارے کی تلاش کیسے مکمل ہوئی؟
پولیس اہل کاروں نے ریلوے سٹیشن کے قریب ہی کرائے دار بن کر وہاں رہائش اختیار کی اور اغوا کاروں کا کھوج لگانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔
ایس ایچ او احتشام الحق کے مطابق، ہم اس چوبارے کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے جہاں مغوی کو مبینہ طور پر رکھا گیا تھا اور ہم نے اس جگہ کی تصاویر اتار کر ڈاکٹر صاحب کو بھیجیں تاکہ وہ اس مقام کی شناخت کر سکیں اور ہو سکتا ہے کہ یہی وہ جگہ ہو جہاں انہیں اغوا کر کے رکھا گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ تصاویر دیکھ کر کہا کہ یہی وہ جگہ ہے۔
یوں پولیس تین ہفتوں میں ملزموں تک پہنچ گئی اور ان کو گرفتار کرنے کے علاوہ ان سے ایک کروڑ روپے تاوان کی رقم بھی برآمد کی گئی۔
ایس ایچ او صدر کمالیہ احتشام الحق نے مبینہ اغواکاروں کی گرفتاری پر انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب کی جانب سے سی سی ون سرٹفیکیٹ ملنے پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’میں بہت فخر محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے چھ سال کی ملازمت میں یہ دوسرا سی سی ون سرٹیفیکیٹ ملا۔‘