Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ’تخلیقی سواری‘

کچھ لوگ محض خواب دیکھتے ہیں اور کچھ اُن کی تعبیر پانے کی جستجو کرتے ہیں مگر کچھ دیوانے ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوابوں کی تعبیر پا کر ایک نیا خواب دیکھتے ہیں، ایک نئی اُمید پالتے ہیں اور ان کی یہ جدّوجہد جاری رہتی ہے۔
زندگی چند خوابوں اور کچھ امیدوں کے سوا ہے ہی کیا اور  جب جدوجہد کی جائے تو آپ کے لیے زندگی کا مفہوم ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔
سیدہ بصارت کاظم نے 45 برس قبل ایک خواب دیکھا جو تخلیقی سواری کی صورت میں اپنی تعبیر پا چکا ہے اور اب یہ تخلیقی سواری بہت سی خواتین کے اپنا کاروبار شروع کرنے کے خواب کی تعبیر پانے میں ان کی مدد کر رہی ہے۔
یہ دراصل خواتین کو ہُنرمند بنانے کا ایک منفرد تصوّر ہے جس کے لیے پیلے رنگ کی مختلف گاڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں جن میں ایک بڑی بس اور متعدد رکشوں سمیت موٹر سائیکلیں بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کو نہایت ہی خوبصورتی سے آراستہ کیا گیا ہے، بس میں مختلف ہنر سکھانے کا سامان اور کتابیں رکھی گئی ہیں۔
سیدہ بصارت کاظم نے  1978میں لاہور کے علاقے گلبرگ  ٹو سے اس منصوبے کا آغاز کیا جسے انہوں نے ’ہوبی کلب‘ کا نام دیا۔ اس کلب کے زیراہتمام مختلف سرکاری سکولوں کی طالبات کو الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کے تحت تکنیکی کورسز کروائے جاتے تھے جن کی مدت تین ماہ ہوتی تھی۔  
ان دنوں معروف شاعر ناصر کاظمی کی پوتی آمنہ کاظمی الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔

پراجیکٹ کے تحت پیلے رنگ کی مختلف گاڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں جن میں بس رکشے اور موٹر سائیکلیں شامل ہیں (فوٹو: اُردو نیوز)

آمنہ کاظمی نے الف  لیلیٰ بک بس سوسائٹی کے حوالے سے اُردو نیوز کو بتایا کہ سیدہ بصارت کاظم کئی دہائیوں سے اس منفرد کام کے ساتھ منسلک ہیں۔ ’انہوں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے بل پر بچیوں سمیت خواتین کو ہنر سکھا کر روزگار فراہم کیا۔‘

تخلیقی سواری کی شروعات

آمنہ کاظمی بتاتی ہیں کہ ’تخلیقی سواری کا مقصد لاہور کی متوسط طبقے کی مختلف آبادیوں میں جا کر خواتین کو ان کے گھروں کی دہلیز پر ہی ہنر سیکھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔‘
تخلیقی سواری نے کورونا وبا کے دنوں میں اپنے ان پراجیکٹس کو ’موبائل پراجیکٹس‘ میں تبدیل کر دیا۔ ان کی سوسائٹی کو حکومت پنجاب کی جانب سے بچوں کی نقل و حمل کے لیے ایک بس عطیہ کی گئی تھی جسے انہوں نے ایک بڑی تخلیقی سواری میں تبدیل کیا ہے۔
آمنہ کاظمی بتاتی ہیں کہ ’اس بس کو ہم نے ہنر سکھانے کی لیبارٹری میں تبدیل کر دیا ہے جہاں اب ہم خواتین اور بچیوں کو آرٹ، کرافٹ، کمپیوٹر، الیکٹرانکس، فوٹوگرافی اور کیچن گارڈننگ سکھاتے ہیں۔‘
ان دنوں  پیلے رنگ کی سب سے بڑی تخلیقی سواری یعنی بس لاہور کی بارشوں کی وجہ سے زمین میں دھنس گئی ہے لیکن تخلیقی سواری کے ذریعے ہنر سکھانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے کیونکہ الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کے پاس اس بڑی بس کے علاوہ کئی رکشے اور موٹل سائیکلیں بھی ہیں اور یوں خواتین کے لئے تخلیقی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔

سیدہ بصارت کاظم نے 1978میں لاہور کے علاقے گلبرگ  ٹو سے اس منصوبے کا آغاز کیا جسے انہوں نے ’ہوبی کلب‘ کا نام دیا (فوٹو: اُردو نیوز)

اُردو نیوز کی ٹیم نے بھی اسی طرح ایک رکشے میں سوار ہو کر اس مقام کا رُخ کیا جہاں پہلے سے ہی خواتین اور ان کے ساتھ آئے بچے تخلیقی سواری کا انتظار کررہے تھے۔ الفٰ لیلیٰ بک بس سوسائٹی کی تجربہ کار انسٹرکٹر نیلم جلال اردو نیوز کی ٹیم کے  ہمراہ تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم ہفتے کے پانچ دن اسی طرح  مختلف  آبادیوں میں جا کر اپنا سامان سجاتے ہیں جیسے کوئی نمائش ہو رہی ہو اور ہمارے ساتھ رجسٹرڈ  خواتین یہاں آ کر کام سیکھتی ہیں۔‘
نیلم جلال نے بتایا کہ ’ہمارے ساتھ جو بچیاں کام سیکھ رہی ہیں ان کو اب کام  بھی ملنا شروع ہوگیا ہے، کچھ لڑکیوں کو ہم خود بھی پراجیکٹس دلواتے ہیں اور ان پر جو بھی منافع ہوتا ہے وہ انہی لڑکیوں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی گزر بسر ممکن بنا سکیں یا پھر اپنا روزگار  شروع کر سکیں۔‘
مدیحہ انہی خواتین میں  سے ایک ہیں جو گزشتہ کئی دنوں سے  تخلیقی سواری کی انسٹرکرز سے ہنر سیکھ رہی ہیں۔
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’اس سے اچھا اور کیا ہو سکتا ہے کہ تخلیقی سواری خود ہمارے پاس آتی ہے اور ہمیں کام سکھاتی ہے۔‘
اس وقت یہ تخلیقی سواریاں لاہور میں جی او آر ٹو ، کنال پارک،  نشاط کالونی اور کبوتر پورہ سمیت مختلف آبادیوں میں جاتی ہیں۔
آمنہ کاظمی نے کورسز کی مدت اور طریقۂ کار کے متعلق اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ان کورسز میں  پہلے تین ماہ ہم ان خواتین کو مختلف ہنر سکھاتے ہیں اور پھر آخری تین ماہ تک انہیں کاروبار کا ماڈل سمجھاتے ہیں۔ خواتین کی اپنا کاروبار شروع کرنے میں مدد بھی کی جاتی ہے۔’
ان کے بقول ’ہم اس وقت تک ان خواتین کا ساتھ دیتے ہیں جب تک  یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو جاتیں۔ بہت سی خواتین نے تو اپنا کاروبار بھی شروع کر لیا ہے جبکہ کئی خواتین کو ہم نے اپنے پاس کام پر رکھا ہوا ہے۔‘

آمنہ کاظمی بتاتی ہیں کہ ’تخلیقی سواری کا مقصد خواتین کو ان کے گھروں کی دہلیز پر ہی ہنر سیکھنے کے مواقع فراہم کرنا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

’ایک شرمیلی لڑکی کو بااعتماد بنا دیا‘
آمنہ کاظمی کے اس دعوے کی تصدیق کے لیے اُردو نیوز نے الف لیلیٰ بک بس سوسائٹی کی ٹیم سے گفتگو کی۔ اس دوران ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی آدھی سے زیادہ ٹیم انہی خواتین پر مشتمل ہے جو  تخلیقی سواری  سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ کئی ٹیم ممبرز صبح ان کے ساتھ کام کرتے ہیں جب کہ شام کے وقت دوسری جگہ کام پر جاتے ہیں حتیٰ کہ بہت سی ارکان تو پڑھائی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ثناء عثمان اس کی واضح مثال ہیں جنہوں نے تخلیقی سواری سے کام سیکھا اور پھر انہی کے ساتھ بچوں کو پڑھایا۔ آج ثناء عثمان  یہاں بچوں کی لائبریری میں بچوں کو سنبھالتی ہیں اور ایف سی کالج کی لائبریرین بھی ہیں۔
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’میں ایک شرمیلی لڑکی تھی۔ مجھے  خود پر اعتماد نہیں تھا، میرے لیے لوگوں سے بات کرنا بھی مشکل تھا لیکن یہاں آنے کے بعد مجھے خود اعتمادی ملی اور آج میں دو جگہ کام کر رہی ہوں۔‘
تخلیقی سواری کے باعث بہت سی خواتین کے تشنہ خوابوں کو پورا ہونے کا ایک راستہ ملا، آج بہت سی خواتین معاشی طور پر خودمحتار ہیں اور اپنے علاوہ اپنے خاندان کی خواتین کے لئے بھی ایک روشن مثال ثابت ہو رہی ہیں جس کی ایک وجہ تخلیقی سواری بھی ہے جو اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

شیئر: