اعظم خان چل بسے، خیبر پختونخوا کے نئے نگراں وزیراعلٰی کا انتخاب کیسے ہو گا؟
اعظم خان چل بسے، خیبر پختونخوا کے نئے نگراں وزیراعلٰی کا انتخاب کیسے ہو گا؟
ہفتہ 11 نومبر 2023 12:38
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
کنور دلشاد کے مطابق آرٹیکل 224 کے تحت کابینہ نگراں وزیراعلٰی کی عدم موجودگی میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ (فوٹو: کے پی اسمبلی)
سنیچر کو نگراں وزیراعلٰی اعظم خان کی وفات کے بعد ایک نئے آئینی بحران نے سر اٹھا لیا ہے۔ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ نیا نگراں وزیراعلٰی کیسے تعینات کیا جائے گا؟
کیا اس کے لیے آئین پاکستان میں کوئی آئینی و قانونی طریقہ کار موجود ہے یا نہیں؟ کئی حلقوں کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ نئے نگراں وزیراعلٰی کی تعیناتی کا راستہ پارلیمانی کمیٹی نکالتی ہے یا اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نئے نگراں وزیراعلٰی کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
بعض دعوؤں کے مطابق اس صورت حال میں الیکشن کمیشن کا کردار اہم ہوجاتا ہے لیکن سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کے مطابق اس وقت نگراں صوبائی کابینہ تحلیل ہو چکی ہے اس لیے اس میں اپوزیشن یا کابینہ کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا۔
ایسے موقع پر کئی ماہرین اسے ’آئینی بحران‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جس سے یہ تاثر جاتا ہے کہ ممکنہ طور پر آئین میں ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے حل موجود نہیں تاہم اُردو نیوز سے گفتگو میں سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے کہا کہ آئین پاکستان ہر حوالے سے واضح ہے۔
’آئین میں ہر چیز کا حل موجود ہے۔ ایمرجنسی کے معاملات کے بارے میں بھی تشریح کی گئی ہے۔ اس لیے موجودہ صورتِ حال کا حل بھی آئین میں درج ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ نگراں وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کی وفات کے بعد آرٹیکل 224 کے تحت آئینی طور پر اسمبلی تحلیل ہو گئی ہے۔
’آرٹیکل 224، آرٹیکل 105 اور آرٹیکل 109 کو دیکھیں تو وہ اِس صورت حال کی تشریح کرتے ہیں لیکن تخصیص کے ساتھ مطالعہ کریں تو آرٹیکل 224 اس معاملے کی وضاحت پیش کرتا ہے جس کے تحت صوبائی کابینہ نگراں وزیراعلٰی کی عدم موجودگی میں تحلیل ہو گئی ہے۔ کیونکہ کابینہ وزیراعلٰی کے ساتھ جُڑی ہوتی ہے، اگر وزیراعلٰی کسی وجہ سے استعفٰی دیں یا برطرف ہو جائیں تو کابینہ خود ہی تحلیل ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آئینی اعتبار سے اس وقت تمام اختیارات جن میں انتظامی، مالیاتی و دیگر معاملات شامل ہیں، وہ صوبائی گورنر کے پاس چلے گئے ہیں۔
’ان کے بقول جب تک نئے نگراں وزیراعلٰی کا فیصلہ نہیں ہو جاتا تب تک تمام اختیارات گورنر کے کو تفویض ہوں گے اور صوبے کے تمام انتظامات وہ خود چلائیں گے۔‘
اختیارات گورنر کے پاس جانے کے بعد اہم مرحلہ نئے نگراں وزیراعلٰی کا انتخاب ہوتا ہے۔
کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ آرٹیکل 224 میں واضح طور پر تشریح کی گئی ہے۔ ’جب اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہوں تو ایسے موقع پر سینیٹ کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ سینیٹ میں تین نمائندے اپوزیشن اور تین حکومت کے نمائندے ہوں گے۔ اس وقت سینیٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف موجود ہیں اس لیے دونوں جانب سے مجموعی طور پر چھ نمائندوں کی کمیٹی بنے گی جو وزیراعلٰی کا انتخاب کرے گی۔ یہ کمیٹی باہمی مشاورت سے ایک ہفتے میں کسی ایک نام پر اتفاق سے فیصلہ کرے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ عام طور پر ایسے فیصلے چھ دنوں میں ہو جاتے ہیں لیکن اگر سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے باہمی مشاورت کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہو سکا تو پھر الیکشن کمیشن نگراں وزیراعلٰی کے انتخاب میں کردار ادا کرے گی۔
الیکشن کمیشن کے پاس معاملہ جانے کے بعد کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں کہ الیکشن کمیشن دیے گئے تین ناموں میں سے کسی ایک کو تعینات کرے گا یا الیکشن کمیشن خود سے نئے نگراں وزیراعلٰی کی تعیناتی کرے گا؟
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد بتاتے ہیں ’جب یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا تو آئین کی رو سے الیکشن کمیشن پابند ہو گا کہ وہ 48 گھنٹوں میں نئے نگراں وزیراعلٰی کا نام دے۔ یہ نام سامنے آنے کے فوری بعد نیا نگراں وزیراعلٰی حلف اٹھائے گا اور اس فیصلے کو پاکستان کے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘
کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ مجموعی طور پر اس تمام عمل میں چھ سے ساتھ دن لگ جاتے ہیں۔
’ان چھ یا سات دنوں میں سینیٹ کی کمیٹی بیٹھے گی اور پھر وہاں سے فیصلہ آئے گا کہ اس دوران اگر فیصلہ نہ ہوا تو الیکشن کمیشن فیصلہ کرنے کا مجاز ہو گا تو مجموعی طور پر ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔‘
اس پورے عمل میں جب معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن اُن ناموں کو بھی زیر بحث لائے گا جو سینیٹ کمیٹی نے شارٹ لسٹ کیے ہوں گے یا اُن پر بحث ہو گی؟
اس بارے میں کنور دلشاد بتاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ نئے نام دیکھ سکتا ہے۔
’اب نئے نام آئیں گے اور یہ نئے نام الیکشن کمیشن خود دے گا۔ نئے ناموں میں اگر کوئی نام دوبارہ دہرایا جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔‘
آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا کی نگراں کابینہ تحلیل ہو گئی ہے اور نئے نگراں وزیراعلٰی کے انتخاب کا اختیار سینیٹ سے ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔