عدلیہ سے متعلق تحریک انصاف کا متضاد مؤقف، قیادت کا فقدان یا حکمت عملی؟
عدلیہ سے متعلق تحریک انصاف کا متضاد مؤقف، قیادت کا فقدان یا حکمت عملی؟
جمعہ 5 جنوری 2024 12:30
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق ’یہ دو وکلاء دھڑوں کی لڑائی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
جب سے سابق وزیراعظم عمران خان جیل گئے ہیں کبھی شاہ محمود قریشی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ پارٹی کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہے تو کبھی پارٹی کے نئے صدر پرویز الٰہی کا قیادت کا دعویٰ تھا لیکن پھر یہ دونوں رہنما بھی جیل پہنچ گئے۔
جس کے بعد پارٹی کی ڈور عملی طور پر وکلا کے ہاتھ میں آ گئی مگر سلسلہ یہاں بھی نہ رک سکا۔ عمران خان نے وکیل شیر افضل مروت کو پارٹی کا سینیئر نائب صدر بنایا تو انہوں نے پارٹی سے متعلق پالیسی بیانات دینا شروع کر دیے۔ جس کے بعد عمران خان کو باضابطہ طور پر پارٹی ترجمانوں کا اعلان کرنا پڑا۔
گذشتہ روز جمعرات کو بھی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا جب پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے پریس کانفرنس کی اور چیف جسٹس پر اعتماد کا اظہار کیا تو ان کے فوراً بعد شیر افضل مروت بھی میدان میں آ گئے اور عمران خان کی طرف سے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا۔
اس حوالے سے تحریک انصاف نے شیر افضل مروت کے بیانات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ایک پریس ریلیز جاری جس میں پارٹی ترجمان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’صرف پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ پر جاری کیے گئے بیانات ہی پارٹی کے مؤقف یا پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی طرف سے اپنی ذاتی حیثیت میں دیے گئے بیانات پارٹی کے مؤقف یا پالیسی کی ترجمانی نہیں کرتے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب بیرسٹر گوہر اور شیر افضل مروت آمنے سامنے آئے ہیں بلکہ انٹرا پارٹی انتخابات کے وقت بھی دونوں کے مؤقف میں نہ صرف تضاد سامنے آیا تھا بلکہ دونوں کی جانب سے میڈیا پر اس کا کھل کر اظہار بھی کیا گیا تھا۔
اس معاملے پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی ہر طرف سے کھل کر آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے اور زیادہ تر کا خیال ہے کہ یہ پارٹی میں قیادت کے فقدان کا اظہار ہے، تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پارٹی کی حکمت عملی بھی ہے کہ جہاں جس پر دباؤ ڈالنا ہو وہ دباؤ بھی ڈال لیا جائے اور کسی بھی کارروائی سے بچنے کے لیے پارٹی سطح پر لاتعلقی کا اعلان بھی کر دیا جائے۔
تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بنیادی طور پر دو وکلا دھڑوں کی لڑائی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عدالتوں کے اندر سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں پہلے الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات میں قانونی خامیوں کو تسلیم کیا اور خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں الیکشن کمیشن پر چڑھائی کر دی۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کے بجائے پشاور ہائی کورٹ چلے گئے اور جزوی ریلیف کو اپنی فتح قرار دے دیا۔ جب ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ واپس لے لیا تو اس کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے جبکہ سپریم کورٹ جزوی فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں سنتی۔‘
’اگر 9 جنوری تک یہ اپیل سپریم کورٹ میں مقرر نہ ہوئی تو پشاور ہائی کورٹ میں تو یہ پہلے سے لگی ہوئی ہے اور وہاں سے نوٹس ہو گئے تو سپریم کورٹ یہ کیس سنے گی ہی نہیں اور یہ پھر سپریم کورٹ کے خلاف پروپیگنڈا کریں گے جو کہ بالکل بھی درست نہیں ہوگا بلکہ ان کی اپنی قانونی حکمت عملی کی کمزوری کا نتیجہ ہوگا۔‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’یہ پارٹی میں کمانڈ اینڈ کنٹرول کا فقدان ہے کہ پارٹی کے تمام رہنما اپنی اپنی مرضی کا بیان دیتے ہیں اور سب ہی کہتے ہیں کہ یہ پارٹی پالیسی ہے۔ یہ عمران خان کی اس پالیسی کا شاخسانہ ہے جس کے تحت وہ کہتے تھے کہ میرے علاوہ سب کو جو مرضی کہتے رہیں اس کی عام اجازت ہے۔ کبھی کسی ادارے پر، کبھی عدلیہ پر، کبھی سیاسی رہنماؤں پر اور کبھی میڈیا پر چڑھائی ہوتی تھی اور عمران خان اس سے خوش ہوتے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس وقت تو وقتی طور پر عمران خان کو اس کا فائدہ ہو رہا تھا لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ اب یہ حکمت عملی پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ اسے روکنے کی ضرورت ہے۔‘
تجزیہ نگار ضیغم خان نے تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کے درمیان ان اختلافات کو نئی اور پرانی حکمت عملیوں کا تصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پہلی پالیسی یہ تھی کہ مزاحمت کرنی ہے اور اداروں پر دباؤ ڈال کر اپنی بات منوانی ہے جس کا پہلا نتیجہ نو مئی تھا اور اس کی تازہ ترین مثال عمران خان کا امریکی جریدے میں شائع ہونے والا مضمون ہے۔ اس پالیسی کے تحت پارٹی نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے میڈیا اور سوشل میڈیا پر پر اپنے ہر مخالف کو آڑے ہاتھوں لینا ہے۔‘
ان کے مطابق ’دوسری اور حالیہ پالیسی بنیادی طور پر پارٹی کے نئے چیئرمین بیرسٹر گوہر کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ اب معاملہ بہت بگڑ چکا ہے جسے سدھارنے کے لیے مذاکرات کی ضرورت ہے۔ اور مذاکرات صرف اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ دوسری سیاسی قوتوں سے بھی ہونے چاہییں۔‘
’اس پالیسی سے عمران خان نے اختلاف نہیں کیا بلکہ انھوں نے بیرسٹر گوہر کو اپنی حکمت عملی پر کام کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن انہوں نے جن رہنماؤں کو تصادم اور مزاحمت والی پالیسی پر لگایا ہوا تھا انہیں روکا بھی نہیں بلکہ انہیں اپنا کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ اسی وجہ سے کل عجیب صورت حال پیدا ہوئی۔‘
ضیغم خان نے کہا کہ ’اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ حکمت عملی ہی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ عمران خان بیرسٹر گوہر کو اختیارات سونپ دیں اور معاملات بہتر بنانے کے لیے فیصلہ سازی کا اختیار دے دیں بصورت دیگر مزید الجھنیں پیدا ہوں گی۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز اور منتخب ارکان بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’مشکل وقت آنے کی وجہ سے پارٹی انتظامی اور قیادت کے بحران کا شکار ہوئی ہے۔ جس کے نتیجے میں پارٹی کے اندر پروکسی لڑائیاں لڑی جا رہی ہیں۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کی سینیٹر ڈاکٹر زرقا تیمور سہروردی نے کہا کہ ’جو کچھ پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کے بعد کچھ پارٹی رہنماؤں کی جانب سے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے وہ فطری ردعمل ہی ہے۔ لیکن ہم ورکرز یہ بھی جانتے ہیں کہ جس طرح پاکستان میں پروکسی لڑائیاں لڑی جاتی ہیں اس طرح مختلف دھڑوں کی جانب سے ہماری پارٹی میں پروکسی لڑائیاں لڑی جا رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کے باوجود ہمیں عمران خان کے انتخاب کو ترجیح دیتے ہوئے بیرسٹر گوہر کا ساتھ دینا ہے، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ جو وہ کہیں گے اسی کو پارٹی پالیسی سمجھنا چاہیے۔‘