قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کو ایک اور ریلیف دیتے ہوئے ان کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس میں انویسٹی گیشن بند کردی گئی ہے۔
چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیر احمد بٹ کی زیرِ صدارت نیب ایگزیکٹیو بورڈ کا اہم اجلاس ہوا جس میں چھ مختلف کرپشن کیسز بند کرنے کی منظوری دی گئی۔
مزید پڑھیں
-
شہباز شریف اور ان کا خاندان مقدمات سے کیسے بری ہو رہا ہے؟Node ID: 780691
-
نیب میں پیشی کے دوران بشریٰ بی بی سے کیا سوالات پوچھے گئے؟Node ID: 811551
ان میں سب سے اہم سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس تھا جس کی تحقیقات بند کرنے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں جن انکوائریوں کو بند کرنے کی منظوری دی گئی ان میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی، سوشل ایکشن پروگرام، پارک انکلیو و دیگر شامل ہیں۔
یکم جنوری 2024 کو منظوری دیے جانے کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس کی انویسٹی گیشن بھی بند کردی گئی ہے۔
اس طرح نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس اور آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کے خلاف سیف سٹی کرپشن کیس کی انکوائری بند کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
سی ڈی اے افسران کے خلاف پارک انکلیو ہاؤسنگ سوسائٹی کرپشن کیس، وفاقی حکومت کے افسران کے خلاف من پسند افراد کو بھرتی کرنے کے کیس کی بھی انکوائری بند کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
شریف ٹرسٹ کیس میں انوییسٹی گیشن کی منظوری 31 مارچ 2000 کو دی گئی تھی۔ شکایت میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شریف فیملی نے خفیہ طور پر شریف ٹرسٹ میں کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔
یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ ٹرسٹ کے کھاتوں کا آڈٹ نہیں کرایا گیا اور رقوم میں خورد برد کی گئی ہے۔
یہ بھی الزام لگایا گیا کہ شریف خاندان نے اثاثے بنا رکھے ہیں جو ٹرسٹ کے نام پر بے نامی جائیدادوں کے طور پر رکھے گئے تھے۔

پانامہ پیپرز میں تشکیل دی گئی متنازع جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2000 میں منظوری کے بعد سے شریف ٹرسٹ کیس میں انوسٹی گیشن کو نیب نے بلاجواز تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔
پانامہ جے آئی ٹی نے تجویز دی تھی کہ نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ قلیل مدت میں انویسٹی گیشن مکمل کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔
اب نیب نے شہباز شریف حکومت کی جانب سے ترمیم شدہ نیب ایکٹ 2022 کے سیکشن 31 بی کے تحت انویسٹی گیشن بند کر دی ہے۔
اسی طرح نواز شریف کے 1998 کے دور میں جاپان اور حکومت پاکستان کے درمیان سوشل ایکشن پروگرام کے تحت کاؤنٹر فنڈ کے قیام کے لیے معاہدہ ہوا تھا۔
اس معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو 25 کروڑ ڈالرز کا فنڈ ملنا تھا۔ نیب نے نواز شریف اور اس وقت کے سرکاری افسران کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا کہ 25 کروڑ ڈالر کا فنڈ کہاں گیا؟
اس کے علاوہ نیب نے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے سابق سربراہ و موجودہ آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان اور دیگر افسران کے خلاف جاری تحقیقات بھی بند کر دی ہیں۔
