Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل حماس جنگ، امریکہ کا دو ریاستی حل کا مطالبہ حقیقت میں ڈھل سکتا ہے؟

امریکا کا کہنا ہے کہ دو ریاستی حل ہی قابل عمل راستہ ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اسرائیل کی حماس کے خلاف مہم جوئی میں روز بروز شدت آ رہی ہے جبکہ دوسری جانب امریکہ فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کر رہا ہے لیکن دہائیوں پر محیط ناکامی کے بعد اس مقصد میں کامیابی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو اسرائیل کے جوابی حملوں کی حمایت کرنے پر عرب ممالک میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے بعد امریکہ اپنے بیانات میں تبدیلی لاتے ہوئے فلسطینی شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچانے کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔
جمعے کو اسرائیل کے دورے کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے امداد پہنچانے کے لیے انسانی بنیادوں پر توقف کا مطالبہ کیا اور کہا کہ دو ریاستی حل ہی ’قابل عمل راستہ ہے بلکہ واحد راستہ ہے۔‘
دارالحکومت تل ابیب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں انٹونی بلنکن نے دو ریاستی حل کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہی ایک محفوظ، یہودی، اور جمہوری اسرائیل کا واحد ضامن ہے۔ یہی فلسطینیوں کا واحد ضامن ہے جو انہیں اپنی ریاست میں جینے کا جائز حق  دیتا ہے اور وہ برابر کی سکیورٹی، آزادی، مواقعوں اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہی پرتشدد واقعات کے اس چکر کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔‘
30 سال قبل اوسلو معاہدے کے تحت دو ریاستی حل پر اتفاق ہوا تھا تاہم اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا جبکہ فلسطینی اتھارٹی کو مغربی کنارے میں انتہائی محدود خودمختاری دی گئی اور بعد میں امریکہ نے اس مقصد میں ٹھوس سفارتی کوششیں نہیں کیں۔
وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے مخالف رہے ہیں اور ان کے حامی بھی مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری کی حمایت کرتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اگرچہ عوامی سطح پر اسرائیلی جوابی کارروائی کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے اکھٹی کی گئی ٹیکس آمدنی کی رقم ان کے حوالے کرے اور مغربی کنارے میں آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے۔
تاہم واشنگٹن میں موجود امریکی اتحادی ملک کے ایک سفارتکار کا کہنا ہے کہ ’دو ریاستی حل کے مطالبے کا مطلب اس مقصد کا حصول نہیں ہے اور نہ ہی یہ کہ اس کے بعد فلسطینی ریاست قائم ہو جائے گی۔‘

وزیراعظم نیتن یاہو نے جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے رواں سال کے آغاز میں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں صرف 35 فیصد اسرائیلیوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے ساتھ پرامن طور پر رہ سکتا ہے۔ جبکہ دس سال قبل 50 فیصد اسرائیلیوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح سے دو ریاستوں کے ایک ساتھ پُرامن طور پر رہنے کی حمایت فلسطینیوں میں کم سے کم ہو رہی ہے۔
7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے چند ہفتوں قبل نیتن یاہو نے اقوام متحدہ میں تقریر کے دوران کہا تھا کہ دو ریاستی حل کے لیے سفارتکاری اب ماضی کی بات ہے اور عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہی اسرائیل کا مسقبل ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اسرائیل کا عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکانات بھی اب مدھم پڑتے جا رہے ہیں۔

شیئر: