Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والد اور والدہ دونوں میرے رول ماڈل ہیں، شبانہ اخلاق

رمضان کریم میں امی بہت یاد آتی ہیں، اسی ماہ وہ ہمیں چھوڑ کر آخری منزل کو روانہ ہو گئی تھیں، ’’ہوا کے دوش‘‘ پر گفتگو
* * * * *تسنیم امجد۔ریاض* * * * *
دیس اور پردیس ایک ہی کرۂ ارض پر پائے جانے والے ایسے خطے ہیں جو ایک دوسرے سے دور، ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں اس کے باوجود دونوں کے مابین نہ ٹوٹنے والا ناتہ قائم رہتا ہے اس کا سبب ان خطوں میں بسنے وا لے انسان ہوتے ہیں جو انہیں باہم مربوط رکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص پردیس میں ہوتا ہے تو اسے وطن کی آزادیاں یاد آتی ہیں اور وطن میں ہوتا ہے تو پردیس کی پابندیاں بھاتی ہیں۔ پردیس میں ہوتا ہے تو وطن کی ہوائیں اورکالی گھٹائیں یاد آتی ہیں اور وطن جاتا ہے تو پردیس کی ادائیں، خالص دوائیں یاد آتی ہیں۔دیس میں رہ کر پردیس میں سہولتوں کی فراوانی یاد آتی ہے تو پردیس میں رہتے ہوئے وطن میں پانی، گیس اور بجلی کی چھیڑ خانی یادآتی ہے۔
وطن میں ہوں تواپنوں سے دور رہنایاد آیاہے اورپردیس میں ہوں تواپنوں کے ظلم سہنا یاد آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے میں ا نسان کرے تو کیا کرے؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ جو لوگ اپنے روابط سے، اپنے میل جول سے ، اپنے مشاغل سے اپنے ماحول سے اثبات کشید کرتے ہیں وہ خواہ پردیس میں ہوں یا وطن میں، ہر جگہ اور ہر حال میں خوش رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی کامیابیوں سے ہمکنار ہوجاتی ہے۔ شبانہ اخالاق بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جن سے اردونیوز نے ’’ہوا کے دوش پر‘‘ ملاقات کی۔
حقیقت ہے کہ ہوا کے دوش پر اردو نیوز کا ایک ایسا پلیٹ فا رم ہے جوحا ل ، ما ضی قریب اور کبھی ما ضی بعید میں پہنچا دیتا ہے ۔ دوسروں کے تجربات و واقعات پڑ ھتے ہوئے لمحے بھر کو یو ں محسوس ہو تا ہے کہ ہم بھی انہی سے گز رے ہیں اور پھر یہ یقین ہو جا تا ہے کہ پر دیس صرف ایک احساس کا نام ہے ورنہ اللہ کریم کی بنا ئی ہوئی یہ زمین سا ری کی سا ری یکسا ں ہے اور اس پر بسنے والے بھی یکساں سوچ کے ما لک ہیں ۔
آج ہوا کے دوش پر ہماری مہمان شبانہ اخلاق سے گفتگو کا سلسلہ خاصا دلچسپ رہا کہنے لگیں: سب سے پہلے تو اردو نیوز کو اس کی خد مات پر سلوٹ کر تی ہوں ۔ یہ جریدہ اردو کمیو نٹی کی خدمت، انہیں یکجا کر نے اور لکھنے والوں کو موا قع کی فرا ہمی کا فر یضہ جس خوش اسلو بی سے نبھا رہا ہے اس پر ایک خوبصورت تحر یر یاد آئی: کسی بھی زبان کے زندہ رہنے کے لئے اسکی تحریر کا زندہ رہنا ایک لا ز می امر ہے ۔اردو ہما ری پہچا ن ہے اور ثقا فت کا ایک اہم جز ہے۔استاد داغ نے کیا خوب کہا تھاکہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جا نتے ہیں داغ
سارے جہا ں میں دھو م ہما ری زبا ں کی ہے
محتر مہ شبانہ اخلا ق ایک زندہ دل خا تو ن ہیں کہنے لگیں میرے والدین کا تعلق ہزارہ ڈویژن یعنی ما نسہرہ سے ہے جو بعد میں اپنی اولاد کی تعلیم کے لئے کراچی شفٹ ہو گئے ۔میرے والد محمد خور شید علوی اور والدہ وحیدہ خا تو ن، دونوں ہی ہمارے لئے رول ماڈل ہیں۔ والدایک ملٹی نیشنل دوا سازکمپنی میں اعلیٰ عہدے پرفائز رہے ۔ ’’ایچ او ڈی‘‘ کی حیثیت سے ریٹا ئر ہوئے۔تصنیف و تا لیف کا ذوق رکھتے ہیں اور اس میں خود کو مشغول رکھتے ہیں۔ امسال ان کی 50ویں کتاب شائع ہوئی ہے۔ اس حوالے سے وہ گو لڈن جو بلی کے حقدار ٹھہرتے ہی۔ میرے والد کی کامیابیو ں کے پس پردہ انکی شریک حیات تھیں جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں ۔ اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہو ئے شبانہ اخلاق کی آ واز بھرآئی ۔ کہنے لگیں کہ رمضان کریم میں مجھے امی بہت یاد آتی ہیں، اسی ماہ میں ہماری امی زندگی کے سفر میں ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اپنی آخری منزل کو روانہ ہو گئی تھیں۔پڑھا اور سنا یہی تھا کہ وقت بہت بڑا مر ہم ہے لیکن شاید بعض رشتو ں سے دوری سے لگنے والے زخم ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے آج تک کوئی مرہم در یا فت نہیں ہو سکا ۔ زندگی ایک امتحا ن ہے۔شبا نہ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بو لیں:
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
 ہر گھڑ ی درد کے پیو ند لگے رہتے ہیں
 تو نے چھیڑا ہے تو کچھ اور بکھر جا ئے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جا ئے گی
ماں اس کائنا ت کا سب سے حَسین رشتہ ہے جس کا کو ئی نعم البدل نہیں۔اپنی امی کے بارے میں سوچتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ وہ مہربا ن ہستی شاید اپنی ذمہ داریا ں نہا یت احسن طور پوری کر نے کی منتظر تھی۔انہوں نے چند ابتدائی جما عتیں ہی پاس کر رکھی تھیں لیکن ان کا رکھ رکھائو اور انگر یزی میں با محا ورہ گفتگو کسی’’ پی ایچ ڈی‘‘ سے کم نہ تھی۔اس زما نے میں ما نسہرہ میں لڑ کیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جا تی تھی۔ امی کو اپنے تعلیم یافتہ نہ ہو نے کا بہت ملا ل تھا جس کا وہ ذ کر اکثر کر تی تھیں۔
اپنی اس تشنگی کو وہ اپنی اولا د میں پو را کر نا چا ہتی تھیںاسی لئے وہ ہمیں پڑھائی پرزیادہ سے زیادہ تو جہ کی تلقین کر تی تھیں۔وہ ہر فن میں مہارت رکھتی تھیں۔وضع وضع کے کھانے پکانا ،صرف چھری اور قینچی کی مدد سے سبزیوں و پھلوں کو مختلف شکلوں میں کا ٹنا ان کا شوق تھا۔آجکل تو مختلف شکلوں کے کٹر ملنے لگے ہیں لیکن انہیں کسی کٹر کی ضرورت نہ تھی ۔گھر کی صفائی میں بھی ان کا جواب نہ تھا ۔کبھی بھی کسی جگہ انگلی کی پور سے صفائی پر کھی جا سکتی تھی مجال ہے کہ ذرا سی بھی مٹی نظر آئے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ما حول شخصیت کی نشو و نما میں نہایت اہم کر دا ر ادا کرتا ہے۔ماں نے ہمیں بہتر ین ما حو ل مہیا کر نے میں کو ئی کسر نہ چھو ڑی ۔
آج ہم سب بہن بھا ئی جس جس مقام پر ہیں ،سب امی کی کا وشوں اور دعا ئو ں کا نتیجہ ہے ۔ماں کے بغیر گھر پر دیس بن جا تا ہے۔وہ ایک منجھی ہو ئی گر ہستن تھیں ۔میں اکثر اپنے گرد ان جیسی شخصیت ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں مگر نہیں ڈھو نڈ پا تی ۔میں ماں جیسی ہستی کے لئے کہنا چاہو ں گی کہ:
  وہ میرے ان کہے جذ بو ں کی راز داں اماں
وہ میری محرم دل مو نس و مہر با ں اما ں
میں ہر احساس کی منزل پہ کھو جتی ہو ں تجھے
میر ے وجو د میں گم ہو گئی کہا ں اما ں
محتر مہ شبانہ نے ہوا کے دوش پہ اپنے والد محتر م سے بھی رابطہ کیا۔وہ بولے بیٹی میری طرف سے اردو نیوز کی تمام انتظامیہ کو دست بستہ سلا م عر ض کر دیجئے۔انہوں نے کہا کہ میری شریک حیات کی جدا ئی نے مجھے زندگی کے نئے راستوں سے آشنا کیا ۔ ہم میاں بیوی کی ابتدا ئی عمر توذمہ داریا ں نبھا تے گزر گئی۔ اب وقت آیا تھا کہ کچھ ان کی سنتے ،کچھ اپنی سناتے لیکن اس نے جا نے میںپہل کر دی۔میری شریک حیات ہمہ جہت شخصیت کی ما لک تھیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر ایک کو ایک نہ ایک دن اس دنیا سے جا نا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جذبوں ،یا دو ں،مسکرا ہٹوں اور عظمتوں کو مو ت نہیں آیا کر تی۔ یہ سب پا ئندہ رہنے والی چیز یں اور غیر فا نی سر ما یہ ہو تی ہیں :
 دل میں سو ئی ہو ئی یا دو ں کو جگا بھی نہ سکوں
یاد آ جا ئیں اگر وہ تو بھلا بھی نہ سکو ں
ہے قیامت تیرا ملنا بھی ، بچھڑ جا نا بھی
 میں تجھے کھو نہ سکو ں اور تجھے پا بھی نہ سکو ں
ماحول کی سنجید گی کا رخ موڑ نے کے لئے ہم نے شبانہ کی ذاتی زند گی کے با رے میں سوا ل کیا توکہنے لگیں کہ رو شنیوں کے شہر کراچی میں آ نکھ کھو لی ۔تعلیم کے تمام مدارج نہایت اعلی گریڈ ز میں پاس کرتی ہو ئی ہو میو پیتھک کالج کرا چی سے ڈگری حاصل کی پھر لا کالج کراچی ہی سے ایل ایل بی کیا۔اسطرح ماں کی خواہش پو ری کر دی ۔ہم چار بہن بھا ئی ہیں ۔ ہما را خاندان’’ ڈاکٹرز فیملی ‘‘کے نام سے جا نا جا تا ہے ۔میرے بڑے بھا ئی ڈاکٹر محمد نا صر علوی آر می میں میجر ہیں جبکہ بھا بی را بعہ نا صر بھی گا ئینا کا لو جسٹ ہیں ۔ چھو ٹے بھا ئی ڈاکٹر محمد طارق علوی جدہ میں گو ر نمنٹ سیٹ اپ میں خدما ت انجام دے رہے ہیں جبکہ بھا بی ڈا کٹر تبسم طا رق بھی جدہ کے اسپتال میں 2009ء سے 2016ء تک خدمات انجام دیتی رہیں اور خاصی ہر دلعز یز رہیں۔
آجکل کراچی میں ڈاکٹر عتیق رضوی کے ایس آئی یو ای میں اپنی ذمہ داریا ں نبھا رہی ہیں ۔ بہن ثمینہ نا صر نے ایم بی اے کیا۔ اس کے شو ہر نصرا للہ خان ڈپٹی کمشنر ہیں آ جکل ان کی پو سٹنگ فا ٹا ایریا’’پا رہ چنا ر‘‘ میں ہے۔میرے شریک حیات ڈاکٹر محمداخلاق حسین ، ایس ایم سی کے گریجو یٹ ہیں اور آجکل ریڈ یا لو جی کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ہم 2009ء میں مملکت آئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شبانہ اخلاق نے کہا کہ میری شادی غیر خاندان میں ہوئی تھی۔ان کا تعلق آگرہ سے ہے ۔ یہ لوگ مائیگر یٹ کر کے اندرون سندھ آ کر سیٹل ہو گئے تھے ۔شو ہر کی پیدا ئش نواب شاہ کی ہے ۔یہ ما شاء اللہ، چھ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ان کا نمبر پا نچواں ہے۔میں چار جیٹھوں اور ایک دیور کی بھا بی ہو ں ۔ ہماری گفتگو کے دوران شبانہ کے شو ہر بھی تشر یف لے آئے اور ہمارے ساتھ شریکِ گفتگو ہو گئے ۔کہنے لگے کہ پہلے تو بچپن میں والد ین نے نظم و ضبط سکھایا، ساری زندگی اس پر کار بند رہے ، شادی ہوئی تو بیگم نے ہمیں مزید پابند کر دیا۔ہمیں محسوس ہوا ہمہ صفتی میں وہ شبانہ سے کسی طور بھی پیچھے نہیں۔کہنے لگے کہ بزرگو ں سے سنا تھا جو ڑے آسما نو ں پر بنتے ہیں اسے ہم نے سچ پا یا ۔شبا نہ کی ہر دلعزیزی پر میں فخر محسوس کر تا ہو ں۔انہوں نے سسرال میں سب کے دل جیت رکھے ہیں جبکہ ہمارے درمیان کلچر کا فرق تھا ۔
اللہ تعالی نے ہمیں3 اولادوں سے نوا زا ۔ہم دونوںان کی تربیت میں برابر کا حصہ ڈالنے کی کو شش میں رہتے ہیں۔بیٹی مسیرہ قریشی تو میرے بہت قریب ہے جبکہ محمد شبیر قریشی اور محمد مجتبیٰ قریشی ماما کے زیادہ قریب ہیں ۔ بیگم خوب سے خوب تر کی متلاشی رہتی ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے خود اردو نیوز میں طبی موضوعات پر کالم لکھے اور ریڈیو جدہ کی اردو نشریات میں نیو ز کا سٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ شبانہ نے کہا کہ2011ء سے2013ء تک کا عرصہ مجھے کبھی نہیں بھو لے گا ۔ یہ ایک دلچسپ تجر بہ تھا ۔
یہ سلسلہ جاری رہتا لیکن والدہ کی بیما ر ی اور پھر وفات نے ڈپریشن طا ری کر دیا ،کسی کام میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔اب بچے تو جہ چاہتے ہیں اس لئے زیا دہ وقت انہی کو دیتی ہو ں۔ ہم دونوںمیاں بیوی کو ادب سے بھی شغف ہے۔فارغ اوقات میں علامہ اقبال ،فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کو پڑ ھتے ہیں۔مشا عروں میں شوق سے جا تے ہیں ۔شبانہ اخلاق نے کہا کہ میں اپنی پسند میڈیا کے ذریعے شو ہر کے نام کرنا چاہو ں گی:
مشکل ہیں اگر حالات وہاں،دل بیچ آئیں ،جاں دے آئیں
 دل وا لو کو چۂ جا ناں میں،کیا ایسے بھی حالات نہیں
 میدان وفا دربار نہیں ، یا ں نام و نسب کی پو چھ کہاں
عا شق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
 یہ با زی عشق کی با زی ہے،جو چا ہو لگا دو ڈر کیسا
 گر جیت گئے تو کیا کہنا ، ہارے بھی تو با زی مات نہیں
ڈاکٹر اخلاق نے کہا کہ دنیا گلو بل ولیج بن چکی ہے۔ فا صلے قر بتو ں میں بدل رہے ہیں لیکن اس قربت نے جہا ں شعور دیا ہے وہاں مسابقتی رحجا ن نے منفی سوچ کو ہوا دی ہے۔ نمودو نما ئش نے دل کا سکون چھین لیا ہے ۔اسی سے خاندا نو ں اور دوستی کے رشتو ں میں دڑاریں پڑ رہی ہیں۔نمو دو نما ئش اورتعیشا تِ حیات ،خا ندا نی ہو نے کی پہچان بن چکے ہیں ۔ ہم وطن میں ہوں یا وطن سے با ہر،ہر چھو ٹی تقریب پر بھی بے دریغ خرچ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیںجبکہ ہمیں ادراک ہو نا چا ہئے کہ آنے والا دور آج سے مشکل ہو سکتاہے۔ازدواجی زندگی کی گا ڑی کے چا روں پہیو ں کو مل کر کفایت شعا ری اور سادگی کو تر جیح دینی چا ہئے ۔ انہوں نے کہا کہ بیگم کو اشعار نذر کرنے میں بھلا میں پیچھے کیوں رہوں؟
تجھ سے لفظو ں کا نہیں رو ح کا رشتہ ہے میرا
تو میری سا نسو ں میں تحلیل ہے خو شبو کی طر ح
شبانہ اور اخلاق دو نو ں نے کہا کہ میڈیا نے ہمیں مو قع دیا ہے تو اس کے ذریعے ہم اپنے احساسات اور وقت کی اہم ضرورت کا بھی ذکر کرتے چلیں: آج مطالعے کا قحط پڑ چکا ہے ۔آئی ٹی کی سہو لتیں قا بل ستا ئش ہیں لیکن مطا لعے کے انسانی زندگی پر اثرات منفرد ہیں۔ یہ ہمیں رو حانی ، ذہنی ،نفسیاتی اور جذ با تی غذا فرا ہم کر تا ہے۔اکثر یہ عذر پیش کیا جا تا ہے کہ سبھی کچھ گو گل میں مو جو د ہے ، ایک کلک کا فی ہے پھر کتابوں کا بو جھ کیوں اٹھا یا جا ئے۔ کاش یہ حقیقت آشکار ہو جا ئے کہ مطالعہ شخصی حُسن ہے ۔کتاب دوستی جلا بخشتی ہے ۔بچو ں کو مطالعے کی عادت ڈالنا ضروری ہے ۔کتابو ں کا تحفہ دیکر انہیں اس کی اہمیت کا احساس دلانا چاہئے ۔روزانہ گھر میں اخبار آنا بھی ناگزیر ہے ۔

شیئر: