Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا چار روزہ وقفہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے؟

امدادی تنظیموں نے رفح راہداری کے علاوہ مزید کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انسانی امداد کی تنظیموں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی میں چار روزہ وقفے کو مستقل جنگ بندی میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق حالیہ معاہدے کے تحت غزہ میں امداد کی ترسیل کو آسان بنایا جائے گا جبکہ اسرائیل 50 یرغمالیوں کے بدلے میں 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
چند میڈیا رپورٹس میں اسرائیلی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ چار روزہ وقفے میں اضافہ اس صورت میں ممکن ہے کہ اگر حماس کم از کم دس یرغمالیوں کو روزانہ رہا کرے۔
اگرچہ انسانی تنظیموں نے معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم ’سیو دا چلڈرن فلسطین‘ کی کنٹری ڈائریکٹر جیسن لی نے بدھ کو جاری بیان میں کہا تھا کہ لڑائی میں وقفہ درست سمت کی جانب قدم ہے لیکن یہ جنگ بندی کی جگہ نہیں لے سکتا۔
جیسن لی نے غزہ کے شمال اور جنوب میں ہونے والی لڑائی کے متعلق کہا کہ پورے شہر میں کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا ہے کہ غزہ بچوں کے لیے دنیا کا انتہائی خطرناک شہر بن گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس جنگ کی اصل قیمت کا اندازہ بچوں کی زندگیوں سے لگایا جا سکتا ہے اور اب تک 5 ہزار 300 سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
عارضی جنگ بندی کی خبر کے بعد تمام تر توجہ رفح راہداری پر مبذول ہے جو لڑائی کے پہلے تین ہفتوں کے دوران بند رہی تھی، جبکہ یہ راہداری غزہ کا باقی دنیا کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ ہے۔

امدادی تنظیموں نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے مطابق رفح راہداری کے کھلنے کے بعد امدادی سامان لے جانے والے ایک ہزار 400 ٹرک غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔
تاہم موصول ہونے والی امداد کے حوالے سے انسانی امداد کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ غزہ کے شہریوں کی ضروریات کے مقابلے میں یہ بہت معمولی ہے۔ 
بین الاقوامی تنظیم ’ایکشن اگینسٹ ہنگر‘ کی ہیڈ آف آپریشنز چیارا سکاردی نے مزید کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ رفح راہداری کے ذریعے محدود نقل و حمل ہی ممکن ہے اور جو امدادی ٹرک اب تک یہاں سے داخل ہوئے ہیں، وہ ناکافی ہیں۔
انسانی امداد کی تنظیم ’ڈاکٹرز آف دا ورلڈ‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جوئل ویلر نے بھی اتفاق کیا کہ غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے رفح راہداری کافی نہیں ہے بلکہ کرم ابو سالم کراسنگ پوائنٹ کو بھی کھولنا چاہیے۔
اقوام متحدہ بھی اسرائیل سے کرم ابو سالم کراسنگ پوائنٹ کو کھولنے کا مطالبہ کر چکا ہے تاکہ غزہ میں انسانی امداد اور دیگر کمرشل اشیا پہنچائی جا سکیں۔
اسرائیلی بمباری کے باعث غزہ میں تقریباً نصف گھر مکمل یا شدید تباہ ہوئے ہیں جبکہ 51 فیصد سے زائد تعلیمی ادارے بھی تباہ ہوئے۔ دوسری جانب ایندھن کی کمی سے بجلی کی بھی بندش ہے اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی کام نہیں کر رہے جس سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہینڈی کیپ انٹرنیشنل کی کنٹری منیجر دانیلا زیزی کے مطابق اسرائیلی بمباری سے لوگوں کی موت ہی نہیں واقع ہوئی بلکہ تباہ کن چوٹیں بھی آئی ہیں، جن میں ریڑھ کی ہڈی پر شدید چوٹ کے علاوہ ایسے زخم بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے اعضا کاٹنے پڑے۔

غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 5 ہزار سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ غزہ میں 20 لاکھ لوگوں تک انسانی امداد پہنچانے کے لیے چار روزہ وقفہ ناکافی ہے اور لوگوں تک پہنچنے کے لیے جنگ بندی اور محفوظ راستے کی ضرورت ہے۔
انسانی امدادی تنظیموں نے اسرائیل کی جانب سے یکطرفہ طور پر ’محفوظ علاقے‘ قائم کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور مشترکہ اعلامیے میں مؤقف اپنایا ہے کہ موجودہ حالات میں ایسے علاقوں کا قیام شہریوں کے لیے خطرہ اور بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا ہے۔

شیئر: