Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن سروے کا معاملہ، پیمرا کے نوٹس واپس لینے پر عدالت نے درخواستیں نمٹا دیں

درخواست میں پیمرا، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا(فوٹو: سکرین گریب)
لاہور ہائی کورٹ نے الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا پر الیکشن سروے پر عائد کی کئی الیکشن کمیشن اور پیمرا کی پابندی کے خلاف دائر درخواستیں نمٹا دی ہیں۔
منگل کو لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس باقر علی نجفی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ پیمرا نے جو نوٹسز جاری کیے ہیں وہ واپس لیں۔ جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’اس حوالے سے جو نوٹسز جاری ہوئے ہیں وہ واپس لے لیے ہیں۔‘
سرکاری وکیل نے جج کو آگاہ کیا ہے کہ الیکشن سروے پر پابندی کا اطلاق صرف پولنگ کے دن کی حد تک ہے۔ سرکاری وکیل نے عدالت میں الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن بھی پیش کیا۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ انتخابی حلقوں میں سروے کرنے پر پابندی کا اطلاق صرف پولنگ ڈے پر ہو گا۔ عدالت نے فریقین کے جواب کی روشنی میں درخواستیں نمٹا دیں۔

پہلی سماعت میں کیا ہوا؟

اس سے قبل جمعے کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے تھے کہ ’بادی النظر میں الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن صرف الیکشن ڈے کے لیے ہے۔ ’ایسی پابندی لگانے کی وجہ سمجھ نہیں آتی، پوری دنیا میں الیکشن کے دوران حلقوں کے مسائل پر بات ہوتی ہے، سروے ہوتے ہیں۔‘
لاہور ہائی کورٹ میں الیکش سروے پر پابندی کے خلاف سینئیر صحافی حبیب اکرم نے محمد عاطف امین ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی تھی جس میں الیکشن کمیشن اور پیمرا کو فریق بنایا گیا تھا جبکہ کورٹ رپورٹر منیر باجوہ اور اختر علی نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں پاکستان الیکٹرانک ایند ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا۔ 

درخواست گزاروں کا موقف کیا تھا؟

درخواست میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکٹرانک، پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر پابندی لگائی ہے۔ الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ کی شق 12 آئین پاکستان کے متصادم ہے، ایسا کر کے الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 4 ،19 اور 19 اے کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ دائر شدہ درخواست میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کا اقدام بنیادی انسانی حقوق اور معلومات تک رسائی کے قانون کے خلاف ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں متفرق درخواستوں پر سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ الیکشن سروے پر پابندی کا اطلاق صرف پولنگ کے دن کی حد تک ہے۔ پیمرا نے جو نوٹسز جاری کیے ہیں، وہ واپس لے لیے گئے ہیں۔

’پابندی کا اطلاق صرف پولنگ کے دن ہو گا‘

سینیئر صحافی اور اس کیس میں درخواست گزار حبیب اکرم نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جب الیکشن کمیشن نے پیمرا کو خط بھیجا تو پیمرا نے کارروائی شروع کی۔
ان کے مطابق ’ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی تھی کہ یہ آئین کی شق 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔ آج سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اپنا خط واپس لے لیا ہے اور اس پابندی کا اطلاق صرف آٹھ فروری یعنی پولنگ کے دن ہو گا۔‘
29 دسمبر کو عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے آفیشل اکاؤنٹس میں کوئی بھی صحافی، اخبار، چینل اور دیگر سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والی شخصیات کسی بھی پولنگ سٹیشن یا حلقے میں داخلی اور خارجی انتخابات یا کسی بھی قسم کے سروے کرنے سے گریز کریں گی جس سے ووٹرز کا ووٹ ڈالنے کا آزادانہ انتخاب یا کسی بھی طرح سے اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے۔
تاہم اس کے باوجود میڈیا پر انتخابی حلقوں کے سرویز جاری رہے جس کے بعد یکم جنوری کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پابندی کے باوجود انتخابی سروے کرانے پر پیمرا کو ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

شیئر: