انتخابات کی گہما گہمی ملک بھر میں شروع ہو چکی ہے۔ لاہور کا حلقہ این اے 127 اس وقت بہت سی وجوہات کی بنا پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا اس حلقے سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ ہی حیران کن ہے کیوں کہ یہ حلقہ گذشتہ دو دہائیوں سے مسلم لیگ (ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور وہ اب بھی اس حلقے سے اپنا مضبوط امیدوار اتارنے پر غور کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں
-
چترال کی خاتون امیدوار جو سعودی عرب کی یونیورسٹی میں لیکچرر رہیںNode ID: 824731
-
لاہور کا وہ حلقہ جہاں سے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک مضبوط ہو سکتا ہےNode ID: 825596
تاہم حلقے کے ہر گلی کوچے میں الگ الگ سیاسی جماعتوں کے جھنڈے اور بینرز آویزاں ہیں مگر بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے مزمل کاکڑ کے اس حلقے سے انتخاب لڑنے کے فیصلے نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا ہے۔ حقوق خلق پارٹی کے رہنما مزمل کاکڑ کے اردگرد ہمہ وقت حلقے کے عوام سرخ جھنڈے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور ’قدم بڑھاؤ مزمل، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘ کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں۔
مزمل کاکڑ کون ہیں؟
سال 2011 میں مزمل کاکڑ لاہور آئے اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہوں نے عملی سیاست میں قدم رکھا۔
وہ اس سے قبل پنجاب یونیورسٹی سمیت ملک بھر میں طلبہ سیاست میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
وہ پنجاب یونیورسٹی میں پشتون ایجوکیشن ڈویلپمنٹ موومنٹ کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے پاکستان بھر کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد کے کنوینر کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔
مزمل کاکڑ نے 2019 میں دیگر طالب علموں کے ساتھ مل کر طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے 53 شہروں میں احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔
انہوں نے اس کے علاوہ بلوچستان کے دوردراز علاقوں کے لیے سات ہزار کتابیں جمع کر کے لائبریریز بھی قائم کی ہیں۔
وہ عام انتخابات میں حقوق خلق پارٹی کی جانب سے لاہور کے حلقہ این اے 127 سے نامزد امیدوار ہیں جبکہ ان کے ساتھ ڈاکٹر عمار علی پی پی 160 سے صوبائی اسمبلی کے نامزد امیدوار ہیں۔
’یہ حلقہ لاہور کا بلوچستان ہے‘
مزمل کاکڑ نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ گذشتہ کئی برسوں سے اس حلقے سے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
’ہم نے حقوق خلق موومنٹ کے نام سے ایک تحریک شروع کی تھی جسے ہم نے 2021 میں ایک سیاسی جماعت کی شکل دے دی اور ہم اب انتخابی میدان میں موجود ہیں۔‘
مقامی افراد این اے 127 میں ڈھول بجاتے ہوئے ان کو ہار پہنا رہے تھے اور علاقے کے بچے اور بوڑھے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوئے ان کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
مزمل کاکڑ بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے بلوچستان کے بجائے لاہور سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ اس لیے کیا کیوں کہ وہ ایک عرصے سے یہاں متحرک ہیں اور یہاں کی محرومیوں میں بلوچستان کا عکس دیکھتے ہیں۔‘
’میں طلبہ سیاست میں بھی متحرک تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہاں بھی بلوچستان کی طرح ہی محرومیاں ہیں۔ مجھے لگا کہ لاہور چونکہ ایک بڑا شہر ہے یہاں اگر یہ مسائل حل ہو جائیں تو ہم اس حلقے کو پورے پاکستان کے لیے ایک مثال بنا سکتے ہیں۔ یہ حلقہ لاہور کا بلوچستان ہے۔‘

مزمل کاکڑ کے بقول یہ محنت کشوں کا حلقہ ہے۔ یہاں زیادہ تر تعداد ان محنت کشوں کی ہے جو پاکستان کے مختلف حصوں سے آئے ہیں۔ ان ورکرز کے بے شمار مسائل ہیں، یہاں گذشتہ 40 برسوں میں ایک بھی سرکاری سکول نہیں بنا، یہاں کوئی ہسپتال ہے اور نہ ہی پورے علاقے میں کوئی قبرستان ہے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ ’این اے 127 میں لوگوں نے گیس اور بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی موٹر بائیکس اور موبائل تک بیچ دیے ہیں۔ لوگ بے روزگاری کی وجہ سے منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ یہ سارے مسائل بلوچستان میں بھی ہیں تو اسی لیے میں نے اس حلقے کا انتخاب کیا۔‘
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو بھی اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے گذشتہ دنوں حلقے کا دورہ بھی کیا تھا۔
مزمل کاکڑ، بلاول بھٹو کے دورے کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’یہاں کے لوگوں کا کوئی بھی پرسانِ حال نہیں ہے۔ بلاول تو ابھی یہاں آئے ہیں۔ ان کی سیاست مفادات پر مبنی ہے جبکہ ہم محنت کشوں کے حقوق کے لیے نکلے ہیں۔‘
’ہم محنت کشوں کے حقوق کے لیے نکلے ہیں‘
اس سوال پر کہ بلوچستان سے آئے ہوئے نوجوان کا لاہور میں انتخاب لڑنا کیسا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا ہر نوجوان چاہے وہ بلوچستان سے ہو گلگت سے ہو یا قبائلی علاقے سے ہو، وہ سیاست میں حصہ لے سکتا ہے اور کسی بھی حلقے سے انتخاب لڑ سکتا ہے۔
’موروثی سیاست کے بجائے اگر ایک عام شہری اٹھ کر آتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ شہباز شریف اگر سندھ سے الیکشن لڑ سکتے ہیں یا بلاول بھٹو لاہور یا خیبر پختونخوا سے الیکشن لڑ سکتے ہیں تو میں بطور عام شہری کیوں الیکشن نہیں لڑ سکتا؟‘
مزمل کاکڑ کا خاندان بلوچستان کے قلعہ عبد اللہ میں آباد ہے۔ ان کے والد اپنے گھر کے قریب زمینداری کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرح انتخابی مہم پر پیسہ نہیں لگا سکتا لیکن عوام کے حقوق کی جنگ تو لڑ سکتا ہوں اور میں یہ سب عوامی طاقت کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہوں۔‘

انہوں نے اپنی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کے خلاف کئی لوگوں نے مختلف حربے استعمال کیے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہوئے بار بار پولیس اہلکار ہمیں تنگ کرتے رہے اور ہم سے دستاویزات مانگتے رہے۔ ہم جلسہ کر رہے تھے وہاں بھی پولیس کی بھاری نفری اس لیے آگئی تاکہ ہماری تحریک کو نقصان پہنچایا جائے۔‘
اس سوال پر کہ کیا انہیں مقامی سطح پر لوگ سپورٹ کر رہے ہیں اور اگر سپورٹ کر رہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
مزمل کاکڑ بتاتے ہیں کہ ’یہ حلقہ درحقیقت ’منی پاکستان‘ ہے ۔ یہ ایک انڈسٹریل ایریا ہے، جہاں پاکستان بھر سے لوگ محنت مزدوری کے لیے آباد ہیں۔ یہاں پشتونوں سمیت مسیحی برادری کے لوگ بھی آباد ہیں۔ ہمارے پاس جو بھی لوگ آتے ہیں وہ محنت کش ہوتے ہیں اور انہیں ہماری جدوجہد میں اپنے حقوق کے حصول کا راستہ دکھائی دیتا ہے جس کے باعث وہ بغیر کسی تعصب کے ہمیں سپورٹ کر رہے ہیں۔
