Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان کے ٹکٹس، ’ن لیگ کی ترجیح نواب، سردار اور الیکٹیبلز‘

سات دسمبر کو مسلم لیگ ن کی قیادت نے امیدواروں کے انٹرویوز کیے تھے (فوٹو: ٹوئٹر، مسلم لیگ ن)
پاکستان مسلم لیگ ن نے بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی 58 نشستوں پر امیدواروں کو ٹکٹ جاری کر دیے ہیں، جس کے بعد اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کو ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری، سرداروں، نوابوں اور الیکٹ ایبلز کو ترجیح دینے اور کردار و نظریات کو نظرانداز کرنے جیسے الزامات کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق لیگی قیادت نے ٹکٹوں کی تقسیم میں دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کر کے زیادہ تر ایسے الیکٹ ایبلز کو نوازا ہے جو صرف چند ماہ قبل ہی پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔
بدھ کو ن لیگ الیکشن سیل کے چیئرمین اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ’ایکس‘ پر پارٹی کا نوٹیفیکشن شیئر کیا اور بتایا کہ مسلم لیگ ن کے سینٹرل پارلیمانی بورڈ نے بلوچستان سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔
اس فہرست کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے 58 امیدواروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ن لیگ نے بلوچستان سے قومی اسمبلی کی تمام 16 نشستوں پر امیدوار میدان میں اتارے ہیں جبکہ صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے 42 پر امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
ن لیگ نے نو صوبائی نشستوں پر کسی کو اب تک ٹکٹ جاری نہیں کیا جن میں کیچ کی دو جبکہ کوئٹہ، پنجگور، گوادر، سوراب، ڈیرہ بگٹی، جھل مگسی اور اوستہ محمد کی نشستیں شامل ہیں۔
ڈیرہ بگٹی میں پیپلز پارٹی کے سرفراز بگٹی، جھل مگسی کی نشست پر سابق گورنر بلوچستان ذوالفقار مگسی کے بھائی اور بی اے پی کے طارق مگسی اور اوستہ محمد سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بی اے پی سے تعلق رکھنے والے سپیکر صوبائی اسمبلی جان محمد جمالی، کیچ میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے مقابلے میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا گیا۔
جعفرآباد سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 16 میں ن لیگ کے مضبوط امیدوار فائق جمالی کو عدالت نے نااہل قرار دیا ہے۔ اسی طرح جھل مگسی، کچھی، نصیرآباد کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 255 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ نوابزادہ خالد مگسی کے حق میں دستبردار ہو گئے ہیں۔

مسلم لیگ ن کی جانب سے تین جنوری کو بلوچستان کے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

ن لیگ نے کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263 پر محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں سابق سپیکر صوبائی اسمبلی جمال شاہ کاکڑ کو ٹکٹ دیا ہے۔
اسی طرح ن لیگ کے صوبائی صدر جعفر مندوخیل اپنے آبائی ضلع ژوب سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 2 جبکہ ان کے داماد شیخ زرک خان مندوخیل حلقہ پی بی 42 کوئٹہ سٹی سے امیدوار ہوں گے۔
سابق وزیراعلیٰ جام کمال کو لسبیلہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔
اسی طرح مسلم لیگ ن کی جانب سے باپ، بیٹے کو بھی ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔
 الیکشن شیڈول سے کچھ دیر قبل موجودہ نگراں کابینہ سے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے معدنیات کے عہدے سے مستعفی ہونے والے سردار زادہ عمیر محمد حسنی چاغی سے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 32 پر انتخاب لڑیں گے جہاں ان کا مقابلہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی سے ہو گا۔ عمیر محمد حسنی کے والد سابق وفاقی وزیر سردار فتح محمد حسنی حلقہ این اے 260 چاغی نوشکی، خاران اور واشک اورحلقہ  پی بی 34 نوشکی میں ن لیگ کے امیدوار ہیں۔
اس کے علاوہ ن لیگ کی جانب سے شہریوں کو نجی جیلوں اور حبس بے جا میں قید اور قتل کرنے جیسے مقدمات کے باعث متنازع بننے والے سردار عبدالرحمان کھیتران کو پی بی 4 بارکھان موسیٰ خیل کی نشست پر ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔
گوادر کیچ سے قومی اسمبلی کے حلقہ 259 پر میر یعقوب بزنجو کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ تاہم یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ انہوں نے ٹکٹ لینے سے انکار کردیا ہے، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
اسی طرح ن لیگ کے دیگر امیدواروں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں سات کے ناموں کے ساتھ جام، نواب اور نوابزادہ، چار کے ساتھ سردار اور سردارزادہ، 11 کے ساتھ میر اور دو کے ساتھ ملک لکھا گیا ہے یعنی یہ تمام بااثر قبائلی شخصیات ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو صرف ڈیڑھ ماہ قبل میاں نواز شریف ، شہباز شریف اور مریم نواز کے دورہ کوئٹہ کے موقع پر ن لیگ میں شامل ہوئے تھے۔

 

اسی نکتے پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بحث جاری ہے۔
وقار انگاریہ نے لکھا کہ کہ ’ن لیگ نے بلوچستان میں سرداروں اور نوابوں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ مضحکہ خیز طور پر سردار کھیتران پی بی چار سے الیکشن لڑیں گے جو مبینہ طور پر نوکروں کے قتل اور تشدد کے الزام میں مہینوں سے سرخیوں میں تھے۔‘
انہوں نے صوبائی وزیر کے عہدوں پر رہنے والے کئی دیگر امیدواروں کے نام لے کر کہا کہ ان پر اپنے اضلاع ڈبونے کا الزام ہے۔
وقار انگاریہ نے سوال اٹھایا کہ ’پھر بتائیں کہ اگر ریاست، سیاسی جماعت اور انجینئرنگ نہیں تو پھر سرداروں کو اقتدار کون دیتا ہے؟
کوئٹہ میں گذشتہ تین دہائیوں سے ن لیگ سے وابستہ رہنے والے اسلم رند کہتے ہیں کہ ’ٹکٹوں کی تقسیم میں دیرینہ کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا۔ چند ایک کے علاوہ سارے ٹکٹ ایسے لوگوں کو دیے گئے ہیں جو چند ماہ یا چند سال پہلے پارٹی میں شامل ہوئے اور جنہوں نے مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ دیا اور قیادت کے ساتھ کھڑے رہے ان کے بجائے سرداروں، نوابوں اور پیراشوٹرز کو ٹکٹ دیے گئے۔‘
ان کا تھا کہ ’ن لیگ کی قیادت نے امیدواروں کے خود انٹرویوز لیے۔ سب لوگوں نے کہا کہ آپ کا انٹرویو سب سے اچھا ہوا لیکن اس کے باوجود صوبائی صدر نے اپنے گاؤں سے داماد کو اٹھا کر کوئٹہ سٹی کی نشست کا ٹکٹ دے دیا جہاں سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔‘
ن لیگ بلوچستان کے ایک ترجمان نے کہا کہ ٹکٹ میں پارٹی وابستگی کو نظرانداز نہیں کیا گیا تاہم امیدواروں کی اہلیت، انتخابی پس منظر اور جیتنے کی صلاحیت کو دیکھنے کے لیے پارٹی قیادت نے خود لاہور میں کئی ہفتوں تک اجلاس کیے اور باقاعدہ انٹرویوز کر کے انتخاب کیا۔
ٹکٹس کی تقسیم کے بعد ن پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’سیاسی جماعتوں کے نزدیک کردار، نظریات اور کارکن کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی، 25 برسوں میں الیکشن کا ٹرینڈ تبدیل ہو گیا ہے اب الیکٹیبلز اور سرمایہ داروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دیرینہ کارکنوں کی اکثریت وفادار تو ہوتی ہے مگر وہ غریب ہوتے ہیں اور الیکشن کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ معاشرہ بھی کردار اور نظریات کو اہمیت نہیں دیتا۔ سیاسی اورنظریاتی کارکن اگرانتخاب لڑے تو کوئی انہیں ووٹ نہیں دیتا۔‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق ’الیکٹیبلز کو ٹکٹ دے کر پارٹیاں نہ صرف اخراجات سے مبرا ہو جاتی ہیں بلکہ انہیں زیادہ نشستیں بھی مل جاتی ہیں کیونکہ وہ بااثر ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں۔ ایسا صرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ جمعیت علما اسلام ، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی کر رہی ہیں۔‘
 تجزیہ کار رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’ن لیگ نے زیادہ تر الیکٹیبلز کو ٹکٹ جاری کیے ہیں، ن لیگ نے الیکٹیبلز اور نہ ہی الیکٹیبلز نے نظریے یا کارکردگی کی بنیاد پر ن لیگ کو چنا ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں، پارٹیوں کو زیادہ نشستیں اور الیکٹیبلز کو ایسی جماعت چاہیے جو مرکز میں اقتدار میں آ کر انہیں حکومتی عہدے  اور مراعات کے ساتھ ساتھ مخصوص اور سینیٹ کی نشستوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ دے سکے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ٹکٹوں کی تقسیم میں دیرینہ کارکنوں کی رائے کی بجائے مضبوط الیکٹیبلز کی ترجیحات کو مدنظر رکھا گیا ہے، بلوچستان میں ن لیگ کے پاس ویسے بھی گنتی کے چند نظریاتی ہی لوگ ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’مسلم لیگ ن کا کوئٹہ شہر کے وسطی علاقے کے علاوہ صوبے میں کسی جگہ جماعتی ووٹ بینک نہیں کوئٹہ میں جہاں اس کا ووٹ بینک ہے وہاں بھی اس نے نظریاتی کارکنوں کو اہمیت نہیں دی۔‘
ان کے مطابق ’اس سوال کی اب کوئی اہمیت نہیں کہ جس کو امیدوار بنایا گیا ہے وہ جرائم پیشہ تو نہیں اس کا کردار اور کاروبار کیا ہے؟ اب معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ بھی سوال نہیں اٹھاتا۔‘
رشید بلوچ کا کہنا تھا کہ ’ن لیگ نے جہاں دیکھا ہے کہ ان کی پارٹی میں شامل الیکٹیبلز مضبوط ہیں وہاں مخالف جماعت سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کوشش کر رہی ہے۔ لسبیلہ اور آواران کی قومی اسمبلی کی نشست پر جام کمال نیشنل پارٹی کے درمیان سمجھوتہ نظر آ رہا ہے۔‘ا

شیئر: