کراچی کا حلقہ این اے 242 ، متحدہ اور ن لیگ میں ’معاملات تقریباً طے، اعلانات باقی‘
کراچی کا حلقہ این اے 242 ، متحدہ اور ن لیگ میں ’معاملات تقریباً طے، اعلانات باقی‘
منگل 9 جنوری 2024 16:52
زین علی -اردو نیوز، کراچی
دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے دفاتر کا دورہ کر کے ملاقاتیں کیں (فائل فوٹو: سکرین گریب)
مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن کی ایک قومی اسمبلی کی نشست پر مذاکرات کا عمل حتمی مراحل میں داخل ہو گیا ہے۔
ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ایک سینیئر رکن کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ سابق وزیراعظم شہباز شریف کے حق میں حلقہ این 242 میں دستبردار ہونے کو تیار ہے تاہم اس کے باقاعدہ اعلان سے قبل کچھ اہم امور ترتیب دینا باقی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اپنی بات مکمل کر چکی ہے، اب فیصلہ مسلم لیگ ن نے کرنا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیئر رہنما انیس احمد قائم خانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے حلقہ این اے 242 پر مسلم لیگ ن سے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کی تصدیق کی ہے۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت یہ کہنا کہ ایم کیو ایم کا امیدوار دستبردار ہو گیا ہے مناسب نہیں ہو گا۔‘
’یہ ایم کیو ایم کا حامی حلقہ ہے‘
انیس قائم خانی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے درمیان کئی ماہ سے مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے نہ صرف ایک دوسرے کے دفاتر کا دورہ کر کے ملاقاتیں کیں بلکہ بہت سے معاملات طے بھی کر لیے گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے اجلاسوں میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رہنما مذاکرات کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حلقہ این اے 242 پر گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کراچی کا ایک اہم حلقہ ہے، اس حلقے سے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال امیدوار ہیں۔ یہیں سے مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم کا حامی حلقہ ہے۔ یہاں ماضی میں ایم کیو ایم بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتی رہی ہے۔ اس حلقے کا فیصلہ وہاں بسنے والوں کی رائے کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔ ‘
سیاسی تجریہ کار مظہر عباس کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ ن کے درمیان معاملات تقریباً طے ہیں، کچھ اعلانات اور بیانات باقی ہیں۔ جلد ہی دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہوتے نظر بھی آئیں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی کوشش ہے کہ آئندہ انتخابات میں مضبوط جماعت کے ساتھ اتحاد کرے اور قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرے۔
مظہر عباس نے مزید کہا کہ ’اس سلسلے میں ایم کیوایم پاکستان اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی بیٹھکیں بھی ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ سیاسی صورتحال میں متحدہ کے پاس ن لیگ سے اتحاد کا اچھا آپشن موجود ہے جسے وہ استعمال کر رہے ہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کے مطابق کراچی سمیت ملک میں فضا مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی یا ایم کیو ایم کے حق میں نظر نہیں آ رہی لیکن الیکشن ان سیاسی جماعتوں کے حق میں ہی جاتے نظر آرہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’متحدہ کے پاس آپشن کم ہیں، ایک جانب انہیں کراچی میں الطاف حسین کے حمایت یافتہ امیدواروں کی مخالفت کا سامنا ہے تو دوسری جانب ان کے دفاتر کھلنے سے لے کر کارکنان کی رہائیوں تک معاملات مکمل طور پر حل نہیں ہو سکے ہیں۔‘
’ایم کیو ایم الیکشن میں اتحاد اور سیٹ ایڈجسمنٹ سے لے کر امیدواروں کے انتخاب تک ہر پہلو کا جائزہ لے رہی ہے اور کوشش کر رہی کہ ایسا فیصلہ کیا جائے جس سے اسے سیاسی فائدہ بھی ملے اور ووٹرز کا اعتماد بھی بحال رہے۔‘
ماضی میں اس حلقے سے کون جینا کون ہارا؟
کراچی کا حلقہ این اے 242 ماضی میں حلقہ این اے 249 کہلاتا تھا۔ یہ ان دنوں ملکی سطح پر توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیراعظم شہباز شریف 2024 کے عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ اس سے قبل 2018 کے عام انتخابات میں بھی شہباز شریف بلدیہ ٹاؤن کے اس حلقے سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔
شہباز شریف نے 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے کی قومی اسمبلی کی نشست پر 34 ہزار626 ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے امیدوار سابق وفاقی وزیر فیصل واؤڈا اس حلقے سے 35 ہزار 344 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔
فیصل واؤڈا کے مستعفی ہونے کے بعد اس حلقے کے ضمنی انتخاب میں پاک سرزمین پارٹی کے سابق سربراہ اور موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سابق میئر کراچی سید مصطفی کمال نے الیکشن میں حصہ لیا تھا لیکن انہیں پیپلز پارٹی کے رہنما قادر خان مندوخیل کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے 16 ہزار 156 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ 15 ہزار 473 ووٹ لے کر مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اس ضمنی انتخاب میں پی ایس پی کے سابق سربراہ مصطفی کمال 9 ہزار 227 ووٹ لیکر چوتھے نمبر پر رہے تھے۔