Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سمندر سے مانوس‘ سعودی ماہی گیر جن کی زندگی خلیج عرب کے پانیوں میں گزری

مہدی خلیل نے اپنی زندگی خلیج عرب میں ماہی گیری کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ فوٹو عرب نیوز
مہدی خلیل سعودی عرب کے ساحلی شہر قطیف کی فش مارکیٹ میں ایک لیجنڈ کی حیثیت رکھتے ہیں، یہ خطے کی سب سے بڑی اور ایشیا کی دوسری بڑی مچھلی منڈی ہے۔
ماہی گیری کے عالمی دن کے موقع پر عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی ماہی گیر مہدی خلیل نے بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی خلیج عرب میں ماہی گیری کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
مہدی خلیل نے بتایا کہ 1981 میں جب پہلی بار وہ سمندر میں اُترے تو تو اس وقت سیکنڈری سکول کے طالب علم تھے۔ 

فنشگ ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے یہ عمل زیادہ موثر بن گیا ہے۔ فوٹو گیٹی امیج

والد کی وفات کے بعد مہدی خلیل کو بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے ان کی خواہشات پوری کرنے اور خاندان کی کفالت کرنے کے لیے ماہی گیر بننا پڑا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میری زندگی سکول سے سمندر تک تھی اور میں سکول سے بھی زیادہ سمندر سے مانوس ہو گیا۔ عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں نے اپنی پہلی کشتی خریدی اور چھوٹے بہن بھائیوں کی سرپرستی کا تہیہ کر لیا۔‘
خلیل مہدی نے شروع شروع میں اپنے چچا کی سرپرستی میں مچھلیاں پکڑنا سیکھیں اور اس پیشے پر بھرپور توجہ دی۔

ابتداء میں مچھلی پکڑنے کے لیے خشک مچھلی کا استعمال ہوتا تھا۔ فوٹو ایکس

انہوں نے بتایا کہ ’رزق کی تلاش میں اپنی کشتی میں ایندھن بھرتا ہوں اور کشتی میں مچھلی سٹور کرنے کے لیے برف کا بندوبست کرتا ہوں، پھر تمام ضروری سامان اور آلات اکٹھے کرکے مکمل تیاری کے بعد گہرے پانیوں کا رخ کرتا ہوں۔‘
مہدی خلیل کے مطابق ان کی کشتی میں مچھلی رکھنے کے دس فریج ہیں، ’ہر فریج میں تقریباً 16 کلو مچھلی کی گنجائش ہے اور آدھے گھنٹے میں ایک فریج بھرنے کا ہدف مقرر کرتا ہوں۔ خواہش کے مطابق 160 کلو گرام مچھلی سمندر سے نکال کر فروخت کی نیت سے فش مارکیٹ آ جاتا ہوں۔‘

قطیف فش مارکیٹ خطے کی سب سے بڑی مچھلی منڈی ہے۔ فوٹو انسٹاگرام

مہدی خلیل نے مقامی طور پر پسند کی جانے والے مچھلیوں کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمور، کناڈ اور صافی کےعلاوہ کئی اقسام اور سائز کے جھینگے بھی سمندر میں وافر ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ خاص قسم کی فش کناڈ پکڑنے کا بہترین وقت سال کے آخر میں ہوتا ہے اور اس مدت میں ماہی گیروں کو مخصوص اقسام کی مچھلیاں پکڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔
سعودی ماہی گیر نے کہا کہ ’ابتدائی دنوں میں روزمرہ کا معمول صرف گزر بسر کرنا تھا تاہم اب فنشگ ٹیکنالوجی میں جدت آ جانے سے یہ عمل کہیں زیادہ موثر بن گیا ہے۔‘
ہمور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا  کہ پہلے پہل ہم اسے کانٹے اور ڈور سے پکڑتے تھے اور اس کی قیمت بھی 40 تا 45 ریال فی کلو ہوتی تھی لیکن اب اس کی قیمت زیادہ ہے۔‘

حفاظتی تدابیر کے بغیر سمندر میں غوطہ لگانا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ فوٹو گیٹی امیج

سعودی ماہی گیر اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح دھاتی تاروں سے بنا جال استعمال کرتے ہیں اور سمندر میں پھینک کر انتظار کرتے ہیں۔
خلیل مہدی نے بتایا کہ ’شروع میں ہم مچھلی پکڑنے کے لیے چارے کے طور پر چھوٹی اور خشک مچھلی کا استعمال کرتے تھے لیکن اب روٹی مچھلی کو زیادہ لالچ دیتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ طریقے بدل گئے ہیں اب ہم روٹی کا بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ مچھلی کو خشک مچھلی کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر متوجہ کرتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ماہی گیر کے پیشے میں زندگی کو خطرات کا سامنا بھی رہتا ہے اور میں بھی تقریباً تین بار موت کے منہ میں جاتے جاتے بچا ہوں۔‘

چچا کی سرپرستی میں مچھلیاں پکڑنا سیکھیں اور بھرپور توجہ دی۔ فوٹو ایکس

انہوں نے کہا کہ موتی تلاش کرنے کی نیت سے جب حفاظتی تدابیر کے بغیر سمندر میں غوطہ لگاتے ہیں تو زیادہ خطرے کا سامنا رہتا ہے۔
’جب میں موتی لگا رہا تھا تو مجھے خطرے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک ایسے وقت کے دوران تھا جب ہم صرف چشموں کے ساتھ اور کسی دوسرے حفاظتی سامان کے ساتھ غوطہ لگاتے تھے۔ ایک بار میرے چچا نے خبردار کیا کہ میرا تجربہ کہتا ہے کہ آج پانی میں مت اُترو اور اسی دن غوطہ لگاتے ہی ایک چھوٹی شارک قریب آ گئی اور خوش قسمتی سے میں محفوظ رہا۔‘
واضح رہے کہ ہر سال 21 نومبر کو ماہی گیر کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کی جانب سے ماہی گیری کے مستحکم طریقے رائج کرنے اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کو روک لگانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
 

شیئر: