Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماہ صیام ، سابقہ غلطیوں کی تلافی کا موقع

اصل تیاری نفس کو رمضان کے اعمال کے لئے تیار کرناہے، ہم عبادتوں کی طرف کم ہی متوجہ ہوتے مرغوبات کا اہتمام کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں
* * * * مولانا نثاراحمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن* * * * *
طاعت وبندگی اور رحمت ومغفرت کا مہینہ آچکا ہے،خوش قسمت وسعادت مند ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس کی تیاری ، اسی طرح کی جس طرح تیار ی کرنے کا حکم رسول اللہ نے دیا ہے اور جس طرح ہمارے سلف صالحین کیا کرتے تھے اور بڑے محروم ہیں وہ جو اس کی آمد کے باوجود اس کے استقبال کی تیاری نہیں کرتے، اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل پر اڑے رہتے ،نہ حرام سے بچتے اور نہ ممنوعات سے باز آتے ہیںبلکہ اب بھی وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے مزاج وخواہشات کے مطابق ہوتا اور نفس کی تسکین کا ذریعہ ہوتا ہے۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اسلام میں جتنی بھی عبادتیں ہیں اس سے پہلے بعض اعمال کی انجام دہی کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو درحقیقت اصل عبادت کی تمہید ہوتی ہے اور بعض شرعی احکام دیئے جاتے ہیں جس سے اس عبادت کے آداب کی رعایت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر نماز سے پہلے اذان ہے۔
نماز اپنے وقت میں ہی ادا کی جاسکتی ہے، پھرنماز کے لئے کھڑے ہونے سے پہلے وضو ہے، جس کے بغیر نماز درست نہیں ہوتی اور اگر کوئی عوارض پیش آگئے تو اس کی قضاکے بھی بعض آداب وشرعی احکام ہیں۔ اسی طرح حج ہے کہ اصل عبادت سے قبل اس کی تمہید ہے جس میں بہت سی چیزوں کی رعایت کرنی ضروری ہے۔ رمضان کا روزہ اسلام کے 5بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت کرنیو الا ہے، اور جس میں ہدیات کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں، تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے ،ا سے روزہ رکھنا چاہئے، ہاں جو بیمار ہو، یا مسافر ہو، اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے، اللہ تعالیٰ کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کرنے کا ہے، سختی کا نہیں، وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور اس کا شکر ادا کرو۔‘‘ (البقرۃ 185) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’اسلام کی بنیاد5 چیزوں پر ہے:اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ِبرحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا، اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔‘‘(متفق علیہ)۔
ابوسوید العبدی سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ اجازت کے انتظار میں آپ کے دروازے پر بیٹھ گئے۔اجازت ملنے میں کافی تاخیر ہوئی تو میں اٹھ کر دروازہ کے سوراخ سے اندر جھانکا وہ سمجھ گئے ۔جب ہمیں اجازت ملی اور ہم اندر جا کر ابن عمر کے پاس بیٹھے تو انہوں نے پوچھا کہ کون جھانک رہا تھا؟ میں نے کہا کہ میں، تو انہوں نے کہا کہ میری گھر میںجھانکنے کو تم نے کس طرح اپنے لئے حلال کیا ؟ میں نے کہا اجازت میں تاخیر مجھ پر شاق ہورہی تھی، تو میں نے اٹھ کر ایک نگاہ ڈال لی، میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، پھر میرے ساتھ کے لوگوں نے بہت سی باتیں ان سے دریافت کیں، ان میں سے ایک بات جو انہوں نے کہی وہ یہ تھی کہ اسلام کی بنیاد 5 چیزوں پر ہے۔ رمضان کی بابرکت گھڑی آچکی ہے، جبکہ ہمارے معمولات اور روزہ کی مصروفیات میں کسی طرح کی تبدیلی نظر نہیں آرہی ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس بابرکت ومقدس ماہ کی خوب خوب تیاری کریں اور اپنے آپ کو اس ماہ کے شایان شان تیار کریں، اس کے لئے بنیادی طور پر ہمیں چند چیزوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ انسان اپنے ایمان واعتقاد کو درست کرلے اور اگر انسان سے دانستہ یا نادانستہ طورپر شرکیہ عمل ہورہا ہے، تو اس سے باز آجائے ، تعویذ گنڈوں کے چکر میں اگر مبتلا ہے یا مشکلات ومصائب کو دور کرنے یا اولاد یا کسی طرح کی حاجت روائی کیلئے غیر اللہ سے لو لگائے ہوئے ہے تو اس سے فوراً توبہ کرے اور اللہ اور اس کے وعدے پر یقین کرے، اسے ملحوظ رکھنا تو ہر حال میں ضروری ہے مگر خاص طور پر مغفرت ورحمت اور جہنم سے خلاصی کے اس بابرکت ماہ سے پہلے ضروران مشرکانہ عمل سے توبہ کرلے تاکہ رمضان کی برکتیں وعنایتیں اسے حاصل ہوسکیں، اسی طرح اگر کتاب وسنت کے خلاف کسی طرح کے خیالات وتصورات کسی کے دل کے اندر پیدا ہوگئے ہوں تو اسے ان خیالات کو ترک کرکے کتاب وسنت کے تابع بنائے ، سابقہ غلطیوں کی تلافی کرنے کے لئے اس مقدس ماہ کو غنیمت جانے اور مکمل بھروسہ واعتماد اللہ پر کرے، اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’اور ایمان والوں کو صرف اور صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘(التَّغابُن13)۔ اللہ کی ذات سے حسن ظن رکھے اور اپنے سارے عبادات ومعاملات اور شب وروز کے معمولات اور عبادات واطوار میں رسول اللہ کی اتباع وپیروی کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح ہمیں چاہیے کہ رمضان آنے سے قبل مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا شروع کردیں۔
اشیاء یا تو حرام ہوتی ہیں یا حلال ، اور ان دونوں کے درمیان میںمکروہ چیز ہوتی ہے جو حرام ومباح کے بیچ ہوتی ہے، یعنی ایسی چیز جس کی حرمت پر کوئی واضح دلیل نہ ہو، تو اصل پر اسے باقی رہتے ہوئے اسے مباح وجائز تو قرار دیاجاتا ہے، مگر بسا اوقات اس کے بارے میں دل میں شبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ نہ معلوم یہ درست ہے یا نہیں، اس شبہ کی وجہ سے اس شئے کی حلیت تو ختم نہیں ہوگی مگر اس کی حلیت میں شک وشبہ ضرور پیدا ہوجائے گا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی مشکوک ومشتبہ چیزوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ دے۔ مثال کے طور پر کسی کو علم ہے کہ فلاں چیز چوری ہوئی ہے، (مثلاً:موبائل فون) پھر وہ بازار جاتا ہے، تو اسے بعینہٖ وہی چیز بکتی ہوتی نظر آتی ہے، وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ وہی چوری کامال ہے یا کسی کی اپنی چیز ہے جسے وہ بیچنا چاہتا ہے، یہ مشتبہ ہوگیا ۔
انسان اگر پرہیز گار ہوگا ، تواسے نہیں خریدے گاکیونکہ یہ واقعی اگر چوری کا ہے تو اسے خریدنا حلال نہیں لیکن محض مشتبہ ہونے کی وجہ سے اس کی حلیت ختم نہیںہوگی بلکہ وہ حلال ہی رہے گی۔صحابیٔ رسولؐ حضرت عطیہ السعدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’بندہ پرہیز گار کے مقام ومرتبہ کو اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اسے نہ چھوڑ دے جو کہ مباح وجائز ہوناجائز سے بچنے کیلئے۔‘‘(ترمذی وابن ماجہ)۔ دوسری روایت ہے: حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ حلال ہیں یا حرام ، توجو شخص شبہ کی چیزوں سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اِس کی مثال اُس چرواہے کی سی ہے جو چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چراتا ہو، قریب ہے کہ وہ جانور چراگاہ کے اندر گھس جائے۔ انسان کے اندر اس طرح کی پرہیزگاری اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جبکہ وہ توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ اس ماہ مبارک کی آمد پر ہم میں سے جو معاصی کا ارتکاب کرتے رہے ہیں، اُنہیں گناہوں کے کام سے باز آجانا چاہیے اور سابقہ گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے ، اپنی خطائوں اور گناہوں پر ندامت کا اظہار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں ہی کے عمل کو قبول کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اللہ تو پرہیزگاروں ہی کے عمل کو قبول کرتاہے۔ ‘‘(المائدۃ27)۔
اسی طرح ہم سے اگر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی پر ظلم وزیادتی اور نا انصافی ہوئی ہے تو اس سے معافی تلافی کرلینی چاہیے اور اپنے قرابت داروں، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا چاہیے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔صلہ رحمی کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ہے: ’’ جو رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتا اور رشتوں کو جوڑے رکھتا ہے، اللہ بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کرتا اور اس سے اپنے رشتے کو جوڑے رکھتا ہے، اور جو اپنے خونی رشتوں سے تعلقات منقطع کئے رہتا اور ان سے کٹ کررہتا ہے، اللہ بھی اپنے تعلقات اس سے منقطع کرلیتا ہے، اللہ کے نزدیک تعلقات جوڑنے والا وہ نہیں کہ دوسرا جوڑے تووہ بھی اس کے بدلے میں جوڑے واستوار رکھے، مگر تعلقات ورشتہ جوڑنے والا وہ ہے جو دوسرے جب تعلقات منقطع کریں تو بھی وہ جوڑے رکھے۔ ‘‘(بخاری ، ترمذی، ابودائود، مسند احمد)۔
اس ماہِ مبارک میں پڑوسیوں کے ساتھ بطور خاص حسن سلوک کا برتاؤ کرے۔ بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے دوسرے پڑوسی کے ساتھ اچھا ہو، اللہ کے نبی نے فرمایا ہے: ’’بہترین ساتھی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہتر ہواور بہترین پڑوسی اللہ کے نزدیک وہ ہے جو اپنے پاس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ اچھا ہو۔‘‘ (ترمذی، دارمی، مسند احمد)۔ اس ماہ مبارک کے اندر اگر ممکن ہو تو مسلمانوں کو عمرہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس ماہ کا عمرہ رسول اللہ کے ساتھ حج کرنے کے ثواب کے برابر ہے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے جب حج کا ارادہ کیا تو ایک عورت نے اپنے شوہر سے کہا کہ اپنے اونٹ پر مجھے بھی رسول اللہ کے ساتھ حج کرادو، شوہر نے کہا کہ میرے پاس زائد اونٹ نہیں جس پر میں تمہیں حج کراسکوں، تو عورت نے کہا کہ تیرا فلاں اونٹ جو ہے اس پر کرادو، شوہر نے کہا کہ وہ تو اللہ کے راستہ میں جہاد کیلئے محبوس ووقف ہے، وہ شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میری بیوی نے آپ کو سلام کہا ہے اور وہ مجھ سے آپ کیساتھ حج کرنے کا مطالبہ کررہی ہے ، میں نے اس سے کہا کہ میرے پاس سواری نہیں کہ اس پر تمہیں حج کراسکوں تو اس نے کہا کہ فلاں اونٹ پر کرادو، تو میں نے کہا کہ وہ تو اللہ کے راستہ میں محبوس ووقف ہے، تو رسول اللہ نے اس سے کہا کہ تم اسے اس سواری پر حج کرادو، تو یہ بھی اللہ کے راستہ ہی میں ہوگا، پھر اس شخص نے کہا کہ بیوی نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ سے پوچھوں کہ اور کون سا عمل ہے جو آپ کی معیت میں حج کرنے کے برابر ہوسکتا ہے، تو رسول اللہ نے فرمایا :اسے میرا سلام کہواور اسے بتادو کہ رمضان کا عمرہ میری معیت میں حج کرنے کے برابر ہے۔ اس ماہ صیام میں ہمیں روز داروں کو افطار کرانے کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور اس کے لئے پہلے سے بچت کرکے اس کی تیاری کرنی چاہیے حدیث کے اندر آتا ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا : ’’ جو کوئی روزہ دار کو افطار کرائے گا تو اسے روزہ رکھنے والے کے ثواب کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے اجر وثواب میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘
(ترمذی ، ابن ماجہ ، دارمی)۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ خود بھی اپنے آپ کو رمضان کے لئے تیار کریں اور اپنے اہل وعیال کو بھی، اور اس ماہ میں دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے اور مال خرچ کرتے وقت مثلاً: مدارس ومستحقین میںچندے تقسیم کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ، دے کر خوشی محسوس کریں، کبیدگی ورنجیدگی نہیں کیونکہ بڑی بڑی رقم دینے کے باوجود اگر آپ نے انہیں سخت سست کہہ دیا ، جھڑک دیا اور بے جا سرزنش کردی، یا طرح طرح کے الزامات لگا دیئے تو آپ کو اس کا اجر وثواب نہیںملے گا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اپنے صدقہ کو( مستحقین کو) اذیت پہنچا کر اور احسان جتا کر برباد نہ کرو۔‘‘(البقرہ264)۔ ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ رمضان کی تیاری کا مطلب یہ نہیں کہ انواع واقسام کے کھانوں کا سامان تیار کیا جائے، خوب سے خوب تر کھانے ، پینے کی تیاری کی جائے، گھروں کو رنگ وروغن کیا جائے ، یہ سب ظاہری چیزیں ہیں جس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں۔
اصل تیاری ہے نفس کو رمضان کے اعمال کے لئے تیار کرنا، خوب تلاوت کرنا، ذکر واذکار کرنا، صدقہ وخیرات کرنا۔آج ہماری کوتاہی کا عالم یہ ہے کہ ہم رمضان میں بھی عبادتوں کی طرف تو کم ہی متوجہ ہوتے البتہ انواع واقسام کے مرغوبات اور عمدہ سے عمدہ کھانوں اور پھل فروٹ کا اہتمام کرنے میں پیش پیش ضرور رہتے ہیں۔ہمیں اس طرح کی دنیوی لذتوں ، اسراف ، وفضول خرچی سے بچتے ہوئے جو بھی وقت ملے اللہ کو یاد کرنے، اس کی عبادت کرنے ، قرآن کی تلاوت کرنے اور غریبوں ، ناداروں ، یتیموں اور بیوائوں کی خبر گیری کرنے میں صرف کرنا چاہیے۔

شیئر: