Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی گرفتاری سے الیکشن کی تیاری تک: سال 2023 کے اہم فیصلے

عام انتخابات اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری آج تک مباحث کا حصہ ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سال 2023 سیاسی اور عدالتی سمیت کئی حوالوں سے پاکستان کے لیے اہم رہا۔ ایک طرف اگر رواں برس بڑے سیاسی فیصلے ہوئے تو دوسری طرف عدالت عظمیٰ بھی کئی حوالوں سے موضوع بحث بنی رہی۔
2023 کے دوران عمران خان کی نا اہلی، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات، دو بڑے ترمیمی بلز، حکومتی سطح پر سپیشل انویسٹمنٹ فسیلٹیشن کونسل کا قیام اور نگراں حکومت کا اعلان اہم فیصلے رہے۔
عام انتخابات اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری آج تک مباحث کا حصہ ہیں۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ ان تمام فیصلوں سے پاکستان مجموعی طور پر کس حد تک متاثر ہوا؟

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات

پاکستان میں رواں برس کے دو مہینے ایسے تھے جن کے دوران بڑے فیصلے لیے گئے اور جن کی وجہ سے کسی حد تک معیشت سمیت سیاسی منظر نامے پر اثرات مرتب ہوئے۔
اپریل اور اگست میں اہم فیصلے کیے گئے تاہم جولائی میں الیکشن ترمیمی بل سمیت غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے انخلا کے فیصلے بھی سیاسی و خارجہ تعلقات کے تناظر میں اہم رہے۔ اپریل کے شروع میں سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے التوا سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے آٹھ اکتوبر کو الیکشن کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت عظمیٰ نے کمیشن کو مذکورہ صوبوں میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے لیے انتخابات کرانے کا شیڈول جاری کر دیا۔ تاہم بعد میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹس میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ اس وقت کی حکومت فنڈز جاری نہیں کر رہی۔
عدالت کے حکم پر 14 مئی کو انتخابات منعقد کرانے کی تاریخ میں جب دو ہفتوں سے بھی کم وقت رہ گیا تو تین مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالت کے چار اپریل کے حکم پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔
اس وقت کی حکومت نے کہا تھا کہ ملک کے دیگر حصوں سے الگ صرف پنجاب اور کے پی میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔

 الیکشن ایکٹ ترمیمی بل

اسی طرح الیکشن کے حوالے سے بڑا فیصلہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیمی بل کے صورت میں سامنے آیا۔

پانچ اگست کو توشہ خانہ کیس میں تین سال قید کی سزا کے بعد عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کی پارلیمان نے جولائی میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کیا۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کی منظوری دی گئی۔ 
نگراں حکومت سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شق 230 کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ اس کے تحت نگراں حکومت کو روزہ مرہ کے ساتھ ہنگامی نوعیت کے معاملات کو دیکھنے کا اختیار دیا گیا۔ اس قانون سازی کے تحت نگراں حکومت کو بااختیار بنایا گیا کہ وہ پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی جبکہ نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدے کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔

عام انتخابات کا اعلان

نومبر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے حکم پر صدر پاکستان عارف علوی سے مشاوت کے بعد ملک میں عام انتخابات کے لیے آٹھ فروری کی تاریخ دے دی۔
پنجاب اور خیبر پختونخوا انتخابات اور الیکشن ترمیمی کے حوالے سے صحافی و تجزیہ کار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ الیکشن کے حوالے سے ہونے والے فیصلوں نے عوام کو مایوس کیا۔
’ان فیصلوں سے اداروں کی عدم دلچسپی اور نااہلی ثابت ہوئی۔ جمہوری نظام کی بنیادی شرط انتخابات کا بروقت منعقد ہونا ضروی ہوتا ہے لیکن ریاست پاکستان اس بنیادی شرط کو پورا نہ کر سکی۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری نظام کو نقصان پہنچا۔‘

 پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ

اپریل ہی کے مہینے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا قانون پاس کیا گیا۔ یہ قانون پی ڈی ایم کی حکومت نے پارلیمان سے منظور کرایا تھا کیونکہ حکومت کواعتراض تھا کہ سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال اپنی مرضی کا بینچ بناتے ہیں جس میں مخصوص ججز شامل ہوتے ہیں۔
اس ایکٹ کے تحت بینچز کی تشکیل صرف چیف جسٹس نہیں کریں گے بلکہ وہ دو سینیئر ترین ججوں سے مشورے کے بعد ہی بینچ بنائیں گے۔
اس قانون کے خلاف مختلف درخواستیں دائر کی گئی تھیں جس پر سپریم کورٹ نے اس قانون پر عملدرآمد روک دیا تھا۔
تاہم اکتوبر میں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے قانون کے خلاف درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے اس کو درست قرار دے دیا۔ اس قانون کے تحت ازخود نوٹس پر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا۔

اپریل ہی کے مہینے میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا قانون  پاس کیا گیا۔ (فوٹو: پی ٹی وی نیوز)

یہ فیصلہ قاضی فائر عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کے بعد بنائے گئے فل کورٹ بینج نے دیا تھا۔
اس قانون کے تحت اب آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تمام مقدمات کے لیے بینچ چیف جسٹس کے علاوہ سپریم کورٹ کے دیگر دو سینیئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیا کرے گی۔
سینیئر تجزیہ کار سلمان عابد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے سو موٹو اختیارات پر بحث کافی عرصے سے چل رہی تھی۔
’بار بار مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ سوموٹو لینے کا اختیار سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کے ساتھ مشروط کیا جائے، کسی فرد واحد کے پاس یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے، اس لیے یہ ایک بہترین فیصلہ تھا۔‘

عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی

اگست کا مہینہ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے اہم رہا۔ اس سے قبل عمران خان کو مئی میں گرفتار کیا گیا تاہم سپریم کورٹ نے اگلے دن ان کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔
لیکن پانچ اگست کو توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے تین سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کے بعد عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کیا گیا۔
گوکہ اس کیس میں عمران خان کی ضمانت ہو چکی ہے لیکن دیگر کیسز کی وجہ سے وہ اب تک جیل میں ہیں۔

عمران خان کو مئی میں گرفتار کیا گیا تاہم سپریم کورٹ نے اگلے دن ان کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار سلمان عابد کہتے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی ان کو 2024 کے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے عمل میں لائی گئی۔
’بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کسی نہ کسی صورت انتخابات میں حصہ لے گی لیکن عمران خان پر عائد پابندی برقرار رہے گی۔ اس فیصلے کے اثرات پاکستان پر منفی پیرائے میں مرتب ہوں گے کیونکہ ماضی میں جب بھی کسی بھی لیڈر کو انتظامی یا قانونی بنیادوں پر انتخابی میدان سے باہر نکالا گیا اس کے نتائج  مثبت نہیں نکلے۔‘

 نگران سیٹ اپ

اگست کے ہی مہینے میں پاکستان میں نگران سیٹ اپ کا اعلان ہوا۔ 12 اگست کو قائد ایوان شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے درمیان نگراں وزیراعظم کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کے نام پر اتفاق ہوا۔ 14 اگست کو انوار الحق کاکڑ نے ملک کے آٹھویں نگراں وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
دو روز بعد نگراں وزیر اعظم نے 16 رکنی نگران کابینہ تشکیل دی۔ نگراں وزیراعظم کے آتے ہی عام انتخابات کے حوالے سے چہ مگوئیاں ہونے لگی تاہم انوار الحق کاکڑ 90 دنوں میں عام انتخابات منعقد کرانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
اس حوالے سے سلمان عابد کہتے ہیں کہ پاکستان میں نگراں حکومتوں کے ذریعے شفاف انتخابات کرانے کا تجربہ ناکام ہوتا آرہا ہے کیونکہ نگراں حکومتیں کبھی بھی غیر جانبدار نہیں ہوتی۔

سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل

اکتوبر اور جون کے مہینے معاشی فیصلوں کے لیے اہم رہے۔ ایک طرف اگر غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے انخلا کا فیصلہ کیا گیا تو دوسری طرف غیرملکی سرمایہ کاری سے متعلق بڑے فیصلے سامنے آئے۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف نے مشرق وسطیٰ کے ممالک سے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی اس کا حصہ بنایا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل‘بنائی گئی جس کا مقصد دفاع، زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں خلیجی ممالک سے سرمایہ کاری کے عمل کو بہتر بنانا ہے۔ وزیراعظم نے اس کونسل کے تحت تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جن میں ایپکس کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں جبکہ آرمی چیف بھی اس کا حصہ ہے۔
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستانی نظام میں سرمایہ کاری بہت زیادہ اجازت ناموں کی وجہ سے کہیں پھنس جاتی تھی۔‘

شہباز شریف نے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل بنائی۔ (فوٹو: اے پی پی)

ان کے بقول ’ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اس نظام میں سرمایہ کاری سے متعلق تمام رکاوٹیں ختم کر دیتے یا کوئی ایسی کونسل بنائی جاتی جس کی بدولت آنے والی سرمایہ کاری کی سہولت کاری ہوتی۔ اس میں وقت ضرور لگ سکتا ہے لیکن اس کے لیے کونسل بنانا ہی آخری آپشن تھا۔ یہ دراصل پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری کے لیے سہولت کاری کا کونسل ہے جو تمام پیچیدگیوں کو ختم کر کے سرمایہ کاری کو آسان بناتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کونسل سے پاکستان کو معاشی حوالوں سے فوائد ضرور حاصل ہوں گے لیکن سرمایہ کاری کتنی ہو گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ سرمایہ کاری ملک کی عمومی صورت حال کو دیکھتے  ہوئے کی جاتی ہے۔

 غیر قانونی افغان شہریوں کا انخلا

حکومت پاکستان نے اکتوبر میں غیر قانونی افغان شہریوں کی رضا کارانہ افغانستان واپسی کے لیے 31 اکتوبر کی ڈیڈلائن مقرر کی۔
31 اکتوبر کے بعد ملک بھر میں غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی لحاظ علی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے غیر قانونی افغان شہریوں کے انخلا کا فیصلہ ’بہت مجبوری‘ کی حالت میں کیا گیا۔

31 اکتوبر کے بعد ملک بھر میں غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کے بقول ’اس فیصلے کو سمجھنے کے لیے ہمیں کافی پیچھے جانا ہوگا۔ گذشتہ 10 سالوں کے دوران دونوں ممالک میں عوامی سطح پر سوشل میڈیا کی وجہ سے تلخیاں بڑھ گئیں تھیں جس میں سب سے بڑا ہاتھ یورپ میں مقیم ان افغان باشندوں کا ہے جو پاکستان کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ماضی قریب میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ ’پاکستان کی خواہش تھی کہ افغان طالبان کے آنے سے دونوں جانب تعلقات مثبت پیرائے میں استوار ہوں گے لیکن وہ مزید خراب ہوگئے کیونکہ افغان طالبان بطور حکومتی ڈھانچہ سفارتی تعلقات کے حوالے سے ناتجربہ کار ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان اس بات سے پریشان تھا کہ جس طرح افغان سرزمین اور افغان باشندے ملک کے خلاف استعمال ہوتے ہیں، یہ سلسلہ اب بند ہو جائے۔
’تاہم پاکستان کے پاس اس حوالے سے مؤثر حکمت عملی نہیں تھی، پہلے بتایا گیا کہ 17 لاکھ غیر قانونی افغان باشندے پاکستان میں مقیم ہیں، لیکن اب چار لاکھ  کے لگ بھگ غیر قانونی افغان باشندوں کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ باقی کہاں گئے؟ اس کے علاوہ جس طرح ان کو نکالا گیا وہ بھی درست نہیں تھا، اس لیے یہ فیصلہ دونوں جانب مزید تلخیوں کا باعث بنے گا۔

شیئر: