Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خواتین کا مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی کامیابیوں میں اہم کردار

عدالتی، سیکیورٹی اورعسکری عہدے بھی خواتین کے لیے کھل گئے ہیں ( فوٹو: ایس پی اے)
سعودی ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ ڈاکٹرھلا التویجری نے کہا ہے کہ’ سعودی عرب خواتین کو با اختیار بنانے کے حوالے سے قابل قدر کام کررہا ہے‘۔ 
انہوں نے سعودی قیادت کی جانب سے مملکت میں خواتین کی سپورٹ کی تعریف کی جس کی وجہ سے سعودی خواتین نے مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی کامیابیوں میں اپنا کردار ادا کیا۔
 ایس پی اے کے مطابق ڈاکٹر ھلا التویجری نے منگل کو جدہ میں اسلام میں خواتین سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم خواتین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے میں اسلامی اقدار کا کردار اہما ہے‘۔ 
انہوں نے سعودی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے اہم اقدامات کے حوالے سے بتایا کہ’ سعودی عرب نے مختلف شعبوں میں قانونی اور انتظامی اصلاحات کی ہیں جن سے خواتین کے حقوق کو تحفظ اور انہیں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے لیے قانونی بنیادیں حاصل ہوئی ہیں‘۔ 
انہوں نے کہا کہ ’2017 سے 2022 تک لیبر مارکیٹ میں خواتین کا حصہ 21.2 فیصد سے بڑھ کر 34.7 فیصد تک پہنچ گیا۔ اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کا تناسب 17 فیصد سے بڑھ کر 37 فیصد تک پہنچ گیا‘’۔ 
’سول خدمات میں سعودی خواتین کا حصہ 2022 کی تیسری سہ ماہی کے آخر تک 42  فیصد ہوگیا۔ مجلس شوری میں خواتین کا تناسب 20 فیصد ہے‘۔ 
انہوں نے مزید کہا’ انتظامی عہدوں پر بھی خواتین آگے ہیں۔ 2017 میں ان کا تناسب 28.6 فیصد تھا۔ 2022 میں 41.1 فیصد ہوگیا۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں میں خواتین کا حصہ 2017 میں  22.5 فیصد تھا 2022 میں 45 فیصد تک پہنچ گیا‘۔

اقتصادی سرگرمیوں میں خواتین کا تناسب بڑھ کر 37 فیصد تک پہنچ گیا۔ (فوٹو: ایس پی اے)

’مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کا تناسب 2017 میں 7 فیصد تھا۔ 2022 میں 30.5 فیصد ہوگیا۔ کاروباری رجسٹریشن کے حوالے سے سعودی خواتین کاحصہ چالیس فیصد ہوگیا ہے‘۔ 
ڈاکٹر ھلا التویجری نے بتایا کہ ’عدالتی، سیکیورٹی اورعسکری عہدے بھی خواتین کے لیے کھل گئے‘۔ 
انہوں نے کہا کہ’ مسلم خواتین کو اسلام کے عطا کردہ حقوق استعمال کرنے میں متعدد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسلامو فوبیا اور نفرت کے بیانیے کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں‘۔ 
سعودی ہیومن رائٹس کمیشن کی سربراہ نے کہا’ فلسطینی خواتین خصوصا غزہ پٹی میں صبر و تحمل اور آزادی کی جدوجہد کی زندگی گزار رہی ہیں‘۔
’انہیں وہاں قابض اسرائیلی حکام کی جارحانہ جنگ کی وجہ سے غیر انسانی حالات کا سامنا ہے اسرائیلی جارحیت سے سب سے زیادہ متاثر خواتین، بچے اور بوڑھے ہورہے ہیں‘۔

شیئر: