Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگ بندی کا تیسرا دن، اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے غزہ کے پناہ گزین کیمپ میں ہلاکت

اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 39 فلسطینی شہریوں کو رہا کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ جنگ بندی تیسرے دن میں داخل ہونے کے بعد اتوار کے روز غزہ کے مرکز میں واقع مغازی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فورسز کے حملے میں ایک فلسطینی کسان ہلاک اور دوسرا زخمی ہو گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس رپورٹ پر اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی بیان نہیں آیا اور یہ بھی واضح نہیں کہ اس واقعے سے فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے زیر حراست 50 یرغمالیوں کی رہائی پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔
غزہ میں امداد کی ترسیل پر تنازع کی وجہ سے ابتدائی تاخیر کے بعد حماس کی قید سے رہائی کے بعد تیرہ اسرائیلی اور چار تھائی شہری اتوار کی صبح اسرائیل پہنچے۔
اس سے قبل قطری اور مصری ثالثوں نے کہا تھا کہ کئی گھنٹوں کی تاخیر  کے بعد حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کے تحت دوسرے مرحلے میں سنیچر کو رات گئے 39 فلسطینیوں کے بدلے 13 اسرائیلیوں اور چار غیر ملکیوں کو رہا کر دیا تھا۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق عسکریت پسند تنظیم حماس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی کی۔
نصف شب کے کچھ دیر بعد اسرائیلی فوج نے کہا کہ رہائی پانے والے یرغمالی، جن میں چار تھائی لینڈ کے شہری بھی شامل ہیں، کو اسرائیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ 
اسرائیل نے سنیچر کو جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 39 فلسطینی شہریوں کو رہا کیا۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کےدفتر نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے رہا کیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں میں سات بچے اور چھ خواتین شامل ہیں۔
رہائی پانے زیادہ تر یرغمالیوں کا تعلق بیری کبوتز سے ہے۔ کبوتز یہودی بستیاں یا چھوٹے ٹاؤن ہوتے ہیں۔
رہائی پانے والے بچوں کی عمریں تین سے 16 سال اور خواتین کی عمریں 18 سے 67 برس کے درمیان ہیں۔
کبوتز بیری کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والے یرغمالیوں نے یا تو سات اکتوبر کو ہونے والے ہنگامے میں خاندان کو کا ایک فرد کھویا ہے اور یا غزہ میں کوئی عزیز یرغمال تھا۔

حماس کی جانب سے رہا کیے گئے اسرائیلی یرغمالیوں کو لے جایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ترجمان نے مزید کہا کہ رہائی پانے والے یرغمالیوں میں سے ایک 12 برس کے بچے ہِلا روتیم کی والدہ اب بھی قید میں ہیں۔
چار دن کی جنگ بندی کے دوسرے دن یرغمالیوں کی رہائی کی تاخیر کی وجہ سے صورتحال کشیدہ ہو گئی تھی۔
رات ہوتے ہی حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل کی جانب سے امداد کی ترسیل کی اجازت وعدے کے مطابق نہیں اور امداد شمالی غزہ تک بھی نہیں پہنچ رہی تھی۔
حماس نے یہ بھی کہا کہ جمعے کو تبادلے کے پہلے مرحلے میں سینیئر عسکریت پسند قیدیوں کو رہا نہیں کیا گیا۔  
بیروت میں حماس کے ایک سینیئر عہدیدار اسامہ حمدان نے کہا کہ ’یہ معاہدے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔‘
تاہم مصر، قطر اور خود حماس نے بعد میں کہا کہ رکاوٹوں پر قابو پا لیا گیا ہے۔
حماس نے چھ خواتین اور 33 نوجوانوں کی ایک فہرست دی ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے رہائی کی توقع ہے۔ 2015 میں دو خواتین میسون جبالی اور اسرا جابس کو اسرائیلیوں پر حملے کرنے کے جرم میں قید کر دیا گیا تھا۔ واقعے کے دوران اسرا جابس جھلس گئی تھیں۔

2015 میں اسرا جابس کو اسرائیلیوں پر حملہ کرنے کے جرم میں قید کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو: اےا یف پی)

جنگ بندی کے پہلے دن حماس نے تقریباً 240 میں سے 24 یرغمالی رہا کر دیے تھے۔ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد جنگ شروع ہو گئی تھی۔
غزہ سے رہائی پانے والوں میں 13 اسرائیلی، 10 تھائی اور ایک فلپائنی شامل شہری ہیں۔
مجموعی طور پر چار روزہ جنگ بندی کے دوران حماس نے کم از کم 50 یرغمالیوں اور اسرائیل نے 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا ہے۔ رہائی پانے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہوں گے۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر 10 مزید یرغمالیوں کو رہا کیا جاتا ہے تو جنگ میں ایک دن توسیع کی جا سکتی ہے۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے کہ جنگ بندی میں توسیع ہو جائے گی۔
ایک سفارت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سنیچر کو ایک قطری وفد اسرائیل پہنچا تھا تاکہ دونوں فریقوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا جا سکے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاہدہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

شیئر: