اسرائیل کو غزہ میں بطور قابض قوت حق دفاع حاصل نہیں: اقوام متحدہ
اسرائیل کو غزہ میں بطور قابض قوت حق دفاع حاصل نہیں: اقوام متحدہ
اتوار 29 اکتوبر 2023 19:42
فرانسيسكا البانيز نے کہا کہ یہ حقیقت کہ اسرائیل بغیر کسی فوجی ہدف کے پوری غزہ کی پٹی پر بمباری کر رہا ہے، اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ (فوٹو: عرب نیوز)
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات فرانسيسكا البانيز نے کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں حق دفاع حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں قابض قوت ہے۔
فرانسيسكا البانيز کو مئی 2022 میں تین سال کے لیے تعینات کیا گیا تھا اور وہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ سات اکتوبر کو حماس کے کثیر جہتی حملے پر اسرائیل کا فوجی ردعمل محض اپنی سرزمین اور اپنے شہریوں کے دفاع سے آگے بڑھ گیا ہے۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئر شو ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اپنے دفاع کا حق جسے اسرائیل نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت استعمال کیا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ یہ ایک ریاست کو کسی دوسری ریاست سے ہونے والے حملے کو پسپا کرنے کا حق دیتا ہے۔ لہٰذا حملے کو پسپا کرنے کے لیے ضروری کارروائی اس کی شدت اور وسعت پر مبنی ہونی چاہیے اور یہ متناسب ہونا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات نے کہا کہ ’بین الاقوامی عدالت انصاف کا اصول قانون کہتا ہے کہ فوجی قبضے کے تناظر میں اپنے دفاع کا اطلاق نہیں ہو سکتا، جبکہ اس معاملے میں اسرائیل کسی دوسری ریاست، دوسرے لوگوں پر قابض ہے۔‘
فرانسيسكا البانيز نے ’متناسب‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’24 سے 30 گھنٹوں میں اسرائیل نے اپنے علاقے پر دوبارہ کنٹرول کر لیا تھا۔ لہذا اس وقت تک، اپنے ہی علاقے میں اپنے دفاع کا حق، اگر اپنے دفاع کا اطلاق کرنا ہے تو ختم ہو چکا تھا۔‘
’کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس کی طرف سے جو کچھ کیا گیا تھا اس کے بعد اسرائیل کچھ نہ کریں؟ نہیں جیسا کہ میں نے کہا، اسرائیلی شہریوں کا تحفظ ضروری تھا، اور حماس کی فوجی موجودگی کو پسپا کرنا بھی۔ جو ہو گیا تھا۔‘
اسرائیلی فوج کے تیز ہوتے حملوں اور بڑھتی ہلاکتوں کے درمیان غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کا مستقبل غیریقینی کا شکار ہے۔
اطالوی ماہر تعلیم اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی وکیل البانيز نے تنازع کی بنیادی حرکیات پر بات کی۔
یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب حماس نے غزہ سے اسرائیلی علاقے میں راکٹ داغے اور سات اکتوبر کو سرحد میں دراندازی کرتے ہوئے کئی سرحدی قصبوں اور ایک میوزک فیسٹیول میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو ہلاک کیا۔
سیکڑوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے متعدد افراد کو بھی یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا۔
حماس کے عسکریت پسندوں سے اپنی سرزمین خالی کرانے کے بعد اسرائیل نے غزہ میں جوابی کارروائیاں شروع کیں اور مسلح گروپ کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کیا۔
فرانسيسكا البانيز نے کہا کہ یہ حقیقت کہ اسرائیل بغیر کسی فوجی ہدف کے پوری غزہ کی پٹی پر بمباری کر رہا ہے، اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔
’ایک واضح فوجی مقصد حماس کی فوجی صلاحیت کو ختم کرنا ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ہو سکتا ہے، لیکن صرف یہی قول و فعل میں نظر نہیں آ رہا۔ اس کا مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ لیکن حماس ایک سیاسی جماعت بھی ہے۔ تو عملی طور پر اس کا کیا مطلب ہے؟‘
البانيز کا کہنا تھا کہ ’اسرائیلی سیاست دانوں اور رہنماؤں نے اپنے بیانات میں اعلان کیا کہ غزہ میں رہنے والے تمام فلسطینی حماس کے اقدامات کے ذمہ دار ہیں، تو ان کی کمر توڑ دینی چاہیے۔ یہ زبان انتہائی خطرناک ہے۔ نسل کشی کی زبان استعمال کی گئی ہے، اور سینکڑوں سکالرز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔‘
اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقہ جات کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کی فوجی مہم نہایت تباہ کن اور بلاامتیاز رہی ہے اور اس نے غزہ کا 42 فیصد رہائشی علاقہ تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیل نے شہری علاقوں جن میں ہسپتال، عبادت گاہیں اور مارکیٹیں شامل ہیں، کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
فلسطین کے حکام صحت کے مطابق اسرائیل کے اب تک کے فضائی حملوں میں آٹھ ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔