پاکستان میں اقلیتی نشستیں چند بڑے گھرانوں کے ہی حصّے میں کیوں آتی ہیں؟
پاکستان میں اقلیتی نشستیں چند بڑے گھرانوں کے ہی حصّے میں کیوں آتی ہیں؟
جمعرات 11 جنوری 2024 17:00
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
ہندوؤں کی اعلیٰ برادریوں سے تعلق رکھنے والے خاندان دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہیں (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان بننے کے 76 سال بعد اب صرف مخصوص اقلیتی خاندانوں سے ہی شخصیات منتخب ہو کر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں آتی ہیں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے دلت ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون و انصاف مقرر کیا تھا۔
پاکستان کی مجموعی آبادی کا 3.53 فیصد حصہ اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ ملک کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کے لیے خصوصی نشستیں رکھی گئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی 336 نشستوں میں سے 10 نشستیں اقلیتوں کے لیے مختص کی گئی ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب کی 371 نشستوں میں سے آٹھ نشستیں اقلیتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ صوبہ سندھ کی 168 نشستوں میں سے نو، بلوچستان اسمبلی کی 65 نشستوں میں سے 3 اور خیبر پختونخوا اسمبلی کی 115 نشستوں میں سے چار نشستیں اقلیتوں کے لیے رکھی گئی ہیں۔
آئین پاکستان میں اقلیتوں کو اگرچہ برابرکے حقوق دیے گئے ہیں مگر صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں طویل عرصے سے مخصوص گھرانوں کے ہی حصے میں آ رہی ہیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ ہندو صوبہ سندھ میں آباد ہیں جو صوبے کی مجموعی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں۔
سندھ سے ہندوؤں کے مخصوص اور اعلیٰ برادریوں سے تعلق رکھنے والے خاندان دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہیں۔
مخصوص نشست پر منتخب ہونے والے سابق رُکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ہوں یا پاکستان مسلم لیگ ن کے کھئیل داس کوہستانی دونوں کا خاندان صوبہ سندھ اور وفاق میں اقتدار کا حصہ رہا ہے۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف سبھی انہی گھرانوں کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دیتی آئی ہیں۔
صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے سابق ایم این اے کھئیل داس کوہستانی کا گھرانہ بھی اقتدار کے ایوانوں کا اہم شراکت دار ہے۔
کھئیل داس کوہستانی کے 2 ماموں لال چند کرانی اور موہن لال پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے مخصوص نشستوں پر امیدوار رہ چکے ہیں۔
موہن لال کوہستانی 2008 میں صوبائی وزیر رہے ہیں۔ وہ پی پی سندھ کے عہدیدار بھی ہیں اور ان کا تعلق سندھ کے شہر جامشورو سے ہے۔
کھئیل داس کوہستانی کے سمدھی راجہ آسرمل منگلانی پاکستان تحریک انصاف اقلیتی ونگ کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین رہ چکے ہیں۔ وہ اس کے علاوہ پی ٹی آئی دور میں ممبر محکمۂ اوقاف بورڈ بھی رہے ہیں۔ ان کا تعلق بھی جامشورو سندھ سے ہے۔
گیان چند اسرانی بھی کھئیل دان کوہستانی کے کزن ہیں جو 2018 سے 2023 تک سندھ کے صوبائی وزیر اقلیتی امور رہے ہیں۔
جے پرکاش اکرانی بھی کھیئل داس کوہستانی کے کزن ہیں اور 2018 میں مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔
چیلا رام کلوانی بھی کھیل داس کوہستانی کےرشتے دار ہیں۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں چیئرمین قومی اقلیتی کمیشن اور 2022 سے 2023 تک رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ دیا رام ایسرانی بھی کھئیل داس کے کزن ہیں جنہوں نے 2008 میں وزیر جنگی حیات کے طور پر خدمات انجام دیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کھئیل داس کوہستانی نے اپنے خاندان کے پاس ہی مخصوص نشستیں ہونے کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے ددھیال میں میرے علاوہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے نہیں۔ رشتےدار اگر اسمبلیوں کے رُکن منتخب ہوتے ہیں تو یہ کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں کھئیل داس نے بتایا کہ ’ہندوؤں میں ذات یا منصب کے نام پر کوئی تقسیم نہیں۔ سب کو برابری کے حقوق ملنے چاہییں۔ مجھے ن لیگ کے پارلیمانی بورڈ نے ٹکٹ دیا ہے۔ میری سفارش پر ہی ہندو برادری کے محروم خاندانوں کو بھی سندھ میں ٹکٹ دیا گیا۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’میرے خلاف ایک مخصوص لابی سرگرم ہے جو ہندوؤں کو ذات پات کے نام پر تقسیم کرنا چاہتی ہے۔‘
سندھ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ڈاکٹر رمیش کمار نے سال 2002 میں اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ آج بھی اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہیں۔
رمیش کمار 2013 سے 2018 تک مخصوص نشست پر سندھ اسمبلی کا حصہ رہے جبکہ سال 2018 سے مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کا حصہ ہیں۔
سابق ایم این اے سینیٹر رمیش کمار سے اردو نیوز نے رابطہ کیا مگر انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
صحافی اور تجزیہ کار سید مزمل شاہ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان میں اقلیتوں کے لیے علیحدہ الیکٹوریٹ نہیں ہے، اس لیے چند گھرانوں کو ہی ہمیشہ اقتدار میں شراکت داری ملتی ہے۔‘
سید مزمل شاہ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ضیاالحق کے دور میں ایک پالیسی بنائی گئی تھی جس کے تحت غیر مسلم ووٹرز کو علیحدہ الیکٹوریٹ میسر تھا جس کو بعد میں ختم کر دیا گیا۔اب سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ انہوں نے کس اُمیدوار کو مخصوص نشست پر ٹکٹ جاری کرنی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں بسنے والی 40 لاکھ اقلیتی آبادی پہلے سے ہی بہت سے حقوق سے محروم ہے۔ چنانچہ مخصوص گھرانوں سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہچنے والے اقلیتی ارکانِ اسمبلی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے لیے مزید مسائل پیدا کر رہے ہیں۔‘
مزمل شاہ کے مطابق ’پاکستان میں اقلیتوں کی نشستوں پر چند ہی خاندان سے مختلف شخصیات منتخب ہو رہی ہیں جس سے 40 لاکھ کی اقلیتی آبادی ووٹ دینے کے اپنے بنیادی حق سے ہی محروم ہو گئی ہے۔‘
بلوچستان سے مخصوص نشست پر منتخب سینیٹر دنیش کمار سمجھتے ہیں کہ اقلیتوں کو برابری کی سطح پر مخصوص نشستوں کے لیے حقوق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے ہر صوبے سے اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ہونی چاہئیں۔اقلیتی برادری کو مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دینے کے لیے اُن کی قابلیت دیکھی جانی چاہیے نہ کہ اُن کی ذات اور سیاسی اثرورسوخ۔‘
دنیش کمار نے بتایا کہ ’بلوچستان میں اقلیتی نشستوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ صوبے کی کل آبادی میں سے 1.5 فیصد اقلیتی برادری پر مشتمل ہے اور سب کو یکساں حقوق میسر ہیں۔‘
سندھ کے علاقے تھرپارکر سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ایڈووکیٹ سروان بھیل کہتے ہیں کہ ’95 فیصد ہندو برادری پر 5 فیصد اعلیٰ ذاتوں کے خاندان ہی قابض ہیں۔‘
سروان بھیل نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’سینیٹر رمیش کمار کے سسر سمیت خاندان کے دیگر افراد بھی سندھ میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ملک کی سبھی جماعتوں میں شامل ہندو سیاستدان ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار ہیں۔ یہ لوگ اپنا بزنس بچانے کے لیے اقلیتوں کا نام استعمال کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’تحریک پاکستان کی حمایت کرنے والے ہندو دلت تھے۔ ہم پاکستان بننے سے پہلے کے سندھ میں آباد ہیں۔ میں پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر سندھ سے مخصوص نشست پر ایم این اے کا اُمیدوار ہوں۔‘
انہوں نے سینیٹر رمیش کمار پر الزام لگایا کہ ’وہ ایک بار پھر پاکستان تحریکِ انصاف سے مخصوص نشست پر ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘