Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترقیاتی فنڈز کا استعمال، لاہور ہی حکمرانوں کا منظورِ نظر شہر کیوں؟

جن منصوبوں پر دن رات کام ہو رہا ہے، ان میں پنجاب کے 20 ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے(فائل فوٹو: سکرین گریب)
پنجاب کے دارالحکومت لاہور بارے میں یہ بات اکثر موضوع بحث رہتی ہے کہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کا ایک بڑا حصہ یہاں خرچ کیا جاتا ہے۔
خاص طور پر شہباز شریف کے سابقہ دو ادوارِ حکومت میں لاہور کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے شہرت حاصل رہی۔
موجودہ نگراں حکومت جس کو تقریباً 11 ماہ ہونے کو ہیں اور وہ بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کروا رہی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب ایک رپورٹ کے مطابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے 40 ایسے منصوبوں کو ’انتہائی ترجیحی فہرست‘ میں شامل رکھا ہے جو انتخابات سے پہلے پہلے مکمل ہوں گے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ان منصوبوں میں سے 60 فیصد ایسے ہیں جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ لاہور سدرن رنگ روڑ، شاہدرہ فلائی اوور، بابو صابو فلائی اوور، اکبر چوک فلائی اوور اور کیولری گرانؤنڈ فلائی اوور سمیت درجنوں منصوبے ایسے ہیں جن پر تین شفٹوں میں کام ہو رہا ہے۔
انتہائی ترجیحی فہرست کے ان منصوبوں کے کام کی رفتار اور دیگر معاملات نگراں وزیراعلیٰ کی واچ لسٹ میں ہیں جہاں وہ ہفتے میں ایک سائٹ پر جا کر خود معائنہ بھی کرتے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق صوبوں کے اندر بھی مختلف شہروں اور علاقوں کے لیے مساوی وسائل کی تقسیم کا کوئی نظام ہونا چاہیے۔
 سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ ’ایک بات تو یہ ہے کہ لاہور کی اہمیت اور اس کی آبادی کے لحاظ سے جو کچھ یہاں لگ رہا ہے وہ بھی نا کافی ہے۔ اور جہاں تک وسائل کی منصفانہ تقسیم کا سوال ہے تو میرے خیال میں این ایف سی ایوارڈ  کی طرز کا میکنزم صوبوں کے اندر بھی ہونا چاہیے تاکہ جتنے بھی وسائل ہیں وہ اضلاع یا ڈویژنز کی سطح پر استعمال ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عثمان بزدار کے دور میں تو لاہور کے سارے کام ہی روک دیے گئے تھے تو لاہور نے ایسے ادوار بھی دیکھے ہیں جب اسے نظر انداز کیا گیا۔‘

انتہائی ترجیحی منصوبے کون کون سے ہیں؟

لاہور میں جن منصوبوں پر دن رات کام ہو رہا ہے، ان میں پنجاب کے 20 ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق  ملتان کا نشتر ہسپتال، ڈی جی خان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی اور سیالکوٹ کا علامہ اقبال ہسپتال وہ ہسپتال ہیں جو لاہور کے علاوہ نگراں وزیراعلیٰ کی انتہائی ترجیحی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔
جبکہ بڑے منصوبوں میں ملتان میں ایک فلائی اوور اور گوجرانولہ کو لاہور سیالکوٹ موٹروے سے منسلک کرنے جیسے بڑے منصوبے شامل ہیں جو لاہور کے علاوہ اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پنجاب کے نگران وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈیویلمنٹ بلال افضل سے جب پوچھا گیا کہ موجودہ حکومت کی ترجیح لاہور ہی کیوں ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یہ تأثر درست نہیں ہے۔ ’محسن نقوی کے بارے میں یہ کہنا کہ ان کی ترجیح صرف لاہور ہے، یہ سراسر غلط ہے۔ جس انتہائی ترجیحی فہرست کی آپ بات کر رہے ہیں یہ وہ منصوبے ہیں جو مختصر وقت میں مکمل ہو سکتے تھے۔‘
’ہماری حکومت صرف تین مہینے کے لیے آئی تھی۔ تو اس مختصر وقت میں ایسے منصوبوں کی نگراں وزیراعلیٰ کی انتہائی ترجیحی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جن پر تین شفٹوں میں کام کیا جانا تھا اور جن کے مکمل ہونے کے چانسز زیادہ تھے‘
انہوں نے بتایا کہ ’محسن نقوی صرف لاہور کے وزیر اعلیٰ نہیں ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پورے صوبے میں ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز کو ملانے والی 137 سڑکوں کی مرمت کی گئی ہے۔ نشتر ہسپتال کی اپ گریڈیشن جو کہ 2014 سے لٹکی ہوئی تھی، اس کو انتہائی قلیل مدت میں پورا کیا گیا ہے۔‘

’سدرن رِنگ روڑ کا فائدہ دیگر شہروں کو ہو گا‘

بلال افضل نے مزید کہا ’جن ہسپتالوں کے نام فہرست میں آئے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقیوں میں کام نہیں ہو رہا۔ کام ہر جگہ شروع ہے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ فہرست والے وہ پراجیکٹ ہیں جن پر کام جلدی مکمل ہونے کی توقع تھی۔ اس میں اگر لاہور کے زیادہ منصوبے ہیں تو محض ایک اتفاق ہی ہو سکتا ہے‘
نگران وزیر بلال افضل کے مطابق لاہور کا سدرن رنگ روڑ بنیادی طور پر جنوبی پنجاب کو لاہور سے منسلک کرنے کا منصوبہ ہے اور اس کا فائدہ لاہور کو کم دوسرے شہروں کو زیادہ ہو گا۔
خیال رہے اس منصوبے پر 18 ارب روپے لاگت آئے گی جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق موجودہ نگران حکومت تقریبا تین سو ارب کے ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔

شیئر: