یمن کے حوثیوں کا امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کا بدلہ لینے کا عہد
یمن کے حوثیوں کا امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کا بدلہ لینے کا عہد
ہفتہ 13 جنوری 2024 6:38
حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساری کے مطابق برطانیہ اور امریکہ نے جمعے کو مختلف مقامات پر 73 فضائی حملے کیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
یمن کی حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر میں ان کے حملوں کے ردعمل میں ان کے زیر کنٹرول علاقوں پر امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا عہد کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق سینکڑوں حوثی ہمدرد صنعا اور دیگر شمالی یمنی صوبوں کی سڑکوں پر نکل کر حملوں کی مذمت اور غزہ کے لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
حوثی فوج کے ترجمان یحییٰ ساری نے کہا کہ برطانیہ اور امریکہ نے جمعے کی صبح صنعاء، حدیدہ، تعز، حجہ اور صعدہ میں مختلف مقامات پر 73 فضائی حملے کیے، جن میں ان کے پانچ فوجی ہلاک اور چھ زخمی ہوئے۔
انہوں نے بحیرہ احمر میں یا زمین پر امریکہ اور برطانیہ کے اہداف پر جوابی حملہ کرنے کے عزم کا اظہارکیا۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہمارے یمنی عوام پر غیر قانونی حملے کی پوری ذمہ داری امریکہ اور برطانیہ پر عائد ہوتی ہے، اور ایسا نہیں کہ اس جواب نہیں دیا جائے گا یا سزا نہیں دی جائے گی۔ یمن کی فوجی قوتیں یمن، اس کی خودمختاری اور اس کی آزادی کے دفاع کے لیے زمینی اور سمندر میں دشمن اہداف پر حملہ کرنے سے دریغ نہیں کریں گی۔‘
امریکی سینٹرل کمانڈ نے جمعے کے روز کہا تھا کہ اس نے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں 60 سے زیادہ اہداف پر حملے کیے ہیں، جن میں کمانڈ سینٹرز، اسلحہ ڈپو، لانچنگ سسٹم، صنعتی تنصیبات اور فضائی دفاعی ریڈار سسٹم شامل ہیں۔
صنعاء، حدیدہ اور تعز میں لوگوں نے حوثی فوجی تنصیبات سے بڑے دھماکوں کی آوازیں سننے کی اطلاع دی جب امریکہ اور برطانیہ نے مقامی وقت کے مطابق تقریباً 2.45 بجے ان پر حملہ کرنا شروع کیا۔
یہ کارروائیاں بحیرہ احمر میں تجارتی اور بحری جہازوں پر 20 سے زیادہ حوثی میزائلوں اور ڈرون حملوں کے جواب میں کی گئیں۔
حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
گروپ کی سپریم انقلابی کمیٹی کے سربراہ محمد علی الحوثی نے فضائی حملوں کو ’وحشیانہ اور دہشت گرد‘ قرار دیا اور کہا کہ ملیشیا دونوں ممالک کے خلاف ردعمل ظاہر کرے گی اور بحیرہ احمر کو اسرائیل جانے والے تمام بحری جہازوں کے سامنے روکنا جاری رکھے گی۔
الحوثی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’امریکی اور برطانوی حملے وحشیانہ، دہشت گردانہ اور بلاجواز ہیں جو ایک ظالمانہ نفسیات کو ظاہر کرتے ہیں۔‘
حوثیوں کے مذاکرات کار محمد عبدالسلام نے برطانیہ اور امریکی بمباری کی مذمت کا اعادہ کیا اور ملیشیا کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ وہ صرف اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اور بحیرہ احمر کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈال رہے ہیں۔
’انہوں نے اس جارحیت کے ساتھ حماقت کا ارتکاب کیا، اور اگر وہ سمجھتے تھے کہ یہ یمن کو فلسطین اور غزہ کی پشت پناہی کرنے سے روک لیں گے تو وہ غلطی پر تھے۔ یمن اپنی مذہبی اور انسانی حیثیت کو برقرار رکھتا ہے اور غزہ کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔‘
ان فضائی حملوں نے یمن میں ایک بحث کو جنم دیا ہے۔ بنیادی طور پر حوثی مخالفین نے فضائی حملوں کی بھرپور حمایت کی اور یمن میں اپنے زیر کنٹرول علاقوں سے حوثیوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ دیگر نے فضائی حملوں کو جارحیت کے طور پر دیکھا اور کہا کہ یہ یمن میں عدم استحکام کو ہوا دیں گے۔
حوثی نقاد کامل الخودانی نے بمباری کی حمایت کی اور حوثیوں کو حدیدہ اور ان کے زیر کنٹرول دیگر یمنی صوبوں سے باہر نکالنے کے لیے مزید زمینی فوجی کارروائیوں کی وکالت کی۔
انہوں نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’جس طرح آپ بین الاقوامی جہاز رانی کے لیے حوثی خطرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح ہم اپنے خلاف ان کے جرائم کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور جس طرح آپ سمندر کو آزاد کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہیں، اسی طرح ہم اپنی سرزمین آزاد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘
یمنی حکومت کی حمایت کرنے پر حوثی عدالت کی جانب سے غیر حاضری میں سزائے موت سنائے جانے کے باوجود یمنی رکن پارلیمنٹ محمد ناصر الحزمی نے فضائی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں یمن کے خلاف جارحیت قرار دیا۔
الحزمی نے کہا کہ یمن کے کسی بھی حصے پر حملہ ایک واضح اور قابل مذمت دشمنی سمجھا جاتا ہے اور کوئی بھی باشعور شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا۔