Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انٹرنیٹ کی سست روی، کیا پی ٹی آئی دور حکومت میں خریدی گئی ٹیکنالوجی وجہ بنی؟

انٹرنیٹ سروس سست ہونے سے ملکی معیشت کو بھی بھاری نقصان ہوتا ہے۔ (فوٹو: فری پک)
عابد سلمان ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں۔ ویک اینڈ پر وہ اپنے آبائی علاقے گئے اور اتوار کی شام وہ واپس اسلام آباد پہنچے۔ بس سے اترنے کے بعد جب انہوں نے آن لائن ٹیکسی بک کرنے کی کوشش کی تو انھیں انٹرنیٹ کی رفتار سست ملی اور کافی کوششوں کے بعد بمشکل انہیں کامیابی ملی۔ 
سردار محمد ایک آن لائن ٹیکسی کے ڈرائیور ہیں۔ وہ معمول کے مطابق اسلام آباد کے علاقے آبپارہ میں سڑک کنارے پہنچے، اپنی ایپ میں لاگ ان کیا لیکن کافی وقت گزرنے کے باوجود خلاف معمول کسی ڈرائیو کا نوٹیفکیشن نہیں آیا تو انہیں پریشانی لاحق ہونا شروع ہوئی۔ 
کئی دفعہ فون آن آف کرنے کے باوجود بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے اپنے ایک ساتھی ڈرائیور سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس وقت انٹرنیٹ سروس سست روی کا شکار ہے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف ایک ورچوئل جلسہ کر رہی ہے۔ 
سردار محمد کا کہنا ہے کہ ’اگر انٹرنیٹ سروس سست نہ ہوتی تو شاید مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ تحریک انصاف کا کوئی پروگرام ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کوئی ریگولر ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہوں بلکہ اپنی ملازمت کے بعد گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ذاتی گاڑی کو بطور آن لائن ٹیکسی چلاتا ہوں۔ لیکن غیرعلانیہ انٹرنیٹ بندش یا سست روی سے چار گھنٹے ضائع ہو گئے۔‘

انٹرنیٹ کی رفتار کیسے کم کی جاتی ہے؟ 

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی بند یا محدود کی گئی ہو۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بڑھتے انحصار کی وجہ سے اس کی سروس میں رکاوٹ نہ صرف لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت کو بھی بھاری نقصان ہوتا ہے۔
ماضی قریب میں ایسی ہی ایک مشق نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کی گئی تھی جب ملک کے مختلف حصوں میں تین دن کے لیے انٹرنیٹ بند یا محدود کیا گیا تھا۔

ہارون بلوچ کے مطابق انٹرنیٹ کی رفتار سست کرنے یا جزوی بندش کو انگریزی زبان میں انٹرنیٹ تھروٹلنگ کہا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حکام کے مطابق پی ٹی اے نے سنہ 2019 (پاکستان تحریک انصاف کی حکومت) میں ایک ٹیکنالوجی حاصل کی تھی جس کا نام ’سینڈ وائن ٹیکنالوجی‘ تھا۔ یہ ٹرانسمیشن کنٹرول پروٹوکول کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے نیشنل انٹرنیٹ ایکسچینج سے انٹرنیٹ کیبل میں سپیڈ کو سست کیا جا سکتا ہے۔
ممکنہ طور اسی ٹیکنالوجی کا استعمال اتوار کی رات بھی کیا گیا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار سست کرنے یا جزوی بندش کو انگریزی زبان میں انٹرنیٹ تھروٹلنگ یعنی ’انٹرنیٹ کا گلا گھونٹنا‘ کہا جاتا ہے۔ 
ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی اے نے انٹرنیٹ کی کیبلز جن میں انٹرنیٹ کے پیکٹ سفر کرتے ہیں، انہیں روکنے کے لیے خود بھی اور مختلف کمپنیوں کے ذریعے ایسے سافٹ ویئرز خریدے ہوئے ہیں جن کے بارے میں کسی کو پتہ بھی نہیں ہے۔ لیکن جہاں کہیں بھی حکومتیں اظہار رائے کی آزادی کو دبانا چاہتی ہیں وہاں ایسی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرز کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ جب انٹرنیٹ بند کیا جاتا ہے یا اس کی مخصوص ویب سائٹس کی جانب روانی کو متاثر کیا جاتا ہے تو لوگ وی پی این این استعمال کرتے ہیں جو انہیں ڈیجیٹل طور پر غیرمحفوظ بنا دیتا ہے۔ اگرچہ وی پی این آپ کے کمپیوٹر یا موبائل کی شناخت چھپا دیتا ہے لیکن یہ کسی حد تک غیر محفوظ بھی ہوتا ہے۔ 
اس حوالے سے پی ٹی اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک بھر میں اب انٹرنیٹ تک رسائی معمول کے مطابق ہے تاہم سوشل میڈیا کی رفتار کم کرنے کی شکایات کے حوالے سے تحقیقات ہو رہی ہیں۔

نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں تین دن کے لیے انٹرنیٹ بند یا محدود کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انٹرنیٹ کی بندش کے نقصانات

ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین کے مطابق اگرچہ پی ٹی اے گذشتہ رات ہونے والی انٹرنیٹ کی بندش کو تسلیم نہیں کر رہا لیکن انٹرنیٹ مانیٹر کرنے والے اداروں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان میں ’انٹرنیٹ کا گلا گھونٹا‘ گیا۔ 
اس حوالے سے پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن (پاشا) کے چیئرمین زوہیب خان نے کہا کہ کچھ گھنٹے کے لیے ہی سہی لیکن جب انٹرنیٹ متاثر ہوتا ہے تو اس سے انٹرنیٹ سے جڑے تمام کام متاثر ہوتے ہیں۔
’اگرچہ چند گھنٹے کے لیے سہی انٹرنیٹ بند یا سست روی کا شکار ہو، فیس بک، یوٹیوب اور باقی ایپلی کیشنز کام نہ کر رہی ہوں تو اییسے میں جو معاشی اثر پڑتا ہے اس کا تخمینہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔‘
انہوں نے کہ صرف معاشی ہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ کی بندش سے لوگوں کو معلومات تک رسائی، تعلیم حاصل کرنے اور آزادی اظہار رائے کا حق متاثر ہوتا ہے۔ آن لائن ایپس کے ذریعے آمدن پر انحصار کرنے والوں کے نقصان کا مجموعی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔البتہ موجودہ مہنگائی کے دور میں وہ جن مشکلات سے گزر رہے ہیں انہیں محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایک دن کے لیے انٹرنیٹ سروس متاثر ہو تو صرف ٹیلی کام کمپنیوں کو ایک دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے حکومت کو ریونیو کی مد میں 28 کروڑ 70 لاکھ سے زائد کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔

شیئر: