Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں اتوار کو جعلی انتخابات ہوں گے: اپوزیشن لیڈر طارق رحمان

طارق رحمان کو 2004 میں حسینہ واجد پر ہونے والے گرینیڈ حملے کے کیس میں سزا بھی ہوئی تھی. (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش کے جلاوطن اپوزیشن رہنما طارق رحمان نے کہا ہے کہ اتوار کو بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات ’جعلی‘ ہوں گے جن کو شیخ حسینہ واجد کے اقتدرا پر قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادراے اے ایف پی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں طارق رحمان نے اپنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی جانب سے اتوار کو ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا دفاع کیا۔
طارق رحمان بنگلہ دیش کی دو اہم سیاسی خانوادوں میں سے ایک کے سیاسی وارث ہیں۔ دوسرے سیاسی خانوادے کی قیادت موجودہ وزیراعظم حسنہ واجد کر رہی ہیں جس نے 2018 میں طارق رحمان کی والدہ کو جیل میں ڈالنے کے بعد سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے۔
طارق رحمان کی جماعت نے گذشہ سال وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے مہینے پر محیط احتجاجی مہم چلائی تھی جس کے دوران کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ہزاروں بی این پی کے کارکنان گرفتار ہوئے تھے۔
طارق رحمان نے کسی بڑے عالمی ادارے کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں کہا کہ ’یہ مناسب نہیں کہ ان کی جماعت ایک ایسے انتخاب میں حصہ لیں جس کے نتائج پہلے سے طے ہیں۔‘
لندن سے اے ایف پی کو ای میل انٹرویو میں طارق رحمان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش ایک مرتبہ پھر جعلی الیکشن میں جا رہا ہے۔‘
’حسینہ واجد کی زیرنگرانی انتخابات میں حصہ لینا بنگلہ دیشی عوام کی خواہشات کے خلاف ہوگا اور یہ ان لوگوں کی قربانیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا جو جمہوریت کے لیے لڑے، خون دیا اور جانیں قربان کیں۔‘
طارق رحمان نے کہا کہ بی این پی اور ان کے ساتھ بائیکاٹ میں شامل جماعتوں کے خلاف رکاوٹیں حکمران عوامی لیگ نے کھڑی کی ہیں۔
بی این پی کے سربراہ نے الزام لگایا کہ عوامی لیگ نے اپنے امیدواروں کے خلاف اپنے ہی صفوں سے ڈمی اپوزیشن امیدوار کھڑے کیے ہیں تاکہ انتخابات کو جواز بخشا جا سکے۔

طارق رحمان نے کہا کہ بی این پی اور ان کے ساتھ بائیکاٹ میں شامل جماعتوں کے خلاف رکاوٹیں حکمران عوامی لیگ نے کھڑی کی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’یہ ایسا تاثر دے گا جیسا کوئی مقابلہ ہورہا ہے حالانکہ نتائج پہلے سے طے ہیں۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت انتخابات میں ٹرن آوٹ بڑھانے کے لیے لوگوں کو دھمکا رہی ہے کہ اگر انہوں نے عوامی لیگ کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے تو حکومتی مراعات ان سے واپس لیے جائیں گے۔
امریکہ، جس نے 2021 میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بنگلہ دیشی سکیورٹی عہدیداروں  پر پابندیاں لگائی تھی، اور دوسرے ممالک نے اس ہفتے ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
حسینہ واجد جو کہ 2009 سے مسلسل اقتدار میں ہیں نے بار بار کہا ہے کہ انتخابات شفاف ہوں گے۔ تاہم انتخابابی مبصرین کے مطابق ان کی پارٹی کی جانب سے جیتنے والے گذشہ 2014 اور 2018 کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔
شیخ حسینہ نے سوموار کو ایک ریلی سے خطاب میں کہا تھا ’پولنگ ڈے کی صبح جا کر ووٹ ڈالیں تاکہ دنیا جان سکیں کہ ہم کیسے صاف اور شفاف انتخابات کراتے ہیں۔‘
طارق رحمان اور حسینہ واجد کے خاندان نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کے پورے دور ماسوائے 12 سال ملک پر حکومت کی ہے۔
طارق رحمان کے والد، جو کہ سابق آرمی چیف تھے، نے حکومت ملک کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعد سنبھال لی۔ ضیا الرحمان 1981 میں  اپنے قتل تک حکومت کی۔
طارق رحمان کی والدہ بیگم خالدہ ضیا نے جنرل ارشاد کی فوجی حکومت کے خلاف خالدہ ضیا کے ساتھ مل کر جمہوریت بحالی کی جدوجہد میں شریک رہیں۔ تاہم 1990 کی دہائی میں جب دونوں خواتین میں اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی محاذ آرائی شروع ہوئی تو دونوں ایک دوسرے کے شدید مخالف بن گئے۔

گذشہ سال بی این پی نے بڑی بڑی ریلیوں، صنعتی ہڑتال اور سڑکیں بند کرکے حکومت پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

طارق رحمان حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لندن میں جلاوطن ہیں اور اس دوران انہوں نے محدود سرگرمیاں کی جو کہ بنگلہ دیشی اوورسیز کی شیادیوں اور قومی تقریبات میں شرکت تک محدود تھی۔
لیکن 2018 میں ان کی والدہ خالدہ ضیا کو کرپشن کیس میں سزا کے بعد جیل میں ڈالا گیا اور اس وقت وہ ڈھاکہ کے ایک ہسپتال میں عملی نظر بندی گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد سے طارق رحمان نے بنگلہ دیش کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی قیات سنبھال لی اور روزانہ پارٹی لیڈرز کے ساتھ ویڈیو اور ٹیلی فون کانفرنسوں کے ذریعے خطاب کرتے ہیں۔
گذشہ سال بی این پی نے بڑی بڑی ریلیوں، صنعتی ہڑتال اور سڑکیں بند کرکے حکومت پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔
اس مہم کے دوران اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ حسینہ واجد مستعفی ہوکر اقتدار غیرجابندرار نگران حکومت کے سپرد کریں اور اس کی نگرانی میں انتخابات ہو۔
اکتوبر میں ہونے والے ایک ریلی کے دوران تشدد ہوا جس کے بعد بی این پی اور اپوزیشن پر حکومتی کریک ڈاؤن شروع ہوا جس کے دوران اپوزیشن کے 25 ہزار کارکنان گرفتار کیے گئے ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ صرف 11 ہزار گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ حسینہ واجد نے طارق رحمان پر الزام لگایا ہے کہ مظاہروں کے ذریعے وہ تشدد کو ہوا دے رہے ہیں۔ ’ہوسکتا ہے الیکشن کے بعد بی این پی پر پابندی لگ جائے۔‘
حسینہ واجد نے کہا تھا کہ ’ہم انہیں لندن سے احکامات دے کر بنگلی دیش میں لوگوں کو قتل کرنے نہیں دیں گے۔‘
تاہم طارق رحمان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا ہے کہ ان کی جماعت ان ہنگاموں اور تشدد کا ذمہ دار نہیں۔ ’یہ، حکومت اپوزیشن پر کریک ڈاؤن کے جواز کے لیے کر رہی ہے۔‘

Caption

تاہم طارق رحمان پر کرپش کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کے دور حکومت میں کمیشن اور رشوت لیے۔
طارق رحمان کو 2004 میں حسینہ واجد پر ہونے والے گرینیڈ حملے کے کیس میں سزا بھی ہوئی تھی۔ تاہم طارق رحمان کا اصرار ہے کہ مذکورہ کیس سیاسی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اس کیس میں جس پولیس آفیسر نے ان کے خلاف تحقیقات کی ان کو بعد میں حسینہ واجد نے اپنی پارٹی کا ممبر اسمبلی بنایا۔
’مجھے بہت ظالمانہ اور اور کھلم کھلا نشانہ بنایا گیا۔ 15 سال مسلسل حکومت میں رہنے کے باوجود حسینہ کی حکومت نے میرے خلاف کوئی ایک ثبوت سامنے نہیں لاسکی ہے۔‘

شیئر: