Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہزادی ریما بنت بندر نے سعودی عرب میں ویمن ٹینس ایونٹ کی مخالفت کو مسترد کر دیا

شہزادی ریما نےاس دلیل کو مسترد کیا کہ سعودی عرب کے معاشرے میں خواتین برابر نہیں ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ میں سعودی عرب کی سفیر شہزادی ریما بنت بندر نے ٹینس سٹارز کرس ایورٹ اور مارٹینا ناوراتیلووا کی جانب سے سعودی عرب میں خواتین کی ٹینس ایسوسی ایشن کے فائنلز کے انعقاد پر پابندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق پیر کو ایک بیان میں شہزادی ریما کے تبصرے کرس ایورٹ اور مارٹینا ناوراتیلووا کی 26 جنوری کو ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے مضمون کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔
ان دونوں ٹینس سٹارز نے مضمون میں کہا تھا کہ سعودی عرب میں صنفی مساوات نہیں ہے، اس سے ٹورنامنٹ کے فائنل ایونٹ کی میزبانی اسے نہیں ملنی چاہیے۔ شہزادی ریما نے لکھا کہ ’کھیلوں کو ذاتی تعصب، ایجنڈوں کو پھیلانے اور ٹینس کو اپنانے اور اس کے فروغ میں حصہ ڈالنے کے خواہش مند معاشرے کو سزا دینے کے لیے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے لکھا ’سعودی عرب میں خواتین کی عظیم ترقی کا اعتراف نہ کرنا ہمارے شاندار سفر کو بدنام کرنے کے مترادف ہے۔‘
شہزادی ریما نے مزید لکھا کہ ’دنیا بھر کی بہت سی خواتین کی طرح، ہم نے ٹینس کے لیجنڈز کو رول ماڈل اور امید کی کرن کے طور پر دیکھا کہ خواتین واقعی یہ سب کر سکتی ہیں۔ لیکن ان چیمپیئنز نے انہی خواتین سے منہ موڑ لیا ہے جنہیں انہوں نے متاثر کیا تھا اور یہ مایوس کن ہے۔‘
شہزادی ریما نے کہا کہ سعودی عرب میں خواتین کو اب روایتی طور پر مردوں کی اکثریت والے شعبوں جیسا کہ فوج، فائر فائٹنگ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور یہاں تک کہ خلائی تحقیق کے میدان میں بھی مواقع میسر ہیں۔
شہزادی ریما نے کرس ایورٹ اور مارٹینا ناوراتیلووا کی اس دلیل کو مسترد کیا کہ سعودی عرب کے معاشرے میں خواتین برابر نہیں ہیں۔
’اس پر مجھے صرف یہی کہنے دیجیے کہ ہمیں حقائق براہ راست حاصل کرنے چاہییں۔ (وہ اصطلاح) جسے اکثر ’گارڈیئن شپ‘ کہا جاتا ہے وہ آج سعودی خواتین کی حیثیت کی تشریح نہیں کرتی۔ خواتین کو سفر کرنے، کام کرنے یا اپنے گھر کا سربراہ بننے کے لیے کسی سرپرست کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آج سعودی خواتین تین لاکھ سے زیادہ کاروباروں کی مالک ہیں اور تقریباً 25 فیصد چھوٹی اور درمیانے درجے کی سٹارٹ اَپ کمپنیاں چلا رہی ہیں جو کہ امریکہ کے برابر ہے۔‘
’سعودی عرب میں خواتین اب مساوی تنخواہ لے رہی ہیں، جو ایک ایسی چیز ہے جسے پوری دنیا میں نافذ ہونا چاہیے۔‘
شہزادی ریما نے مزید کہا ’گو کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، خواتین کے لیے حالیہ پیش رفت، کام کی جگہوں پر خواتین کی شمولیت اور خواتین کے لیے پیدا کیے جانے والے سماجی اور ثقافتی مواقع واقعی بہت شاندار ہیں اور انہیں نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
شہزادی ریما نے کہا کہ مملکت میں تین لاکھ 30 ہزار رجسٹرڈ خواتین ایتھلیٹس ہیں جن میں سے 14 ہزار ٹینس میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہیں۔ ہزاروں خواتین کوچ، مینٹورز، ریفری اور سپورٹس ڈاکٹر کے طور پر مختلف صلاحیتوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
شہزادی ریما نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سعودی خواتین کو بے آواز متاثرین کے طور پر پیش کرنا نہ صرف کھیلوں میں ان کی ترقی کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ملک میں خواتین کی جانب سے کی جانے والی وسیع تر پیشرفت سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔

شیئر: